دوبارہ دیکھنے کی ہوس ہے


کینیڈا ویزہ ایپلیکیشن سنٹر مسقط کے پاسپورٹ کلیکشن کاؤنٹر پر کھڑے ہمارے میاں جی نے بے تابی سے لفافے کھولے۔ مسکراتے ہوئے ہمارا پاسپورٹ لہرا کر بولے ”ویزہ لگ گیا ہے“ ۔ دوسرا لفافہ کھولنے پر ان کے چہرے کا تغیر دیکھ کر ہم ابھی کچھ سمجھ نہ پائے تھے کہ انہوں نے رد کی گئی درخواست کے پرزے پرزے کر کے فضا میں اچھال دیے اور دروازے کی طرف بڑھ گئے۔ ہم چور بنے ان کے پیچھے چل پڑے۔ گاڑی میں اعصاب شکن سناٹے کو توڑنے کی خاطر ہم نے پوچھا

”وجہ کیا بتائی ہے رد کرنے کی“
خاموش رہو۔ میں اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتا ”

ہم ناکردہ گناہ پر پشیمان اس سوچ میں غلطاں تھے کہ FIGO ورلڈ کانگریس میں شرکت کے لیے کینیڈا جائیں یا نہیں۔ فیگو کا گائنی کے شعبے میں وہی مقام ہے جو کھیلوں میں اولمپکس کا ہے۔ وینکوور میں منعقد ہونے والی اکیسویں فیگو ورلڈ کانگریس میں شرکت کے لیے کینیڈا کے ویزے کی عرضداشت داخل کی تھی۔ چونکہ مندوبین کے ازواج کو فیگو کی جانب سے معیت کا دعوت نامہ حاصل تھا اس لئے میاں جی کے لئے بھی ویزہ کی گزارش کی تھی۔ خدا معلوم کینیڈا کے سفارت خانے نے یہ ستم کیوں کیا تھا کہ ہمیں تو کینیڈا میں داخلے کا پروانہ جاری کر دیا تھا لیکن ہمارے شریک حیات کو شریک سفر ہونے سے روک دیا تھا۔ بقر عید آنے والی تھی ہم سب پاکستان چلے گئے۔ معاملے کی حدت کم ہوئی تو ہم نے پوچھا۔ ”ہم جائیں کہ نہیں“

”ضرور جاؤ۔ میں نے تمہیں کبھی کسی کام سے روکا ہے“

سولہ آنے ٹھیک کہا تھا انہوں نے۔ میں تہ دل سے ان کی وسیع النظری، اعتماد اور تعاون کی ممنون ہوں جس کے بغیر میرے لئے کارزار حیات میں آگے بڑھنا ممکن نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ہر کامیاب عورت کے پیچھے باپ بھائی یا شوہر کا اخلاقی سہارا اور ماں کا ساتھ شامل حال ہوتا ہے۔ مسقط واپسی پر سوچا لگے ہاتھوں لفتھانسا کے ائرپورٹ آفس میں میاں جی کے ٹکٹ کی واپسی کی درخواست دے دیں۔ افسر نے گوشوارہ کھول کر کچھ دیر مطالعہ کیا اور پوچھا

”آپ کے پاس امریکہ کا ویزہ ہے“
”ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ“ ٹکٹ کی واپسی میں امریکہ کا ویزہ کہا سے در آیا۔

ہماری آنکھوں میں تحیر دیکھ کر اس نے کہا ”آپ کی فلائٹ واپسی پر ٹورنٹو سے امریکہ کے شہر سی ایٹل Seattle پر دو گھنٹے ٹھہرتی ہوئی مسقط آئے گی۔ اس کے لئے آپ کے پاس امریکہ کا ویزہ ہونا لازمی ہے۔“

دراصل پہلی بار سات سمندر پار کا سفر کرنے اور خود کو اناڑی تصور کرتے ہوئے ہم نے مغربی ممالک کا بارہا سفر کرنے والی تجربہ کار دوست سے درخواست کی تھی کہ ہمارے لئے فلائٹ اور ہوٹل بک کروا دیں۔ ہمیں یقین ہے سہوا ان سے یہ نکتہ نظر انداز ہوا ہو گا۔ اور ہم تو تھے ہی اناڑی۔ اگلی صبح امریکی سفارت خانے کا رخ کیا۔ اور انہیں بپتا سنائی۔ ہمیں بتایا گیا پانچ دن لگیں گے۔ ہماری روانگی دو دن بعد تھی۔ ہم۔ نے پوچھا کیا ہم سی ایٹل ائرپورٹ پر اتر کر دو گھنٹے کا ٹرانزٹ ویزہ لے سکتے ہیں۔

”نہیں۔ ویزہ صرف مسقط یا پاکستان سے ہی ایشو کیا جا سکے گا“

نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کے مصداق واپسی کے لئے نیا ٹکٹ لینا پڑا جو پرانے ٹکٹ سے تین روز اگے کا تھا۔ تمام احوال سنا کر جب تین روز چھٹی بڑھانے کی درخواست کی گئی تو بھارتی نژاد صدر شعبہ امراض نسواں جن کا تکیہ کلام ’آئی نو‘ تھا یہ ماننے کو تیار نہ تھیں کہ ٹرانزٹ کے لئے پہلے سے ویزہ لینے کی ضرورت تھی۔ اب سبک سر بن کے انہیں کیا بتاتے کہ امریکہ بہادر برس ہا برس سے پاکستان سے دوستی کا دعویٰ کرنے کے باوجود پاکستانیوں پر غیر معمولی قدغن کیوں لگاتا ہے۔

قصہ مختصر روانگی کی رات وقت سے پہلے ائرپورٹ پہنچ گئے مبادا پھر کوئی آنکڑہ پڑ جائے۔ تمام مراحل سے بخیریت گزر کر انتظار گاہ میں بیٹھے ناول کی ورق گردانی کر رہے تھے کہ سیاہ پتلون اور سرخ بشرٹ میں ملبوس ہماری دوست آتی دکھائی دیں۔ انہوں نے سرتاپا ہمارا جائزہ لے کر کہا

”یہ کیوں پہنا؟
”کیا مطلب۔ یہ گل احمد کا ڈریس ہے۔ ہم نے سبک کڑھائی والے لباس کی طرف اشارہ کر کے کہا۔
”میرا مطلب ہے ویسٹرن ڈریس پہنتیں ناں“

میرا نظریہ یہ ہے کہ بیرون ملک ہر پاکستانی ملک کا نمائندہ ہوتا ہے۔ اپنے لباس، وضع قطع، زبان اور رویے سے وہ فرد واحد نہیں بلکہ ملک کی نمائندگی کرتا ہے۔ جو کبھی پاکستان نہ آیا ہو وہ پاکستانیوں سے مل کر ہی پاکستان کا خاکہ بنائے گا۔ اس لئے ہم چاہتے تھے کینیڈا میں اترتے ہوئے ہم نے قومی لباس زیب تن کیا ہو۔

”چلو تھوڑی دیر آرام کرلیتے ہیں رات بھر کا سفر ہے“ انہوں نے کہا اور ہم برابر برابر کے کاؤچ پر دراز ہو گئے۔ وہ اپنے لمبے اسٹریپ والے چھوٹے سے سرخ اسٹائلش پرس کو پیٹ پر رکھ کر سو گئیں اور ہم اپنے چھوٹے ہینڈل والے بڑے سے سیاہ پرس کو بغل میں دبائے ناول پڑھنے لگے۔ نیند کا جھونکا لے کر وہ جاگیں تو اڑان کا وقت ہو گیا تھا اور پکار پڑ رہی تھی۔ ہم نے اپنا بیگ سنبھالا اور چلنے کو قدم بڑھائے کہ ان کی تجزئیاتی نگہ پر ٹھٹک گئے۔

”اتنا بڑا پرس!“
یہ ہماری زنبیل ہے اس میں سفری کاغذات موبائل فون، میک اپ، والٹ اور ناول سب سما جاتا ہے ”
”ہاں لیکن آج کل چھوٹے پرس کا فیشن ہے۔“
( بعد ازاں کراچی میں ایک موٹر سائیکل سوار اچکا ہمارا یہ پرس اچک کر لے گیا )

ہماری نشستیں ساتھ ساتھ تھیں۔ لذت کام و دہن کے ساتھ گفت و شنید چلتی رہی۔ بس ذرا کی ذرا آنکھ لگی تھی کہ فرینکفرٹ آ گیا۔ یہ دنیا کے مصروف ترین ہوائی اڈوں میں سے ایک ہے اور یہاں خوب گہما گہمی تھی۔ سیاہ پرس سنبھالتے اور ٹرالی بیگ گھسیٹتے ہم اس فکر میں گم تھے کہ ہمارے پاس تو جرمنی کا ویزہ بھی نہیں۔ لیکن بھلا ہو جرمنوں کا انہوں نے امریکہ کی طرح ہم سے سوتیلوں کا برتاو نہیں کیا۔ البتہ سیکیورٹی سے گزرتے وقت ہم سے وہی سلوک ہوا جو ہمارے ایک وزیراعظم کے ساتھ امریکہ کے ائرپورٹ پر کیا گیا تھا۔ ان کے کوٹ کی طرح ہمارا ڈھائی میٹر کا دوپٹہ علیحدہ کر کے اسکینر سے گزارا گیا۔ ٹرالی بیگ کی تلاشی کے دوران انہیں ’مزیدار حلیم‘ کے ٹن نظر آئے جو ہم نے یہ سوچ کر رکھ لئے تھے کہ حلال کھانے کا بندوبست نہ ہو سکا تو حلیم سے گزارا ہو جائے گا۔

”یہ کیا ہے“
”ٹن پیک فوڈ“

افسر نے ڈبہ اپنے کان کے نزدیک لے جاکر جھنجھنے کی طرح ہلا یا اور بولا ”کچھ سیال ہے۔ کس چیز سے بنا ہے“

ہم نے اسے حلیم کے اجزائے ترکیبی سے روشناس کیا۔

”انٹریسٹنگ۔ مگر مجھے افسوس ہے لیڈی سیال شے لے جانے کی اجازت نہیں۔ اگلی بار خشک غذا کے ٹن لائیے گا“ وہ ڈبے اٹھا کر کوڑے دان میں پھینکنے لگا۔ دوپہر ہو چلی تھی اور بھوک محسوس ہو رہی تھی۔ ہم۔ نے پوچھا ’کیا ہم اسے یہیں کھول کر کھا سکتے ہیں ”

”ضرور۔ وہاں بیٹھ کر“ اس نے بنچ کی طرف اشارہ کیا۔

ہم نے ڈبے کی پن کھینچ کر کھولا، اپنی زنبیل سے چمچہ نکالا اور ٹھنڈا حلیم غپا غپ حلق سے اتارا۔ ہم سوچ رہے تھے کاش ہمارے پاس اونٹ کا معدہ ہوتا تو ایک ڈبہ بھی کوڑے دان میں نہ جانے دیتے اور اگلے اٹھارہ دن وقت ضرورت جگالی کرلیتے۔ خورد و نوش سے فارغ ہو کر جب اپنا سامان اٹھائے دوست کی طرف آئے تو حسب توقع کمان پر تیر چڑھائے منتظر تھیں۔

”یہ گھر سے کھانا باندھ کے لانے کی کیا ضرورت تھی“
یہ ٹن پاکستان سے اسی بیگ میں لائی تھی۔ مسقط پر تو کسی نے نہ روکا ”
یہ یورپ ہے ”

ٹھیک ہی کہا تھا انہوں نے۔ مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک کے سفر کا تجربہ مغربی دنیا پر لاگو نہیں ہوتا۔ وے تو ہمارے لئے خالہ جی کا گھر ہیں۔ بہرحال یہ اس سفر کا دوسرا سبق تھا۔ ائندہ سفر سے پہلے متعلقہ ائر پورٹ کے قواعد و ضوابط کا اچھی طرح مطالعہ کرنے کی عادت ڈال لی۔ دو گھنٹے کے بعد سفر پھر شروع ہوا۔ فرینکفرٹ سے وینکوور سات گھنٹے کی پرواز تھی۔ ہمارے ساتھ ایک کینیڈین جوڑا بیٹھا تھا۔ خاتون نے پہل کرتے ہوئے کہا ”طویل سفر ہے باتیں کر کے ہی وقت کٹے گا۔ کیوں نہ تعارف ہو جائے“ اور جب انہیں علم ہوا کہ میں پاکستانی ہوں اور اکیلے سفر کر رہی ہوں تو بھونچکا ہو کر بولیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments