دماغ کی دَہی 


میڈیا میں ’’لیکس‘‘ بھی ہوتی ہیں۔ اخبارات کے متعارف ہونے کے ساتھ ہی نمودار ہونا شروع ہوگئی تھیں۔دوسوبرس گزرجانے کے باوجود مگر اس لفظ کا اُردو زبان میں متبادل ابھی تک دریافت نہیں ہوا۔ روایتی میڈیا میں تاہم جو’’لیکس‘‘ ہوتی ہیں ان کا مقصد سنگین ترین سیاسی معاملات کے حوالے سے کسی ایک فریق کے نکتہ نظر کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔اپنی ’’اوقات‘‘ سے باہر نکلتے طاقتور ترین حکمران کو پچھاڑنے کے لئے بھی ان کے مخالف ’’لیکس‘‘ سے حملہ آور ہوتے ہیں۔

مثال کے طورپر چین کے ساتھ تعلقات استوار کرتے ہوئے امریکی صدر نکسن اپنے ملک کے ریاستی اداروں کی اجتماعی قوت کے مقابلے میں دیوہیکل نظر آنا شروع ہوگیا تھا۔ امریکہ کی نام نہاد ’’ڈیپ اسٹیٹ‘‘ جسے ترکی نے خلافت عثمانیہ کے دنوں میں ’’دریں دولت‘‘ جیسا جامع نام دیا تھا اس کے خلاف متحرک ہوگئی۔ واشنگٹن کے دو دھانسو رپورٹروں سے امریکہ کے جاسوسی اداروں نے رابطہ کیا اور یوں واٹرگیٹ کا سکینڈل منظر عام پر آگیا۔اس کی وجہ سے نکسن کو بالآخر اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔

نکسن کے انجام نے اس کے بعد آنے والے صدور کو چوکنا بنادیا۔وہ اپنے مصاحبین پرکڑی نگاہ رکھتے۔ ان کے ساتھ مستقل رابطے میں رہنے والے صحافیوں کی نقل وحرکت اور ٹیلی فون پر ہوئی گفتگو بھی ریکارڈ ہونا شروع ہوگئی۔اوبامہ عراق کی طرح افغانستان سے بھی امریکی افواج نکالنے کا متمنی تھا۔ عسکری قیادت نے عراق کے ضمن میں ہوئے فیصلے کو بددلی سے ہضم کرلیا۔ افغانستان کے حوالے سے البتہ ڈٹ جانے کا فیصلہ ہوا۔ امریکی اخبارات میں اس کی وجہ سے خبروں اور مضامین کا سیلاب امڈ پڑا۔ مقصد اس کا امریکی رائے عامہ کو یہ سمجھانا تھا کہ افغانستان سے انخلاء دنیا کی واحد سپرطاقت کے امیج کو تباہ کرنے کے لئے ’’ایک اور ویت نام‘‘ ثابت ہوگا۔ افغانستان کی جنگ بھرپور انداز میں جیتنے کے لئے لہٰذا وہاں سے افواج نکالنے کے بجائے مزید فوج بھیجی جائے گی۔ اوبامہ اس تناظر میں اپنے مؤقف پر قائم نہ رہ پایا۔

اپنے صدور کا ’’مکو ٹھپنے‘‘ کے علاوہ امریکہ جیسے ممالک کی ’’دریں دولت‘‘ دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کے ضمن میں بھی’’لیکس‘‘ کی کمال مہارت سے پشت پناہی کرتی ہے۔ مثال کے طورپر گزشتہ چند دنوں سے قیاس آرائیاں ہورہی ہیں کہ امریکہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے مکمل انخلاء کے بعد اس ملک پر نگاہ رکھنے کے لئے پاکستان میں فوجی اڈے کے قیام کا تقاضہ کررہا ہے۔ہمارے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی صاحب نے پارلیمان میں کھڑے ہوکر اس امکان کو رد کردیا۔معاملہ وہاں ختم ہوجانا چاہیے تھا۔’’نیویارک ٹائمز‘‘ نے تاہم امریکی سی آئی اے کے سربراہ کے دورئہ پاکستان کی ’’خبر‘‘چلادی۔اس کی تردید ممکن نہیں تھی۔ہمارے پالیسی سازوں کو لہٰذا اپنے اعتماد کے صحافیوں کو مذکورہ دورے کے تناظر میں چند تفصیلات فراہم کرنا پڑیں۔ان کے ذریعے پیغام یہ ملا کہ ریاستِ پاکستان امریکی خواہش کو بروئے کار نہیں لاسکتی۔امریکی میڈیا میں اس کے باوجود پاکستان کے حوالے سے ’’لیکس‘‘ کا سلسلہ ابھی تک ختم نہیں ہوا ہے۔

خارجہ امور کئی برسوں تک میری پیشہ وارانہ ذمہ داری رہے ہیں۔گزشتہ تین دنوں سے لہٰذا پاکستان میں فوجی اڈے کے حوالے سے برسرعام آئی امریکی خواہش اور اس کے تناظر میں ٹھوس حقائق اور حتمی پالیسی سازوں تک رسائی کے بغیر اپنے دماغ کی ’’دہی‘‘ بنانے میں الجھارہا۔ بہت سوچ بچار کے بعد جو ذہن میں آیا اسے جمعرات کی صبح چھپے کالم میں بیان کردیا۔

آج صبح یہ کالم لکھنے سے قبل جمعرات کی صبح چھپے ہوئے کالم کوسوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے لئے لیپ ٹاپ کھولا تو فیس بک اور ٹویٹر پر ایک اور ’’لیک‘‘ چھائی ہوئی تھی۔پنجاب کی مشیر اطلاعات محترمہ فردوس عاشق اعوان صاحبہ ہمارے ایک سٹار اینکر اور کالم نگار جناب جاوید چودھری کے ٹی وی پروگرام میں شریک ہوئی تھیں۔وہاں پیپلز پارٹی کے حال ہی میں کراچی سے منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی بہرہ مند صاحب بھی موجود تھے۔مندوخیل صاحب کو پہلی بار گزرے پیر کی شام پارلیمان کے اس کمرے میں دیکھاتھا جو بلاول بھٹو زرداری کو قومی اسمبلی کی انسانی حقوق کی کمیٹی کی سربراہی کی بدولت فراہم کیا گیا ہے۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے مندوخیل سے میرا تعارف کروایا۔ وہاں عبدالقادر پٹیل بھی موجود تھے۔ اپنے مخالفین کو چست فقروں سے زچ کرنا کوئی ان سے سیکھے۔مندوخیل مگر ان سے ’’دو قدم‘‘ آگے جاتے نظر آرہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر جو کلپ وائرل ہوئی ہے اسے دیکھیں تو گماں ہوتا ہے کہ ’’نیوز اینڈ کرنٹ افیئرز‘‘ کی گتھیاں سلجھانے کے نام پر ہوئے ایک ٹاک شو کے دوران مندوخیل صاحب نے محترمہ فردوس اعوان صاحبہ کو اشتعال دلادیا۔ طیش میں آکر انہوں نے مندوخیل کے منہ پر تھپڑ بھی رسید کردیا۔ کراچی سے آئے رکن اسمبلی ہکا بکا رہ گئے۔جوابی وار کرتے تو خاتون کی توہین کے مرتکب قرار پاتے۔ عاشق اعوان صاحبہ کی مگر تسلی نہیں ہوئی ہے۔ خصوصی طورپر ریکارڈ کروائے ایک وڈیو پیغام کے ذریعے اعلان کیا ہے کہ وہ مندوخیل کو ایک خاتون کے خلاف بے بنیاد الزامات لگانے کے لئے ’’غلیظ اور اشتعال انگیز زبان‘‘ کے استعمال کا معاملہ بھولیں گی نہیں۔ آئین کے آرٹیکل62/63کو مندوخیل کی نااہلی کے لئے بروئے کار لانے کے لئے آخری حد تک جائیں گی۔

فردوس عاشق اعوان صاحبہ اورمحترم مندوخیل کے مابین ہوئے ٹاکرے کی وڈیو جس انداز میں وائرل ہوئی ہے اس نے میرا دل جلادیا ہے۔مسلسل خود پر لعن طعن میں مصروف ہوں۔ اس سوال کے ساتھ کہ میں گزشتہ چند دنوں سے پاکستان میں فوجی اڈے کی خواہش کے حوالے سے امریکی میڈیا میں ہوئی لیکس کی بابت اپنا سرکیوں کھپاتا رہا۔ اپنے دماغ کی دہی بناکر بالآخر اس حوالے سے میں نے جو کالم لکھا اسے جمعرات کی صبح چھپنے کے بعد سوشل میڈیا پر ویسی پذیرائی ہرگز نہیں ملی جو محترم جاوید چودھری کے پروگرام سے ہوئی’’لیک‘‘ کو نصیب ہوئی ہے۔

ہنر ابلاغ کے حتمی ماہر جناب فواد چودھری درست ہی تو کہتے ہیں کہ ٹی وی سکرینوں پر نظر نہ آنے والے دور حاضر میں ’’صحافی‘‘ نہیں رہے۔ وہ ان دنوں سکرینوں پر نام نہاد ’’حق گوئی‘‘ کے باعث نظر نہیں آرہے۔اصل مسئلہ یہ ہوا کہ وہ جن اداروں کی سکرینوں پر نمودار ہوتے تھے ان کے لئے Ratingsلینے میں پھسڈی ثابت ہوئے۔ صحافتی اداروں نے انہیں خود پر ’’مالی بوجھ‘‘ تصور کیا اور نوکری سے فارغ کردیا۔ ’’سٹارز‘‘ کے ساتھ عموماََ یہ ہوجاتا ہے۔ ہمارے ایک ہیرو تھے۔ وحید مراد ان کا نام تھا۔ ’’چاکلیٹی ہیرو‘‘ پکارے جاتے تھے۔پھر ان کی فلمیں دھڑادھڑفیل ہونا شروع ہوگئیں۔ فلم سازوں نے انہیں بھلادیا۔ فراموش ہوئے وحید مراد اداس ہوئے تنہائی میں دل جلاتے رہے۔

یوٹیوب نے مگر ٹی وی ٹاک شوز کے کئی’’سٹارز‘‘ کو ربّ کا صد شکر’’وحید مراد‘‘ بننے نہیں دیا۔اپنے فون میں نصب کیمرے کے سامنے خطاب فرماتے اور سوشل میڈیا پر ’’اپ لوڈ‘‘ کردیتے ہیں۔ان میں سے کئی ایک کے مستقل صارفین کی تعداد اب لاکھوں کو چھورہی ے۔ان کی مقبولیت نے نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد کو بھی ’’صحافی‘‘ بننے پر اُکسایا ہے۔ ’’اندر‘‘ کی ہر ’’خبر‘‘ ان کے پاس سرجھکائے پہنچ جاتی ہے۔ و ہ اس سے کھیلتے ہیں اور رونق لگادیتے ہیں۔اپنی ساری عمر صحافت کی نذر کردینے کے باوجود میرے ساتھ ’’فرازؔ تم کو نہ آئیں محبتیں کرنی‘‘والا معاملہ ہی رہا۔ بدستور اس گماں میں مبتلا ہوں کہ ہمارے عوام کے ذہنوں میں چند سوالات ابھررہے ہیں۔’’صحافی کے لئے ان کا جواب ڈھونڈنالازمی ہے۔

محترمہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور مندوخیل صاحب کے مابین ہوئے ٹاکرے والی ویڈیو کی مقبولیت نے مگر شدت سے احساس دلایاہے کہ ہمارے لوگوں کی بے پناہ اکثریت کو سنجیدہ سوالات کے سوچ بچار کے بعد تیار کئے جوابات کی ہرگز ضرورت نہیں۔ انہیں اپنا جی بہلانے کو محض ’’چسکہ‘‘ درکار ہے۔ خلافتِ عباسیہ کے دوران بغداد تہذیب وتمدن کا حتمی مرکزشمار ہوتا تھا۔’’وحشی‘‘ منگولوں نے اسے گھیرے میں لے لیا۔ بغداد کے شہری مگر ان کے ارادوں سے بے خبر گلیوں اور بازاروں میں مناظروں کے ذریعے یہ طے کرنے میں مصروف رہے کہ طوطا حلال ہے یا حرام۔ دلی کے تخت طائوس پر کبھی مغلیہ سلطنت کا محمد شاہ بیٹھا تھا۔ ایران کا ایک فوجی دلاور نادرشاہ دلی کی دولت لوٹنے اس شہر کی جانب مسلسل بڑھ رہا تھا۔’’تیمور‘‘ کا جانشین مگر ’’ہنوز دلی دور است‘‘ کا مدد کرتا رہا۔

دور حاضر میں ہمارے ہمسائے یعنی افغانستان میں جو لاوااُبل رہا ہے اس کے بارے میں بھی ہم ہرگزفکرمند نہیں ہیں۔مولا محترمہ فردوس عاشق اعوان صاحبہ کو مزید دلیری عطا فرمائے۔ وہ ٹی وی ٹاک شوز میں شریک ہوتی رہیں۔ دل کو بہلانے کے لئے چسکہ بھری ویڈیوز وائرل ہوتی رہیں گی اور اپنے تئیں قوم کی ’’ذہن سازی‘‘ پر مامور ’’صحافی‘‘ یہ طے کرنے میں مصروف ہوجائیں گے کہ ’’زیادتی کس کی تھی؟‘‘

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments