امریکی پالیسی، دوغلا رویہ


نیٹو کے سیکرٹری جنرل ینز اسٹولٹنبرک نے غیر مبہم اور بے دھڑک انداز میں کہا ہے کہ اس بارے میں کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ امریکی اور اتحادی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد افغان حکومت یا اس کی سیکیورٹی فورسز کامیاب ہو سکیں گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان میں صورت حال بہت غیر یقینی ہے۔ ”ہمیں حقیقت کا سامنا کرنا چاہیے اور وہاں صورت حال میں بلاشبہ بہت غیر یقینی پائی جاتی ہے“ ۔ انہوں نے مزید کہا ”(افغانستان سے ) نکلنے کا فیصلہ اپنے اندر بہت سے خطرات رکھتا ہے“ ۔

افغانستان میں غیر ملکی جارحیت کے چالیس برس مکمل ہونے کے بعد بھی اس امر کی بھی کوئی ضمانت نہیں کہ عالمی قوتیں اپنے فروعی مفادات کے لئے آئندہ افغانستان کی سرزمین کا استعمال نہیں کریں گی۔ عالمی ذرائع ابلاغ میں غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد کی صورت حال پر آئے روز نت نئے بیانات، تحفظات، خدشات اور پالیسی کو یو ٹرن کرنا معمول بن چکا، جیسے افغانستان کسی عالمی قوت کی نوآبادی ہو، کچھ ایسی ہی صورت حال پاکستان کے حوالے سے عالمی منظر نامے میں تاثر بنایا جا چکا کہ پاکستان کو جو حکم دیا جائے گا، وہ من و عن اس پر عمل کرے گا۔

ضروری ہے کہ عالمی قوتیں کمزور حکومتوں کے معاملات میں دخل اندازی سے گریز کریں تو یہ زیادہ بہتر ہوگا، ہر ملک کا معاملہ اس کا اپنا ہوتا ہے، کسی عالمی قوت کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ اپنی اختراع کردہ رپورٹس کی بنیاد پر عراق طرز پر کسی بھی ملک پر چڑھائی کرتا پھرے، معاملات میں بگاڑ اسی وقت پیدا ہوتے ہیں جب طاقت ور کمزور کو نگلنے کی کوشش کرتا ہے۔ افغانستان میں سوویت یونین کا آنا اور قبضے کی خواہش نے ان سیاسی لیڈروں کو افغان قوم کے سامنے شرمندہ کیا، جن کی وجہ سے سوویت یونین کو جارحیت کا موقع ملا، لیکن اس سے ہوا کیا؟

بالآخر سوویت یونین ایسا فرار ہوا کہ اس کا وجود ہی مٹ گیا اور اس کے بطن سے ہی قازقستان، کرغیزستان، تاجکستان، ترکمانستان، ازبکستان، آذربائیجان مسلم اکثریتی ممالک وجود میں آئے۔ امریکہ سوویت یونین کے خلاف یہ جنگ جیت تو گیا لیکن اس نے بھی وہی غلطی کردی، جو سوویت یونین کرچکا تھا، اس کا خمیازہ بھی امریکہ کو بھاری مالی نقصان کی صورت میں اٹھانا پڑا۔ اس کے کون سے عالمی مفادات پورے ہوئے، اس پر یقینی طور پر خود امریکی انتظامیہ بھی فخر نہیں کر سکتی، اسامہ کی گرفتاری کے چکر میں کھربوں ڈالرز جنگ میں پھونک ڈالے اور اب بھی پریشان ہے کہ اگر افغانستان میں ایسا ہو گیا تو کیا ہوگا، ویسا ہو گیا تو کیا ہوگا، لے دے کہ اس خطے میں پاکستان امریکہ کا نان نیٹو اتحادی بنا اور پھر عالمی قوتوں کی غلط پالیسیوں کے مضمرات کی وجہ سے وطن و عزیز کو بھی شدید مالی و جانی نقصان اٹھانا پڑا۔

بائیڈن انتظامیہ فیصلہ کرچکی کہ 11 ستمبر تک تمام امریکی فوجیوں کو واپس بلا لیا جائے گا۔ ممکنہ طور پر یہ عمل مقررہ تاریخ سے قبل ہی مکمل ہو جائے گا، لیکن پینٹاگون و امریکی سی آئی اے جو افغانستان سے انخلا نہیں چاہتے، انہیں چین، ایران، وسط ایشیا مسلم اکثریتی ممالک اور روس کی نگرانی کے لئے ائر بیس و فوجی اڈے کی ضرورت ہے، گو کہ ملکی مفاد کا کہہ کر اس سے قبل کی حکومتوں نے امریکی مفاد کا خیال رکھا، تاہم فی الوقت تک تو وفاق ’سختی‘ سے اپنے ارادے پر قائم ہے کہ ائر بیس دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے اور نہ ایسا فیصلہ کیا جائے گا۔

تاہم خدشات تو بہرحال ہیں کہ ایسی پالیسیاں خفیہ طور پر نافذ کی جاتی رہیں، جن کا علم کئی برسوں بعد قوم کو ہوتا، قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں میں وطن عزیز کا ایک عرصے تک کا استعمال ہونے سے عوام اس وقت تک لاعلم رہے، جب ایک واقعے میں پاکستانی فورسز کو نشانہ بنایا گیا اور ریاست نے سخت ردعمل کے بعد شمسی ائر بیس خالی کرا لیا۔

امریکہ اپنی جنگ کے لئے نیا میدان خود تلاش کرے، ائر بیس کے حوالے سے بار بار امریکی حکام کا حکومت سے رابطہ کرنا، افواہوں و تحفظات میں اضافہ کر رہا ہے، ضرورت اس امر کی بڑھ جاتی ہے کہ آرمی چیف اور وزیراعظم پاکستان غیر مبہم و واضح اعلان کریں کہ اس بار کسی صورت میں بھی امریکہ کو فوجی اڈا نہیں دیا جائے گا۔ امریکی حکام فوجی اڈوں کے حوالوں سے غیر یقینی صورت حال کو بڑھا رہے ہیں، حزب اختلاف بھی حکومتی وزرا ء کے بیانات سے مطمئن نہیں کیونکہ ماضی میں امریکہ کی سہولت کاری کے لئے انہیں دباؤ کا علم ہے کہ انکار کے نتائج کیا ہوتے ہیں۔

عوام بھی بخوبی جانتی ہے کہ افغانستان میں امریکی جنگ میں اتحادی بننے کے بعد ملک بھر میں دہشت گردی و انتہا پسندی کا سیلاب امڈ آیا تھا، قیمتی جانوں کے نقصانات کا ازالہ کبھی بھی نہیں کیا جاسکتا، ان حالات میں حکومت نے اگر خفیہ طور پر، دباؤ میں آ کر غیر مقبول فیصلہ کر دیا تو سمجھ لینا چاہیے کہ ہم اپنے دیرینہ اور قابل اعتماد دوست چین کا اعتماد مکمل کھو سکتے ہیں، افغانستان کے ساتھ تو تعلقات پہلے ہی بہتر نہیں، بھارت ازلی دشمن ہے، اس پر ایران سے تعلقات میں بدترین رخنہ الگ پیدا ہو گا، صرف یہی نہیں بلکہ وسط ایشیائی ممالک بالخصوص روس کے ساتھ مثبت تعلقات کی بحالی کو بھی زک پہنچے گی۔

توقع و یقین ہے کہ ریاست ان معاملات پر غور و خوض کرچکی ہوگی اور امریکہ جیسے بے وفا اتحادی کو مزید آزمانے سے دریغ کرے گی، تاریخ گواہ ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کو ہمیشہ اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا، جس کے نتائج کبھی ریاست کے حق میں اچھے نہیں نکلے، خطے سے امریکی و نیٹو افواج کی بحفاظت واپسی کے بعد ریاست کو امریکہ کے مطالبات پر اعلانی یا خفیہ طور پر قبولیت کرنے سے مملکت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے، اگر چیف آف آرمی اسٹاف و وزیراعظم پاکستان اپنے پالیسی بیان میں عوام میں پائی جانے والی بے چینی کو دور کرنے کا اعلان کردیں تو اس سے عالمی برادری میں بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی کے ٹھوس موقف پر حمایت حاصل کرنے میں آسانی رہے گی۔

ایک خود مختار مملکت ہونے کی حیثیت سے ہمیں اپنے فیصلے خود کرنے کی عادت ڈالنی ہوگی، ریاستی ادارے اچھی طرح جانتے ہیں کہ وطن عزیز کسی نئی مہم جوئی کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ مملکت کے چار اطراف گھات لگائے دشمنوں کے ہاتھوں ملک کو مزید کسی نئے امتحان میں ڈالنا کسی کے حق میں بہتر نہیں کیونکہ مضمرات و ناقابل تلافی نقصانات وقتی فائدے سے زیادہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments