کہانی ایک بڑے امریکی بنگلے کی!


یہ کہانی ایک ایسے بڑے امریکی بنگلے کی ہے جہاں خوشیاں ہمیشہ چند ہفتوں کی مہمان ہوتی ہیں۔ امریکہ میں رہنے والے اکثر پاکستانی اور بھارتی نژاد صاحب ثروت لوگ بڑے بڑے بنگلوں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ یہ کہانی ایک بھارتی نژاد امریکی، رام شرما کی ہے جو اپنی آنکھوں میں بڑے بڑے سپنے سجائے خوابوں کی سرزمین امریکہ جا پہنچا۔ وہاں اس نے اپنی محنت اور لیاقت سے خوب پیسہ کمایا اور جلد ہی واشنگٹن سٹیٹ کے ایک خوبصورت مگر چھوٹے شہر میں اپنے لیے ایک شاندار بنگلہ خریدا۔

رام شرما کا بنگلہ ایک جھیل کے کنارے بنا یا گیا جہاں سورج غروب ہونے کا منظر بڑا ہی رومانوی ہو تا ہے۔ اس کے بنگلے کے ارد گرد کئی کنالوں پر محیط سر سبز و شاداب گھاس کا لان تھا جہاں دن بھر اس کے بچے کھیلتے رہتے۔ یہ بنگلہ شہر کے پوش علاقے میں واقع تھا۔ جس کی ہمسائیگی میں گوروں کی اکثریت رہتی تھی اور وہ شہر کے چند گنے چنے امیر کبیر اور کاروباری لوگ تھے۔ رام شرما اپنے چھوٹے سے گھرانے کے ساتھ اس بڑے بنگلے رہتا تھا مگر اس کے ماں باپ ابھی تک انڈیا میں ہی رہتے ہیں اور وہیں رہنا پسند کرتے ہیں۔ شرما ہر سال اپنے والدین کو امریکہ میں بلواتا ہے اور اپنے گھر کے سب سے بڑے اور دنیا کی تمام سہولتوں سے آراستہ کمرے میں انہیں ٹھہراتا ہے لیکن ہر سال چند ہفتے امریکہ میں رہنے کے بعد اس کے والدین واپس اپنے دیس لوٹنے کا تقاضا شروع کر دیتے ہیں۔

رام شرما اپنے والدین کے اس رویے پر بڑا حیران ہوتا کہ ان کا دل امریکہ میں کیوں نہیں لگتا حالانکہ اکثر بوڑھے لوگ ایک آرام دہ ماحول میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ وہ پر سکون ماحول میں رہ کر اپنے ماضی کے جھروکوں میں جھانکنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی زندگی میں گزرے حسین لمحات کو اپنی بند آنکھوں سے دوبارہ دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ شرما بھی اپنے والدین کو ایک فرینڈلی ماحول میں رہتے ہوئے خوش باش دیکھنا چاہتا تھا مگر شاید یہ اس کی بھول تھی۔ وہ مادی اشیاء اور ذرائع کو خوشیوں کا سامان سمجھ بیٹھا تھا۔ خوشی ایک لطیف جذبے کا نام ہے۔ خوشی کا اظہار مادی وسائل سے کیا جا سکتا ہے لیکن یہ ممکن نہیں کہ حقیقی خوشی کسی دولت سے خریدی یا حاصل کی جا سکتی ہو۔

رام شرما کا بچپن اور لڑکپن ایک گاؤں کے دو کمروں کے گھر میں گزرا، جہاں وہ اپنے پانچ بہن بھائیوں اور والدین کے ساتھ رہتا تھا۔ ان کا گھر چھوٹا تھا جبکہ وہاں خوشیاں بے شمار تھیں، لیکن نہ جانے کیوں جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی شرما کسی احساس کمتری کا شکار ہو گیا۔ وہ اپنے چھوٹے گھر میں حاصل خوشیوں کو بھلا کر بڑی بڑی کوٹھیوں میں رہنے کے خواب دیکھنے لگا۔ اپنی احساس کمتری کے باوجود وہ ایک سعادت مند بیٹا تھا۔ اپنی ذات کے علاوہ وہ اپنے والدین کے بڑھاپے کا بھی سوچتا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کے ماں باپ اسی دو کمرے کے گھر میں رہیں اور وہیں سے ان کی ارتھی اٹھے۔

رام شرما اپنے والدین کے لیے ایک آرام دہ اور بڑا گھر خریدنا چاہتا تھا جہاں وہ سکون کے ساتھ رہیں۔ لیکن بڑا گھر خریدنے کے لیے، پیسے بھی بڑے ہی چاہیے تھے۔ لہذا شرما پیسے کمانے کے لیے اپنے گھر والوں کو چھوڑ کر امریکہ چلا گیا۔ وہاں اس نے خوب پیسے کمائے، شادی بھی امریکہ میں ہی ایک میکسیکن لڑکی کے ساتھ رچا لی۔ اس کے جنرل مارکیٹ سپلائی کے کاروبار نے بہت ترقی کی۔ دولت مند ہونے کے بعد رام شرما نے پہلا کام یہ کیا کہ امریکہ میں ایک بڑا سا بنگلہ خریدا جہاں وہ اپنے دو بچوں اور ایک بیوی کے ساتھ رہنے لگا۔ بچوں کی دیکھ بھال کرنے کے لیے ایک آیا بھی ان کے ساتھ رہتی تھی۔

رام شرما کی زندگی کا ایک اور خواب پورا ہوا۔ اب اس کے پاس دنیا کی کسی نعمت کی کمی نہیں تھی۔ دولت، عزت، جائیداد، بڑی بڑی گاڑیاں اور ایک شاندار بنگلہ، سب کچھ تھا مگر کمی تھی تو ماں باپ کی۔ اب وقت آ گیا تھا کہ وہ اپنا ایک اور ادھورا خواب بھی پورا کرے یعنی والدین کو اپنے پاس بلوائے او ر بڑے بنگلے میں رہنے کے لیے قائل کرے۔ لہذا اس نے امی ابا کو امریکہ آنے اور اپنے بڑے بنگلے میں مستقل رہنے کی دعوت دی۔ دوسری طرف شرما کے والدین نے اس کے بغیر ہی رہنا سیکھ لیا تھا۔ وہ امریکہ آنے کے لیے راضی تو ہو گئے لیکن فقط چند ہفتوں کی خاطر۔ انسانی رشتے اور ناتے اس وقت کمزور ہو جاتے ہیں جب ہم ایک دوسرے کے بغیر جینا سیکھ لیں۔ بس یہی کچھ رام شرما اور اس کے والدین کے ساتھ بھی ہوا جو پچھلے دس سالوں سے ایک دوسرے سے جدا رہ رہے تھے۔

رام شرما نے ماں باپ کے دعوت قبول کرنے کو غنیمت جانا اور دل ہی دل میں خوش ہوا کہ شاید امریکہ میں چند ہفتے رہنے کے بعد اس کے والدین کا خیال بدل جائے۔ شاید امریکہ کی جگمگاتی زندگی ان کی سوچ بدل دے اور وہ امریکہ میں مستقل رہنے کا فیصلہ کر لیں۔ شرما کے والدین کو بڑا فخر تھا کہ ان کا بیٹا امریکہ میں ایک کامیاب زندگی گزار رہا ہے لیکن دوسری طرف انہیں دس سال تک اپنے بیٹے سے دوری کا درد بھی سہنا پڑا۔ اپنے بڑے بیٹے کی جدائی کے غم کو غلط کرنے کے لیے شرما کے والدین اپنے آپ کو مصروف رکھتے۔

انہوں نے اپنے ہم عمر دوست ڈھونڈ لیے جن کے ساتھ وہ زیادہ وقت گزارتے۔ ان کے کچھ مندر فیلوز بھی تھے جو سب مل کر بھگوان کے گھر پوجا پاٹ کر نے جاتے۔ وہ اپنے چھوٹے بیٹے کے بچوں کے ساتھ کھیلتے، انہیں اپنے پاس لیٹا کر اپنی زندگی کی کہانیاں سناتے۔ کبھی کبھی ان کی نواسے نواسیاں بھی چھٹیاں گزارنے ان کے پاس آ جاتے۔ یوں شرما کے والدین اپنے آپ کو شب و روز مصروف رکھتے۔

رام شرما کے والدین بظاہر انڈیا میں ایک بھر پور زندگی گزار رہے تھے۔ ان کی زندگی میں بھی بس کمی تھی تو شرما کی۔ وہ پگلا اپنے والدین کا سکھ ڈھونڈنے پر دیس چلا گیا۔ ماں باپ کو سکھ تو اس وقت ملتا ہے جب بچے ان کی آنکھوں کے سامنے پلیں بڑھیں، جوان ہوں، زندگی میں آگے بڑھیں۔ والدین کی فطری خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد زندگی میں کامیاب رہے مگر وہ اپنے بچوں کو ایک ساتھ اکٹھے دیکھنا چاہتے ہیں۔ شرما بھی امریکہ میں ایک شاندار زندگی گزار رہا تھا لیکن وہ اپنے ماتا پتا کی کمی کو شدت سے محسوس کر نے لگا۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ دولت کمانے اور بڑا بنگلہ بنانے کے چکر میں وہ اپنوں سے بہت دور ہو چکا ہے۔

رام شرما کو اپنے دادا سے بہت پیار تھا۔ اس کی خواہش تھی کہ اس کے بچے بھی اپنے دادا دادی کے رشتے کی اہمیت کو سمجھیں۔ شاید اسی لیے وہ اپنے والدین کو امریکہ میں مستقل طور پر اپنے ساتھ رکھنا چاہتا تھا۔ والدین کو اپنے ساتھ رکھنے کی چاہت کے پیچھے شرما کا خلوص تھا اور کچھ اس کی انا بھی تھی۔ وہ بڑا بھائی تھا اور دولت مند بھی۔ اس لیے وہ اپنا حق سمجھتا تھا کہ اس کے والدین اس کے پاس رہیں۔ دولت حاصل کرنے کی خاطر وہ اپنوں سے دور تو ہو گیا لیکن اس کا احساس کمتری ابھی کم نہیں ہوا۔ اب بھی اس کی انا کی تسکین کا آدھا ساماں ہوا تھا، اسے بڑا بنگلہ تو مل گیا لیکن وہاں والدین ساتھ رہنے پر راضی نہیں ہو رہے تھے۔ وہ اپنے والدین کو بس اتنا قائل کر پایا کہ وہ ہر سال کے چند ہفتے امریکہ میں اس کے ساتھ گزاریں۔

رام شرما کے والدین ہر سال امریکہ آتے اور جلد ہی اداس ہو نا شروع ہو جاتے۔ شاید اس لیے کہ وہ اپنوں کی محفلوں کو مس کرتے تھے۔ شہری زندگی میں ہم عصر لوگوں کی محفلیں محدود پیمانے پر ہوتی ہیں اور وہ بھی بڑے رکھ رکھاؤ کے ساتھ۔ لیکن دیہی زندگی کے آزاد ماحول میں ہم عمر دوستوں کی محفلوں کا کیا کہنا۔ وہاں آداب محفل کو اتنا ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا۔ دیہاتوں میں دوستیاں اور دشمنیاں دونوں بڑی طویل ہوتی ہیں۔ امیر غریب سب اکٹھے بیٹھتے اور دیر گئے تک گپیں ہا نکتے رہتے ہیں۔

وہاں مذہب اور سیاست پر کھل کر بات کی جا سکتی ہے۔ دوسروں کی چغلیوں اور بھد اڑانے تک سب کچھ چلتا ہے۔ بوڑھوں کی محفل کا مرکزہ دیسی تمباکو سے سلگایا ہوا حقہ ہوتا ہے جس کے بڑے بڑے کش لگا کر مقامی دانشور حالات حاضرہ پر خوب تبصرہ کرتے ہیں۔ دیہی زندگی میں لوگوں کو فرصت کے لمحات میسر ہوتے ہیں۔ وہاں وقت گویا تھم تھم کر چلتا ہے۔

رام شرما کے والدین امریکہ میں آ کر جہاں اپنے دوستوں کی محفلیں کو یاد کرتے تھے وہاں انہیں انگریزی بولنے کا مسئلہ بھی در پیش تھا۔ امریکہ میں بھی ان کی گود میں پوتا اور پوتی آ کر کھیلتے تھے لیکن کم بخت زبان کا فرق آڑے آتا۔ بچے انگریزی، ہسپینک او ر کچھ کچھ ہندی بول لیتے لیکن وہ جو کہتے دادا دادی کو کچھ سمجھ نہیں آتا اور دادا دادی جو کہنا چاہتے وہ بچوں کے باپ کو ترجمہ کر نا پڑتا۔ میکسیکن بہو تھی تو بڑی تابعدار مگر وہ بھی دن بھر گھر سے باہر رہتی، کبھی شاپنگ کے لیے، کبھی سیلون یا جم جانے یا پھر کوئی پارٹی اٹینڈ کرنے کے لیے۔ بچوں کو سکول سے چھٹیاں ہوتیں اور وہ سارا دن اپنے دادا دادی اور ایک آیا کے ساتھ گھر میں اکیلے ہوتے تھے۔

رام شرما بھی صبح سویرے اٹھ کر اپنے دفتر چلا جا تا اور شام کو جلدی گھر لوٹ آتا۔ جلدی اس لیے کہ والدین گھر میں بچوں کے ساتھ اکیلے ہوتے تھے اور انہیں مستقل بنیادوں پر ایک مترجم کی ضرورت رہتی۔ کچھ بے ہنگم سی گفتگو کے بعد بچے اور دادا دادی ایک دوسرے سے اکتا جاتے تھے۔ پھر بچے ویڈیو گیمز کھیلنے میں لگ جاتے اور دونوں بوڑھے اپنا کمرہ بند کر کے اپنی نیند پوری کرنے کی کوشش کرتے لیکن کبھی کبھی بچوں کی لڑائی کو شور انہیں بے سکون کر دیتا۔

وہ رات کو لیٹ سوتے تھے کیونکہ شرما کی خواہش ہوتی کہ وہ رات دیر تک اپنے اماں ابا سے باتیں کرے۔ ان کے پاؤں دبائے اور ان کی زبانی، ان کے ماضی کے قصے سنے۔ دوسری طرف شرما کے والدین رات جلد سونے اور صبح جلد اٹھنے کے عادی تھے لیکن امریکہ آ کر ان کی سونے کی عادات بدل جاتی تھیں۔ وہ رات دیر تک جاگنے اور صبح دیر سے اٹھنے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ صبح جاگنے پر سب سے پہلے انہیں بیڈ ٹی پیش کی جاتی جسے پینے کے وہ بالکل عادی نہیں تھے۔ اپنی ساس اور سسر کے لیے ناشتہ بنانے کی ذمہ داری بہو نے اٹھائی ہوتی ہے مگر وہ صرف میکسیکن اور ولایتی کھانے پکا سکتی تھی۔ وہ ایک بہترین کک تھی اور اپنے شوہر کے والدین کو خوش کرنے کے لیے طرح طرح کے پکوان تیار کرتی لیکن بی اماں اور بڑے میاں کو ولایتی کھانوں کا ذائقہ پسند نہیں تھا۔

رام شرما کے امی ابو، اپنی بہو کے بہترین رویے پر بہت خوش تھے۔ وہ ان کی خوب دیکھ بھال کرتی، انہیں کبھی کبھی شاپنگ مالز بھی اپنے ساتھ لے جاتی۔ ان کے ساتھ گھر میں بنی چکوزی میں بیٹھتی۔ ٹوٹی پھوٹی ہندی میں ان سے باتیں کرنے کی کوشش بھی کرتی لیکن جلد ہی دونوں فریق خاموش ہو جاتے کیونکہ انہیں بھی ایک مترجم کی ضرورت پڑتی۔ رام شرما کے اماں ابا جب امریکی کھانے کھا کھا کر اکتا جاتے تو انہیں شہر میں واحد دیسی کھانوں کے مرکز Taste of India نامی ریسٹورنٹ پر لے جا یا جاتا۔ یہ ریسٹورنٹ امریکہ اور کینیڈا کے ایک سرحدی شہر میں بنایا گیا اور اس شہر میں یہ واحد ریسٹورنٹ تھا جہاں دیسی کھانوں کا ذائقہ بالکل انڈیا اور پاکستان کے کھانوں جیسا تھا۔ شرما کے والدین کو یہ جگہ بہت پسند تھی جہاں انہیں اپنی پسند کے کھانوں کے ساتھ کچھ دیسی لوگوں کے چہرے بھی دیکھنے کو مل جاتے تھے۔

رام شرما اپنے والدین کو beach پر بھی لے جاتا۔ انہیں ساحل سمندر پر تازہ ہوا کھانا بہت پسند تھی لیکن وہاں لو گوں کا ہجوم اور رنگ برنگی نسل کے جوانوں کی نیم برہنہ ٹولیاں انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتی تھیں۔ شرما کی ماں تو نیم برہنہ خواتین کو دیکھ کر دل ہی دل میں کڑہتی اور منہ میں رام رام جپتی رہتی۔ شاید اس لیے کہ اس نے سیتا کو کبھی ایسے روپ میں نہیں دیکھا ہو تا۔ دیہات میں رہنے والی یہ دو بوڑھی روحیں سمندر کی وسعت دیکھ کر ہکا بکا رہ جاتیں لیکن یہاں بھی انہیں گاؤں کے قریب سے گزرنے والی ایک چھوٹی سی ندی کی یاد آ جاتی۔ وہ ندی جس کے کنارے شرما کی ماں اور اس کا باپ پہلی مرتبہ ایک دوسرے کو ملے تھے۔

رام شرما کی تمام تر پر خلوص خدمت کے باوجود اس کے والدین امریکہ میں آ کر جلد ہی اپنی تنگی کا اظہار کرتے۔ شرما شہر کے بہترین ڈاکٹرز سے اپنے والدین کی صحت کا عمومی معائنہ کرواتا اور سال بھر ان کی ضرورت کی دوائیں خرید کر امریکہ سے انڈیا بھجواتا۔ وہ حیران تھا کہ انڈیا میں ایسا کیا ہے جو امریکہ میں نہیں کہ اس کے والدین کا امریکہ میں من نہیں لگتا۔ وہ اپنے ماں باپ کو دوسرے شہر کے مندر میں بھی لے جاتا مگر وہاں بھی اس کے والدین مندر جانے سے زیادہ اپنے مندر فیلوز کو یاد کرتے تھے۔

رام شرما ہر سال اپنے والدین کو بوجھل دل کے ساتھ رخصت کر تا۔ وہ ان کے لیے، اپنے بہن بھائیوں اور ان کے بچوں کے لیے اور ماں باپ کے دوستوں کے لیے بھی تحائف خریدتا، اپنے والدین سے آشیر باد لیتا اور آنسوؤں کے ساتھ ان کو انڈیا کے لیے روانہ کر دیتا تھا۔ وہ اپنے والدین سے اگلے سال آنے کا وعدہ لیتا اور ہر سال شرما کے ماتا پتا بھی اسے انڈیا آنے کی تاکید کرتے کہ وہ آ کر اپنے رشتے داروں سے مل لے اور اپنے بچوں کو انڈیا بھی دکھائے۔ شرما بھی اپنے والدین سے انڈیا چکر لگانے کا وعدہ کر تا اور وہ پچھلے تین سالوں سے اپنا یہ عہد دہراتا آ رہا تھا لیکن جب بھی اس کی انڈیا چکر لگانے کی باری آتی تو اس کی کوئی نہ کوئی کاروباری مجبوری آڑے آ جاتی تھی۔

رام شرما کے امریکہ میں اس بڑے بنگلے کی کہانی بھی بہت عجیب ہے۔ ہر سال اس بنگلے کے مکین آپس میں ملتے اور بچھڑتے رہتے ہیں۔ خاص مہمانوں کے آنے سے کچھ دنوں کے لیے یہ بنگلہ خوشیوں سے جگ مگا اٹھتا ہے پھر سارا سال اس میں ایک ان جانی سی اداسی کا ڈیرہ رہتا ہے۔ ہر سال اس بنگلے کے مالک کے دل میں امید کا ایک چراغ جلتا ہے لیکن اس کی خوشی کا ٹمٹماتا ہوا یہ چراغ اس وقت بجھنے لگتا ہے جب کچھ مکین بنگلے کی رونقیں اور رعنائیاں چھوڑ کر اپنے دیس واپس چلے جانا کا تقاضا کرتے ہیں۔

یہ امریکی بنگلہ اس خوب صورت مندر کی طرح تھا جہاں دیوی اور دیوتاؤں کی مورتیاں دیوار پر سجائی نظر آتی ہیں اور ان کے پجاری کو یہ آس رہتی ہے کہ کبھی تو بھگوان خود چل کر اپنے گھر آئیں گے۔ اس بنگلے کی خوشیاں دیوالی کے موسم کی طرح تھیں جب ہر طرف بڑے بڑے چراغ جلائے جاتے ہیں لیکن روشنیوں کا یہ میلہ ختم ہوتے ہی پھر سے کسی کے دل میں غم کے دیپ جلنے لگتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments