مہنگائی بڑھ گئی ہے یا پھر ہمارے خرچے بھی؟


کچھ ایسی باتیں ہوتی ہیں جو پوری زندگی میں ہزاروں بار سننے کو ملتی ہیں۔ وہ بات یا جملہ ہفتے میں دو سے تین بار تو سنا یا پھر بولا جاتا ہے۔ جیسے کہ : ”آج موسم بہت گرم ہے یا بہت سرد ہے، سارے سیاست دان کرپٹ ہیں، ملک نازک دور سے گزر رہا ہے، مہنگائی بہت زیاد ہو گئی ہے“ یہ وہ جملے ہیں جو ہر کسی نے اپنی زندگی میں ہزاروں بار سنے ہوں گے ۔ لیکن مہنگائی والا جملہ آج کل بہت زیادہ بولا جا رہا ہے اور بار بار سننے میں آ رہا ہے۔

اس میں کافی حد تک سچائی ہے کہ مہنگائی بڑھ گئی ہے اور عام آدمی کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں ہو پا رہی ہیں۔ مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارے خرچے بہت بڑھ چکیں ہیں۔ ویسے بھی مڈل کلاس طبقہ ہو یا لوئر کلاس اس کے لئے پوری زندگی میں مہنگائی کی سلسلے چلتے رہتے ہیں اور ان گھرانوں میں یہ جملہ تکرار کے ساتھ بولا جاتا ہے۔

غور کریں تو گزشتہ کئی سالوں میں چھوٹے بڑے شہروں میں سپر اسٹورز کا اضافہ ہوا ہے اور تھوڑے تھوڑے فاصلوں پر بڑے بڑے سپر اسٹورز کھل گئے ہیں جہاں ہر قسم کا سامان دستیاب ہوتا ہے۔ کچھ سالوں پہلے جو سامان گلی کی موجود پرچون کی دکان سے لیا جاتا تھا وہ اب سپر اسٹورز سے لیا جاتا ہے۔ اب کسی کو ایک یا دو چیزیں بھی لینی ہو تو سپر اسٹورز کا رخ کیا جاتا ہے اور پھر سپر اسٹور پہنچ کر طرح طرح کی چیزیں دیکھ کر دل للچاتا ہے۔ رنگ برنگی پیکنگ میں دستیاب اشیاء خود با خود ٹرالی میں انڈیلی جانے لگتی ہیں اور پھر ایک چیز کے بجائے درجنوں چیزیں لے لی جاتی ہیں۔

سپر اسٹورز جانے کی بہت سے وجوہات ہوتی ہیں۔ سپر اسٹورز میں ایک ہی چیز کے کئی کئی برینڈز موجود ہوتے ہیں اور ان پر قیمتیں بھی درج ہوتی ہیں اور گاہک کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اشیاء کا چناؤ کریں۔ نہ بار بار ریٹ پوچھنے کی جھنجھٹ ہوتی ہے اور نہ دکاندار کے برا ماننے کا ڈر اور نہ ہی آپشنز کی قلت۔ ٹھنڈی ٹھار مارکیٹ میں جتنا گھومنا چاہے گھومے چاہے صرف ایک صابن ہی کیوں نہ لینا ہو۔ ایک طرف یہ سپر اسٹورز سکون سے خریداری کرنے کی سہولت دیتا ہے تو دوسری جانب یہ ہی اسٹورز جیب پر بھاری پڑتا ہے۔

اس طرح کے اسٹورز انسان کی نفسیات پر حملے آور ہوتے ہیں۔ اکثر گاہک لینے دو چیزیں جاتے ہیں مگر اتنے سارے آپشنز دیکھ کر خود با خود دوسری اشیاء کی جانب ہاتھ بڑھتا ہے اور پھر دو اشیاء 8، 9 اشیاء تک بڑھ جاتی ہیں۔ ہزار روپے کا بجٹ لے کر جانے والا تین ہزار خرچ کر آتا ہے۔ یہ ہی خرچہ مہینے کے آخر میں بجٹ اوپر نیچے کر دیتا ہے اور پھر ادھار یا پھر سیونگز سے دوسرے ضروری معاملات چلائیں جاتے ہیں۔

آج کے دور اور آج سے 20 سال پرانے دور کا موازنہ کیجئے تو اندازہ ہوگا کہ ہماری گروسری لسٹ میں بھی درجنوں چیزوں کا اضافہ ہوا ہے جس نے ہماری جیبوں پر بوجھ بڑھایا ہے۔ پچھلے دور کی گروسری لسٹ میں اگر 30 چیزیں ہوتی تھی تو اب 60، 70 چیزیں ہوتی ہیں۔ پہلے بنیادی ضروریات ہوتی تھی اور اب طرح طرح کی کھانوں اور دیگر چیزوں کے لوازمات ہوتے ہیں۔ پہلے آٹا، چاول، دالیں، گرم مصالحے، تیل، روح افزاء وغیرہ آتا تھا اور اب چیز، پاستا، میکرونیز، طرح طرح کے ڈرنکس، اسنیکس کے نام پر چاکلیٹس، بسکٹ، چپس، نگٹس، چاکلیٹ کریم، طرح طرح کے میٹھے بنانے کے لوازمات، اسی طرح کئی اقسام کے شیمپوز، پھر فیس واش، پھر کریمیں، باڈی اسپرے الگ پرفیوم الگ، گرمی کا پاؤڈر الگ خوشبو کا پاؤڈر الگ اور نہ جانے کیا کیا چیزیں ہیں جو اب ہمارے مہینے کے سامان میں بڑھ چکی ہیں۔

یہ تو بس عام گروسری لسٹ میں ہوئے اضافے کی نامکمل تصویر ہے۔ نہ جانے کس کس طرح سے عام صارف کو گرفت میں لیا گیا ہے۔ گروسری کے علاوہ دوسری بنیادی چیزوں میں بھی عام صارف کو ایسا الجھایا گیا ہے کہ اس کے خرچے رکنے کا نام نہیں لیتے۔ خواہشات کو ضرورت بنا دیا گیا ہے اور پھر یہ ضروریات کی چکر میں ادھار اور دوسرے ذرائع استعمال ہوتے ہیں جو انسان پر نفسیاتی دباؤ بھی بڑھانے کا باعث بنتے ہیں۔ اس بات میں سچائی ہے کہ مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے مگر اس بات میں بھی سچائی ہے کہ ہماری خواہشات بھی بڑھ گئی ہیں جس نے ہماری جیبوں پر بوجھ بڑھادیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments