ملالہ کی شادی کی فکر مت کریں، اس نے طالبان کی نہیں سنی آپ کی کیا سنے گی


ہمارے گھروں میں لڑکوں کا مسئلہ کچھ بھی ہو ہمارے پاس حل ایک ہی ہوتا ہے۔ لڑکا امتحان میں فیل ہو گیا ہے، شادی کروا دو، لڑکے کو نوکری نہیں ملتی، شادی کروا دو۔ اب لڑکا چھوٹا موٹا نشہ کرنے لگا ہے، سارا دن باتھ روم سے نہیں نکلتا، بس شادی کروا دو تو ٹھیک ہو جائے گا۔

پتہ نہیں کس حکیم نے ہمیں بتایا ہے کہ دنیا کی ساری بیماریوں کا علاج شادی ہے۔ آپ کے ماں باپ نے بھی شادی کی ہو گی، کبھی انہیں اکیلے اکیلے بٹھا کر پوچھ لیں کہ کیا پایا کیا کھویا۔

اسی طرح شادی کے بارے میں بات ہماری لڑکی ملالہ کر بیٹھی ہے۔ جسے اردو میں کہتے ہیں کہ یہ لڑکی واقعی کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ جب چھوٹی تھی اس کے شہر طالبان آئے، انہوں نے کہا کہ لڑکیوں کے سکول بند، لڑکیاں نہیں پڑھیں گی۔ ملالہ نے کہا کہ میں تو پڑھوں گی بھی اور سکول بھی جاؤں گی۔ طالبان نے سکول کی وین روک کر، نام پوچھ کر، سر اور منہ پر گولیاں ماریں۔

بچانے والا مارنے والے سے بڑا ہوتا ہے۔ لڑکی بچ بھی گئی اور ساتھ پڑھاکو کی پڑھاکو رہی۔ اس کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں غریب اور لاوارث لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ساری دنیا میں اتنا چندہ جمع کر لیا ہے جتنا ہمارے بڑے بڑے سیٹھوں، مانیوں اور ملک ریاضوں نے کبھی ساری زندگی میں نہیں دیا ہو گا۔

اب ملالہ نے کسی فیشن میگزین کو انٹرویو دیا۔ وہ انٹرویو لینے والے بھی ہمارے بہن بھائی ہی ہوں گے۔ انہوں نے بھی پوچھا کہ بھئی شادی کی سناؤ۔

ملالہ نے جواب دیا کہ مجھے تو سمجھ ہی نہیں آتی کہ یہ شادی اتنی ضروری ہے کیوں۔ جو کوئی پسند ہے تو اس کے ساتھ رہ لو۔

اب ہماری ساری قوم قہر کی گرمی اور کرونا شرونا بھول کر ملالہ کے پیچھے پڑ گئی کہ دیکھو یہ لڑکی کہتی کیا ہے۔ ہمارا مذہب، ہمارا معاشرہ، ہمارا فیملی سسٹم، میاں بیوی کا مقدس رشتہ، یہ سب کچھ جلا کر خاک کر کے ایک پٹ سیاپا پڑ گیا۔

کچھ بچاروں کو تو یہ لگا کہ لڑکی خود آ کر انہیں زنا کی تبلیغ کر رہی ہو۔ زیادہ تر اعتراض کرنے والے میرے جیسے شادی شدہ انکل تھے جو کبھی آپ مل کر بیٹھ جائیں تو ان کے پاس اپنی بیویوں کی بدخوئی کے علاوہ کوئی دوسری بات نہیں ہوتی۔

لیکن ساتھ ساتھ ہمارے ان جوانوں کے خون نے بھی جوش مارا جن کا زندگی میں سب سے بڑا کارنامہ یہ ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے باپ کو کنونس کر لیا تھا کہ ہمیں سمارٹ فون لے دو۔ ان لڑکوں نے تیرہ سال کی عمر سے پھوپھی کی بیٹی پر نظر رکھی ہوتی ہے اور زندگی کا عظیم مشن یہ ہوتا ہے کہ لڑکی تھوڑی بڑی ہو جائے تو پھر اس کے ساتھ شادی کریں۔

اب پھوپھی کی لڑکی چاہے بڑی ہو کر مریخ پر جانا چاہیے لیکن ہم نے اسے ڈولی بٹھا کر ہی چھوڑنا ہے۔ شادی کے انتظار میں فارغ بیٹھے سیلفیاں کھینچتے ہیں اور سوشل میڈیا پر جہاں بھی لڑکی نظر آئے اسے لائک اور فرینڈ ریکویسٹیں بھیجتے رہتے ہیں۔ اکثر جواب نہیں آتا اور جب جواب نہیں آتا تو کہتے ہیں کسی کافر کی اولاد۔

اسی طرح انہیں ملالہ کہیں بھی نظر آ جائے تو سارے رولا ڈال دیتے ہیں کہ وٹ شی ڈن فار دا کنٹری، وٹ شی ڈن فار امہ (اس نے ملک کے لیے کیا کیا ہے، اس نے امہ کے لیے کیا کیا ہے )

ان لڑکوں کو یہ بھی یقین ہے کہ اگر کسی لڑکی نے ان کے ساتھ شادی نہ کی تو وہ سنی لیون یا میا خلیفہ بنے گی۔ اب ماں باپ بچارے یہ بھی نہیں پوچھ سکتے کہ یہ دونوں تو تیری پھوپھی کی بیٹیاں نہیں، تو انہیں کہاں ملتا رہا ہے۔

لڑکو میں تمہارا درد سمجھتا ہوں، لیکن تم بھی کوئی عقل کو ہاتھ مارو، سیلفیاں کھینچنی چھوڑ کر دو چار سرچیں مارو گے تو پتہ لگ جائے گا کہ ملالہ اصل میں چاہتی کیا ہے۔ اس نے کام تو زیادہ تر لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کیا ہے۔ لیکن لڑکوں کے لیے بھی اس کا سیدھا سیدھا میسج ہے کہ زیادہ پرسنلی نہ لو لیکن بات اس نے صاف کی ہے اور یہ بات میں نے کسی سکول کے باہر بھی لکھی پڑھی تھی کہ جینا ہو گا مرنا ہو گا پپو تجھے پڑھنا ہو گا۔

تو ملالہ کی شادی کی فکر چھوڑو، اگر تمہاری پھوپھی کی لڑکی تمہارے نصیب میں ہے تو مل جائے گی۔ اب امتحان سر پر ہے، لڑکیوں کو سیلفیاں بھیجنا بند کرو، کتابیں کھولو، تیاری کرو، اللہ خیر کرے گا۔

باقی رہی ملالہ، تو اگر اس نے طالبان کی نہیں سنی تو آپ کی کیوں سنے گی۔
بی بی سی پنجابی کے وی لاگ سے ترجمہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments