بٹ کوائن کو قانونی کرنسی قرار دے دیا جائے تو آپ کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟


بٹ کوائن، ڈالر، کرنسی، کرپٹو کرنسی

بٹ کوائن کے کام کرنے کا طریقہ پیچیدہ ہے اور ہر کوئی اسے نہیں سمجھ پاتا

لاطینی امریکہ کے ملک ایل سلواڈور بٹ کوائن کو قانونی کرنسی قرار دینے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے۔

منگل کو کانگریس میں ایک ووٹ کے بعد اب بٹ کوائن 90 دن کے اندر ملک میں امریکی ڈالر کے ہم پلّہ قانونی کرنسی بن جائے گا۔

نئے قانون کا مطلب یہ ہے کہ ہر کاروبار کو اپنی خدمات یا اشیا کے بدلے میں بٹ کوائن قبول کرنا ہوگا بشرطیکہ ان کے پاس اس لین دین کے لیے ٹیکنالوجی موجود ہو۔

صدر نایب بوکیلے نے کہا کہ اس اقدام سے بیرونِ ملک رہنے والے سلواڈوریئنز کے لیے ملک پیسے بھیجنا آسان ہوجائے گا۔ اس عمل کو ریمیٹنس یا ترسیلِ زر کہتے ہیں۔

ایل سلواڈور سمیت کئی ممالک کا انحصار بیرونِ ملک مقیم شہریوں کی جانب سے اپنے وطن بھیجی گئی رقوم پر ہوتا ہے۔ ایل سلواڈور میں یہ ترسیلاتِ زر مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا 20 فیصد بنتی ہیں۔

20 لاکھ سے زیادہ سلواڈوریئن شہری ملک سے باہر رہتے ہیں مگر وہ اپنے آبائی ملک سے مضبوط تعلقات رکھتے ہیں اور ہر سال چار ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم واپس بھیجتے ہیں۔

مگر کیا بٹ کوائن یا کرپٹو کرنسی ترسیلاتِ زر کے لیے بہترین ذریعہ بن جائے گی؟

کوئی مڈل مین نہیں

بٹ کوائن، ڈالر، کرنسی، کرپٹو کرنسی

ایل سلواڈور دنیا میں اپنے غیر ملکی شہریوں سے رقم حاصل کرنے والے سب سے بڑے ممالک میں سے ہے

جب لوگ رقم اپنے ممالک بھیجتے ہیں تو وہ عام طور پر اس لین دین کو ممکن بنانے کے لیے کسی بینک یا دوسری مالیاتی سروس کا سہارا لیتے ہیں۔

مگر یہ سروسز فراہم کرنے والے سرحدوں کے پار رقم بھیجنے کے عمل کو بہت مہنگا بنا دیتے ہیں۔

مثال کے طور پر اگر کوئی شخص امریکہ سے ایل سلواڈور تک ایک ہزار ڈالر بھیج رہا ہے، اور اگر شرحِ تبادلہ پر ’صفر کمیشن‘ بھی موجود ہو، تب بھی صارفین کو دونوں جانب موجود بینکوں کے چارجز کی مد میں بھاری رقم ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔

بٹ کوائن یا کرپٹو کرنسی کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ یہ ایسے کسی درمیانی فریق پر منحصر نہیں ہوتی۔

نتیجتاً بٹ کوائن غریب ممالک اور اُن افراد کے لیے پرکشش ہو سکتا ہے جو ان فیسوں سے بچنا چاہتے ہیں۔

مگر یہ حقیقت مدِ نظر رکھنی چاہیے کہ کرپٹو کرنسیاں دوسرے کئی بڑے خطرات کا سبب بن سکتی ہیں۔

بٹ کوائن، ڈالر، کرنسی، کرپٹو کرنسی

ڈی ویئر گروپ کی چیف ایگزیکٹیو اور بانی نائیجل گرین کہتے ہیں کہ ’ہم امید کر سکتے ہیں کہ ایل سلواڈور نے جس جانب قدم بڑھائے ہیں اس طرف دوسرے ممالک بھی جائیں گے۔‘

’یہ اس لیے ہے کیونکہ کم آمدنی والے ممالک کو طویل عرصے سے اپنی کرنسیوں کے کمزور ہونے اور مارکیٹ کی اُن تبدیلیوں کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑا ہے جو افراطِ زر کا سبب بنتی ہیں۔‘

اگر بٹ کوائن کو مزید قبولیت حاصل ہو جائے اور یہ بڑے پیمانے پر استعمال ہونے لگے تو اس کی قیمت مستحکم ہو سکتی ہے۔

’اس لیے زیادہ تر ترقی پذیر ممالک لین دین مکمل کرنے کے لیے ترقی یافتہ ممالک کی بڑی کرنسیوں مثلاً ڈالر کا استعمال کرتے ہیں۔‘

’مگر کسی دوسرے ملک کی کرنسی پر بھروسہ کرنے سے بہت مہنگے مسائل بھی ہوتے ہیں۔‘ مثال کے طور پر اس سے کسی ملک پر غیر ملکی دباؤ بڑھ سکتا ہے اور یہ مکمل خود مختاری کے ساتھ اپنی مالیاتی پالیسی ترتیب دینے کی صلاحیت کھو سکتا ہے۔

قدر میں اتار چڑھاؤ

مگر کرپٹو کرنسی کے بھی نقصانات ہیں اور اس سے بھی سلواڈوریئن افراد کے پیسے وصول کرنے کی صلاحیت پر اثر پڑ سکتا ہے۔

بٹ کوائن ایک ورچوئل اثاثہ ہے اور اس کا حقیقی معیشت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کی قدر میں بہت کم عرصے کے دوران بہت زیادہ اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آیا ہے۔

اور ہر کسی کو اس کے کام کرنے کا طریقہ اور اس سے وابستہ خطرات کا علم نہیں ہے۔

روایتی بینکاری نظام کے برعکس بٹ کوائن میں ایسا کوئی نظام موجود نہیں جو کسی صارف کو بٹ کوائن کی قدر میں اتار چڑھاؤ سے محفوظ رکھے۔

بٹ کوائن، ڈالر، کرنسی، کرپٹو کرنسی

بٹ کوائن دنیا کے نصف سے زیادہ ڈیٹا سینٹرز کے برابر بجلی خرچ کرتا ہے

ہارورڈ یونیورسٹی میں معیشت کے پروفیسر اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے سابق چیف اکنامسٹ کین روگوف کہتے ہیں کہ کسی کامیاب کرنسی کی دو اہم خصوصیات یہ ہیں کہ یہ لین دین کے لیے ایک مؤثر حیثیت رکھتی ہو اور یہ آپ کی دولت کی قدر محفوظ رکھ سکتی ہو۔

وہ کہتے ہیں کہ بٹ کوائن میں دونوں خصوصیات نہیں ہیں۔

’حقیقت یہ ہے کہ یہ قانونی معیشت میں بہت زیادہ استعمال نہیں ہوتا۔ ہاں ایک امیر شخص اسے دوسرے شخص کو بیچ دیتا ہے مگر یہ حتمی استعمال نہیں ہے۔ اور اس کے بغیر اس کا کوئی طویل مدتی مستقبل نہیں ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

کرپٹو کرنسی کی بقا کی جنگ میں کون کہاں کھڑا ہے؟

پاکستان: دوران ڈکیتی مغویوں سے بٹ کوائن میں تاوان کیسے وصول کیا گیا؟

کرپٹو کرنسی سے پاکستان کا قرض اتارنے کا دعویٰ: ’وقار ذکا بھی سمارٹ ہیں، ایک چانس تو بنتا ہے‘

بٹ کوائن: ’کسی نے مہنگی کار خریدی تو کوئی لُٹ گیا‘

وہ کہتے ہیں کہ بٹ کوائن کا استعمال تقریباً کُلّی طور پر صرف سٹے بازی کے لیے ہو رہا ہے۔

بھلے ہی بٹ کوائن کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے مگر اسے اب بھی لین دین کے لیے شاذ و نادر ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ لوگ جن کے پاس بٹ کوائن ہے وہ اپنی کرپٹو کرنسی کو اپنے پاس رکھ کر اس سے مزید رقم کمانا چاہتے ہیں۔

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کرپٹو کرنسیاں شدید مہنگائی سے بچنے کا ایک ذریعہ ہو سکتی ہیں۔

عالمی وبا کے دوران کئی بڑے ممالک اپنی معیشت کو چلائے رکھنے کے لیے نوٹ چھاپتے رہے ہیں۔

روایتی کرنسی نظام میں آپ جتنے زیادہ نوٹ چھاپیں گے، کرنسی کی قدر اتنی ہی کم ہوتی جاتی ہے۔

عام طور پر لوگ قدر میں اس کمی کو نوٹس نہیں کر پاتے کیونکہ اُن کے پاس موجود پیسہ اتنا ہی رہتا ہے۔ مگر وہ یہ ضرور نوٹ کرتے ہیں کہ اُن کی خریداری، باہر کھانا پینا اور فلمیں دیکھنا وغیرہ زیادہ سے زیادہ مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔

بٹ کوائن کا معاملہ مختلف ہے۔ بٹ کوائنز کی سپلائی کو محتاط طور پر کنٹرول کیا جاتا اور محدود رکھا جاتا ہے۔ کوئی شخص بھی اپنی مرضی سے مزید بٹ کوائنز نہیں بنا سکتا۔

دنیا میں کبھی بھی دو کروڑ 10 لاکھ سے زیادہ بٹ کوائنز موجود نہیں ہوں گے اور ہر بٹ کوائن کو ستوشی کہلانے والے 10 کروڑ مزید یونٹس میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

اس سے ’نارمل‘ کرنسی کو لاحق قدر میں کمی کے مسئلے کا سدِ باب ہوتا ہے جسے وینیزویلا اور زمبابوے کے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں۔

’ایک بہادرانہ قدم‘

نائیجل گرین کہتے ہیں کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ تنقید کرنے والے ہمیشہ موجود ہوں گے جن کا تعلق ممکنہ طور پر امیر ممالک سے بھی ہوگا۔‘

امریکی وزیرِ خزانہ جینیٹ ییلن اس سے قبل بٹ کوائن کو ’لین دین کا انتہائی غیر مؤثر طریقہ‘ قرار دے چکی ہیں۔

اُنھوں نے ڈیجیٹل کرنسیوں کی لین دین میں بجلی کے ’بے تحاشہ‘ استعمال پر بھی خدشات کا اظہار کیا تھا۔

یہ غیر واضح ہے کہ بٹ کوائن کتنی بجلی استعمال کرتا ہے۔

کرپٹو کرنسیوں پر تحقیق کرنے والے یونیورسٹی آف کیمبرج سینٹر فار الٹرنیٹیو فنانس (سی سی اے ایف) کے مطابق بٹ کوائن کی کُل بجلی کی کھپت 40 سے لے کر 445 ٹیراواٹ سالانہ ہے اور اس کی اوسط 130 ٹیراواٹ بنتی ہے۔

اس کے مقابلے میں برطانیہ بھر کی بجلی کی کھپت 300 ٹیراواٹ سالانہ سے کچھ اوپر ہے جبکہ ارجنٹینا میں بجلی کی کھپت سی سی اے ایف کے بٹ کوائن سے متعلق اندازوں کے برابر ہے۔

اس کے نقاد یہ بھی کہتے ہیں کہ جہاں روایتی بینک لین دین پر نظر رکھ سکتے ہیں وہیں بٹ کوائن انتہائی امیر افراد کے لیے ٹیکس سے بچنے کا ایک ذریعہ بن سکتا ہے۔

اس دوران دنیا کے کئی مرکزی بینک اپنی ڈیجیٹل کرنسیاں بنانے پر غور کر رہے ہیں جبکہ چین نے تو مرکزی کنٹرول میں موجود ایک کرپٹو کرنسی لانچ کر بھی دی ہے۔

اور جہاں بینکوں کی جاری کردہ ڈیجیٹل کرنسیاں حکومتی ضوابط کی پابند ہوتی ہیں، وہاں کرپٹو کرنسیاں ایسے کسی بھی ضابطے سے مکمل طور پر آزاد ہوتی ہیں۔

صدر بوکیلے نے اس سے پہلے ایک بیان میں کہا تھا کہ بٹ کوائن اُن 70 فیصد سلواڈوریئن افراد کے لیے مالی خدمات کے دروازے کھول دے گا جن کے پاس اب بھی بینک اکاؤنٹس موجود نہیں ہیں۔

اس ہفتے ہونے والی ووٹنگ سے کچھ دیر قبل اُنھوں نے ایک ٹویٹ میں لکھا تھا ’اس سے مزید لوگ مالیاتی نظام میں شامل ہوں گے، اور ملک میں سرمایہ کاری، سیاحت، ایجادات اور اقتصادی ترقی کو فروغ ملے گا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp