انتظار (افسانہ)


بچے کے رونے کی آواز سے اس کی آنکھ کھلی، اس نے دیوار پر لگی گھڑی کی جانب دیکھا گھڑی کے درمیانی حصے میں اس کا چہرہ ٹنگا تھا۔ اس نے خود دروازہ بند کر کے کنڈی لگائی تھی۔ لیکن ہمیشہ کی طرح وہ دروازے کی کسی جھری سے اندر آ گیا تھا۔ اس نے غور سے اس کی سوئیوں کو دیکھا، مگر وقت دیکھ کر بھی دھیان میں نہ رکھ سکی، کیوں کہ وہ مسلسل اسے تکے جا رہا تھا۔ اس نے بچے کو گود میں لیا بچہ تھوڑی دیر کو چپ ہوا لیکن پھر رونے لگا۔

بچے کی دونوں ٹانگوں کو اس نے اپنی کمر خم کر کے پھنسایا اور ایک ہاتھ سے بچے کی فیڈر اٹھائے باورچی خانے میں آ گئی۔ دیگچی میں پانی لیا اور چولہا جلا کر پانی اس پر رکھ دیا۔ چہرہ اب چائے کی پتی کے ڈبے پر تصویر ہو گیا تھا۔ اس نے مسکرا کر فیڈر اٹھائی، اس میں پانی اور واشنگ محلول ڈال کر اسے زور زور سے ہلانے لگی۔ چہرہ اب سنک پر دو پلیٹوں کے درمیان سے جھانک رہا تھا۔ اس نے تیزی سے گھڑی کی جانب دیکھا۔ گھڑی کے ہندسے کو دیکھ کر، فیڈر کو ابلتے پانی میں ڈالتے ہوئے حساب لگانے لگی اسے گئے ہوئے تیرہ گھنٹے ہو گئے تھے۔

بچہ پھر رونے لگا اس نے ابلتے پانی سے فیڈر نکال کر پلیٹ پر رکھی۔ اور اپنے ہاتھوں کی انگلیوں پر پھونکیں مارنے لگی۔ چہرہ مضطرب ہو کر سنک سے اتر آیا۔ اور اپنے ہونٹ اس کی سرخ انگلیوں پر رکھ دیے۔ ٹھنڈک کا لطیف احساس اس کی رگوں میں اتر گیا۔ اس نے جلدی جلدی دودھ بنایا۔ اور بچے کو لٹا کر اس کے منھ سے فیڈر لگا دی۔ بچہ دوبارہ سو گیا۔ اسے نیند بھی آ رہی تھی اور بھوک بھی لگی تھی۔ چہرہ اس کے سامنے میز پر رکھے مانیٹر کے اوپر بیٹھا اسے آنکھوں کے اشارے سے آنکھیں موندنے کے لیے کہہ رہا تھا۔ اس نے مسکرا کر آنکھیں موند لیں۔ آنکھیں بند کرتے ہی چہرہ پورے وجود کے ساتھ اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ اس نے فوراً اپنی آنکھیں کھول دیں، اور ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھی۔ بجلی کا کوئی بھروسا نہیں۔ اسے اس کے کپڑے استری کرنا تھے۔ پیڈسٹل فین پر ٹکا چہرہ اسے قربان ہو جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

جلدی جلدی اس نے الماری سے کپڑے نکالے۔ فرش پر دبیز کپڑا بچھایا، اور اس پر اس کی قمیص پھیلا کر پیار سے ہاتھ پھیر کر استری کرنے لگی۔ اب سامنے ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے میں چہرے کا عکس نظر آ رہا تھا۔ شاید وہ اس کے پیچھے ہی تھا۔ چہرے کی سنگت میں اس کا کام برق کی سی تیزی سے نبٹتا تھا۔ شلوار قمیص کو ہینگر میں لٹکایا۔ اور باہر آ گئی۔ بھوک کا احساس ایک بار پھر ستانے لگا۔ اس نے برش کیا، منہ ہاتھ دھویا، تولیہ سے چہرہ رگڑ کر اسے تار پر لٹکایا اور فرج سے گندھا آٹا نکال کر باورچی خانے میں آ گئی۔

چہرہ دیوار پر رینگتا، دروازے کھڑکیاں پھلانگتا اس کے ساتھ دائیں بائیں ہوتا رہا۔ سلیب کے نیچے رکھے کنستر سے روٹی بنانے کے لیے تھوڑا سا آٹا پلیٹ میں نکالا، تو چہرے کا سایہ اسے آٹے میں نظر آیا۔ اس نے گنگناتے ہوئے آٹے کا پیڑا بنا کر اسے پٹے پر رکھا اور بیلن سے گول گول گھمانے لگی۔ بڑی سی گول ٹکیا کو دونوں ہتھیلیوں پر رکھ کر اس نے ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ پر مشاقی سے الٹ پلٹ کر توے پر ڈال دیا۔ پسینے کے بے شمار قطرے اب چہرے سے پسینے کی طرح بہہ رہے تھے۔

اس نے قمیص کا دامن الٹ کر چہرہ صاف کیا، اور چمٹا اٹھا کر روٹی کو توے سے پلٹا۔ چہرہ گھی کے ڈبے کے اوپر چمک رہا تھا، اس نے ڈھکن کھول کر آدھ چمچ گھی نکالا، اور روٹی پر ڈال کر روٹی کو چمٹے سے گول گول گھمانے لگی۔ ایک ہاتھ سے اس نے سنک پر سے پلیٹ اتاری اور پراٹھے کو اس پر الٹ دیا۔ اس نے رات کا سالن نکالنے کے لیے دیگچی کی طرف دیکھا۔ اب وہ دیگچی کے ڈھکن پر نظر آ رہا تھا۔

اسی وقت دروازے پر مانوس، ہلکی سی دستک ہوئی۔ اس نے وال کلاک کی طرف دیکھا۔ چہرہ گھڑی کے عین وسط میں اسے مسکرا کر دیکھ رہا تھا، وہ دروازے پر آئی، اور چٹخنی نیچے کر دی، دروازے کا آدھا پٹ کھول کر اس نے وال کلاک کی طرف دوبارہ دیکھا، چہرہ غائب ہو چکا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments