امڑی


میرے والد اکلوتی اولاد تھے۔ اکلوتے ہونے نے انہیں انٹروورٹ اور کم گو بنا دیا۔ ان کے زیادہ دوست نہیں بن پائے۔ امی اس کے برعکس ایک بھرے پرے خاندان سے آئی تھیں چناں چہ رشتہ بنانا اور نبھانا جانتی تھیں۔ خالی ستر اسی تو ان کی کولیگز تھیں۔ کسی کے گھر میلاد ہو رہا ہے تو کسی نے ایویں ہی گیٹ ٹو گیدر رکھی ہوئی ہے۔ خود ہمارے اپنے گھر پارٹی کا سا سماں رہتا۔ آس پڑوس میں بھی ان کی کولیگز کے گھر تھے۔ مسلسل آنا جانا لگا رہتا۔

میکہ بھی قریب ہی تھا۔ جب جی چاہا چکر لگا لیا۔ چار بھائیوں اور دو بہنوں میں ان کا خوب دل لگتا۔ شادی کے بعد والدہ سے بھی بہناپا گانٹھ لیا۔ گھنٹوں گپ لگائی جاتی، لڈو اور کیرم کھیلا جاتا، موسمی پکوان بنائے جاتے۔ آج بھی ان بہن بھائیوں کے آپسی تعلق پر رشک آتا ہے کہ کس طرح وہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے بڑی بڑی خوشیاں کشید کر نے کا ہنر جانتے تھے۔

میں بچپن ہی سے امی کے لیے باعث آزار رہا۔ ورکنگ لیڈی ہونے کے ناتے ان کے لیے کیرئیر اہم تھا مگر اس کے باوجود انہوں نے میری پرورش کی خاطر ایک ایسی ترقی ٹھکرا دی، جو اگر انہوں نے قبول کرلی ہوتی تو کم از کم بیسویں گریڈ تک ضرور جا پہنچتیں۔ میں سدا کا چغل خور اور جھوٹا تھا۔ چھے سات برس کی عمر میں ایسی ایسی کہانیاں گھڑ لیتا کہ سننے والے کو یقین کرتے ہی بنتی۔ امی کی کم از کم دو بہترین سہیلیاں اسی شر پسندی کی نذر ہو گئیں۔

سہیلیوں کی حد تک تو خیر تھی۔ ان کی اصل قربانی ہم بہن بھائیوں کی خاطر شجاع آباد چھوڑ کر ملتان شفٹ ہونا تھا۔ اور شفٹنگ بھی ایسی کہ قریب قریب دس سال تک روز سو کلومیٹر کا سفر کرنا پڑے، اپنا ذاتی گھر چھوڑ کر کرائے کے گھروں کی خاک پھانکنی پڑے، ایک بھرپور سماجی زندگی ترک کرنی پڑے، خون کے رشتوں سے فاصلہ اختیار کرنا پڑے۔ یہ سب آسان نہ تھا۔ اور ایسے فرد کے لیے تو بالکل نہیں، جس کی آکسیجن اس کا سوشل سرکل اور رشتے ہوں۔

شجاع آباد ایک چھوٹی سی تحصیل ہے۔ کم وبیش ہر آدمی دوسرے آدمی کو جانتا ہے۔ تھوڑی سی کشادگی اور گرمجوشی کا مظاہرہ کیا جائے تو دوستوں کی لائن لگ جائے۔ ملتان کی بات الگ ہے۔ یہاں ایک خاص عمر کے بعد جینوئن انسانی تعلقات بننے کا امکان کم ہو جاتا ہے۔ میں نے تو کالج اور ادبی محفلوں میں نئے دوست تلاش کر لیے، باقی بہن بھائیوں کو بھی کمپنی میسر آ گئی، امی اور ابو اکیلے رہ گئے۔ ابو تو سدا کے آدم بیزار تھے، ان کو کیا فرق پڑنا تھا۔ امی کو یہ بیگانگی کی زندگی زیادہ راس نہ آئی۔

حق تو یہ بنتا تھا کہ اس بے مثل قربانی کی قدر کی جاتی۔ میں نے مگر اسے اپنا حق سمجھا۔ رات گئے تک گلگشت کی سڑکوں پر ٹہل خرامی کرنے کے بعد چوروں کی طرح دروازہ پھاند کر گھر میں داخل ہوتا تو امی اکثر جاگتی ہوئی ملتیں۔ شرم تو بہت آتی مگر ’رات گئی بات گئی‘ کے مصداق اگلے روز پھر یہی کہانی دہرائی جاتی۔ ایک لمحے کے لیے ایسے والدین کا تصور کیجیے جو اولاد کو اعلی تعلیم دلوانے کی خاطر اپنے آبائی شہر سے نقل مکانی کر کے آئے ہوں اور پہلوٹھی کا بیٹا رات کے آخری پہر گھر لوٹے۔ کہنے کو تو میڈیکل کالج کا طالب علم ہو مگر دو سالوں سے ایک ہی کلاس میں ٹکا ہو۔ زیادہ باز پرس کی جائے تو منہ کو آنے لگے۔

وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ تیسرے ہی سال ایکسپلشن کا پروانہ مل گیا۔ میں مگر خاموش رہنے یا شرمندہ ہونے کے بجائے لاوے کی طرح پھٹ پڑا۔ مجھے غصہ تھا اس سسٹم پر جو انسانوں کے بیچ فرق کرتا ہے۔ اس تعلیمی نظام پر جو استاد کو استاد نہیں رہنے دیتا باس بنا دیتا ہے، مگر صرف ان لوگوں کے لیے جو متوسط یا نچلے طبقوں سے تعلق رکھتے ہوں۔ مجھے غصہ تھا ان والدین پر جو اپنے بچوں کے اپٹیچوڈ کو سمجھے بغیر انہیں اپنے رنگ برنگے خوابوں کی بھٹی میں جھونک دیتے ہیں، اور یہ خواب بھی ان کے اپنے نہیں ہوتے، سماج سے مستعار لیے ہوتے ہیں۔

غصے اور ناکامی کی خجالت میں سسٹم اور سراؤنڈنگ کو پوری طرح سے لتاڑنے کے بعد میں نے اپنے والدین کو اس ناکامی کا ذمے دار ٹھہرایا۔ میں نے انہیں بتایا کہ اگر وہ مجھے ڈاکٹری کی طرف نہ دھکیلتے، تو اتنی کم عمری میں اتنا بڑا حادثہ نہ جھیلنا پڑتا، جس نے مجھے جوان ہونے سے پہلے بوڑھا کر دیا۔ کوئی اور والدین ہوتے تو شاید مجھے گھر سے چلتا کرتے۔ امی ابو نے مگر خاموشی سے میری سب باتیں سنیں۔ صرف میری ہی نہیں ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کی باتیں سنیں۔ میرے والدین محنتی اور شریف لوگ تھے۔ وہ یہ سب ڈیزرو نہیں کرتے تھے۔ میری وجہ سے وہ ایک ایسے کٹہرے میں آ کھڑے ہوئے، جہاں ان کی اہلیت اور تربیت پر طرح طرح کے سوال اٹھائے گئے، اور جب وہ جواب دینے میں ناکام رہے تو انہیں ہتک اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔

میں تادم مرگ بھوک ہڑتال کرنا چاہتا تھا۔ جے سالک کی طرح پنجرے میں بند ہو کر احتجاج کرنا چاہتا تھا۔ ایک سے زائد بار میں نے اپنے انٹرنل ایگزامینر کو قتل کرنے کا سوچا۔ اگر والدین کا ساتھ نہ ہوتا تو معلوم نہیں میری دیوانگی اور ہذیان کا سلسلہ کہاں جا کر رکتا۔ انہوں نے مجھے یقین دلایا کہ ان کا اور میرا تعلق غیر مشروط ہے۔ اسی اعتماد سے شہ پا کر میں نے ”نرکھ میں نرتکی“ نامی ایک کتاب لکھی اور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کرنے کا فیصلہ کیا۔

کتاب چھاپنے کے لیے پبلشر اور کیس لڑنے کے لیے وکیل چاہیے تھا اور یہ دونوں کام پیسوں کے بغیر ممکن نہیں تھے۔ اتنا پیسہ ایک ساتھ کہاں سے آتا؟ ایک آپشن زمین بیچنے کا تھا مگر اس سے پہلے کہ زمین بیچی جاتی، امی نے اپنی چوڑیاں بیچ دیں۔ جب تک مجھے علم ہوا کہ پیسے کہاں سے آئے تھے، کتاب چھپ چکی تھی اور کیس دائر ہو چکا تھا۔ میں نے خود کو انتہائی گھٹیا، کمینہ اور لاچار محسوس کیا۔ امی سے شکوہ کیا تو انہوں نے پیار سے ایک چپت لگائی اور کہنے لگیں :

”سونے کا کیا ہے وہ تو پھر بن جائے گا، میرا اصل زیور تو تم لوگ ہو۔“

میری انکھوں میں آنسو آ گئے۔ ان کی انکھیں بھی ڈبڈبا گئیں۔ کچھ دیر خاموش رہیں۔ پھر بہت رسان سے بولیں :

”جو چاہے کرو۔ جیسے مرضی جیو۔ بس اتنا خیال رکھنا کہ کسی ایسے راستے پر مت نکل جانا، جہاں سے واپسی نہ ہو پائے۔“

ایک جانب سماج تھا جس کے نزدیک میں ایک ارزل ترین فرد تھا۔ دوسرا جانب میں تھا جس کے نزدیک یہ ایک بد ترین سماج تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ میرے والدین نے سماج کے بجائے میرا ساتھ دیا۔ میں نے اپنی مرضی کی ڈگری لی، اپنی خوشی کی نوکری کی اور اپنی پسند سے شادی کی۔ امی کی آشیرواد ہمیشہ میرے ساتھ رہی۔ زندگی تو وہی تھی مگر اس کے بعد اتنی مشکل نہ رہی۔ امی کے دیے ہوئے بھروسے نے اسے ایک نئی سمت دے دی۔ مجھے اپنی شرطوں پر جینا آ گیا، اس اطمینان کے ساتھ کہ جب کبھی تھک کر گروں گا، میری ماں مجھے اپنی آغوش میں سمیٹ لے گی۔

میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے اپنی ماں کو اتنا سکھ نہیں دیا، جتنا دکھ دیا ہے۔ شاید ایسی ہی اولاد کو آزمائش کہا گیا ہے۔ امی تو اس آزمائش میں سرخرو ٹھہری ہیں لیکن میرا کیا ہوگا کہ میں نے جو فصل بوئی ہے وہ مجھے اسی جہان میں کاٹنی ہے، اور میرے پاس وہ ظرف بھی نہیں جس میں دنیا جہان کی خطاؤں کو معاف کرنے کا حوصلہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments