امریکہ میں آزادی صحافت کے منہ پر طمانچہ


ایک پاکستانی صحافی پر تشدد کے متعلق امریکی سفارتخانے کے ٹویٹ نے اخبار نویسوں کو چونکا کر رکھ دیا۔ ٹویٹ میں کہا گیا کہ ”صحافیوں پر حملے کبھی بھی برداشت نہیں کیے جا سکتے۔

اس تناظر میں آئیں ذرا امریکہ کی صورتحال پر نظر ڈالتے ہوئے وائے حیرت کرتے ہیں کہ کیسے امریکہ یہ سب برداشت کیے ہے۔

آپ کو یاد ہوگا، گزشتہ سال 2020 میں امریکہ میں 25 مئی کو سیاہ فام 46 سالہ شخص جارج فلائیڈ پولیس تحویل میں ہلاک ہو گیا تھا جس کے بعد امریکہ کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک میں بھی احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔

جس کے بعد امریکہ کی شاہراہوں پر احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا، مظاہرین نسلی تعصب کے خاتمے اور پولیس اصلاحات کے مطالبات لے کر سڑکوں پر جمع ہوئے تھے، جس کی مکمل کوریج کے لئے ذرائع ابلاغ اپنی پیشہ وارانہ امور میں متحرک تھا، اپنے آپ کو مکمل جمہوری اور آزادی صحافت کا علمبردار ملک کہنے والی امریکن حکومت کو یہ صورتحال ناگوار گزاری لہذا انہوں مظاہرین کو منتشر کرنے اور میڈیا کو سبق سکھانے کے لئے پولیس کا استعمال کیا۔

جس کی وجہ سے نہ صرف مظاہرین بلکہ صحافیوں کو بھی بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ’فرانس۔ 24‘ کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں مئی 2020 کے آخری ہفتے سے جاری مظاہروں کے دوران صحافیوں کو پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران شدید مشکلات کا سامنا رہا۔

مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کی زد میں کئی صحافی بھی آئے۔ امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کے رپورٹر کی براہ راست کوریج کے دوران گرفتاری کے بعد صحافیوں کو حراست میں لینے کے کئی واقعات پیش آئے۔

رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر لکھنے والے برطانوی صحافی نک واٹرز نے انکشاف کیا ہے کہ 30 مئی 2020 سے لے کر 7 جون 2020 تک 144 واقعات میں صحافی سیکیورٹی اہلکاروں کے تشدد کا نشانہ بنے اور انہیں زیر حراست لیا گیا۔

ان واقعات میں زیادہ تر منی ایپلس میں ہوئے جب کہ ملک کے دیگر شہروں میں صحافی زیر عتاب رہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 72 فی صد واقعات میں تعارف کرائے جانے کے باوجود صحافیوں کو ہراساں کیا گیا اور ان پر آنسو گیس کی شیلنگ کے علاوہ تشدد بھی کیا گیا۔ اس دوران کئی صحافیوں کو حراست میں لیا گیا۔

وائٹ ہاؤس کے باہر مظاہرے کی کوریج کرنے والے آسٹریلیا کے نشریاتی ادارے ’سیون نیوز آسٹریلیا‘ کے صحافی ٹم مائرز کو پولیس اہلکار نے اپنی حفاظتی شیلڈ کے ذریعے دھکے دیے اور پیچھے ہٹانے کی کوشش کی۔

واقعے پر آسٹریلوی وزیر اعظم اسکاٹ موریسن نے امریکہ میں آسٹریلوی سفارت خانے کو واقعے کی تحقیقات کی ہدایت کی ہے۔

امریکہ میں صحافیوں پر تشدد کے واقعات کا ریکارڈ رکھنے والے ادارے ’یو ایس پریس فریڈم ٹریکر‘ کی رپورٹ کے مطابق اس نے اب تک 300 واقعات کا ڈیٹا مرتب کیا ہے۔

ان واقعات میں 54 صحافیوں کو گرفتار 208 پر حملہ جب کہ 73 صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ان میں سے 47 واقعات میں پولیس اہلکار ملوث تھے۔

امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی مظاہروں کے دوران ذرائع ابلاغ کے کردار کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ 31 مئی کو ایک ٹویٹ میں ٹرمپ نے بطور امریکی صدر میڈیا پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ میڈیا افراتفری اور نفرت پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ میڈیا ’فیک نیوز‘ کے ذریعے اپنا مذموم ایجنڈا پورا کرنا چاہتا ہے

صحافیوں کے حقوق کے حوالے سے آواز اٹھانے والی عالمی تنظیم رپورٹر ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) کے مطابق پریس فریڈم درجہ بندی کی 180 ممالک کی فہرست میں امریکہ کا شمار 44 درجے پر کیا گیا ہے، یہاں سوال بناتا ہے آخر کیوں امریکہ جیسا ترقی یافتہ ملک پریس فریڈم میں نمایاں ملک کا درجہ حاصل نہیں کر پا رہا ہے؟

یو ایس پریس فریڈم ٹریکر کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں رواں سال 2021 میں ماہ جنوری سے لے کر مئی تک 35 صحافیوں پر حملے جبکہ 30 زیرحراست ہیں۔

2020 کے اعداد و شمار کے مطابق 416 صحافی حملوں کا نشانہ بننے 109 کے آلات توڑے گئے، 31 صحافیوں پر مقدمات بنے، 139 کو گرفتار کیا گیا، یو ایس پریس فریڈم کی رپورٹ میں درج مزید مندرجات کے مطابق، امریکہ میں 2017 میں 144، 2018 میں 132 جبکہ 2019 میں 152 واقعات قانون نافذ کرنے والوں کی جانب سے آزادی صحافت کے خلاف رپورٹ ہوئے۔

واضح رہے نہ تو اس دوران اور نہ تاحال امریکہ کسی بھی جنگی کیفیت سے دوچار نہیں ہے، یقیناً یہ معاملات انتظامی غفلت کے پیش نظر رونما ہوئے ہیں، جنہیں میڈیا نے کوریج دی جو امریکن حکومت کو ناگوار گزارا، لہذا انہوں ریاستی جبر کے ذریعے ذرائع ابلاغ کی سرکوبی کی۔

اسی طرح پر تشدد ماحول اور ایمرجنسی کی صورت حال میں فسٹ ایڈ کی تربیت دینے والے امریکی سکیورٹی کے ادارے گلوبل جرنلسٹ سیکیورٹی

( جی، جے، سی )

کے مطابق 2020 میں صحافیوں کی سکیورٹی کے حوالے سے تر بیتی پروگرامز میں دوگنا اضافہ ہوا ہے۔ ادارے کے ایگزیکوٹیو ڈائریکٹر فرینگ سمتھ کے مطابق اس قسم کے تربیتی پروگرام پہلے صرف ان صحافیوں کو کروائے جاتے جنہوں نے عراق یا افغانستان جیسے ممالک میں رپورٹنگ کرنی ہوتی۔ امریکہ میں حالات کی خرابی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2019 میں ان کے ادارے نے 122 صحافیوں کو پر تشدد ماحول میں رپورٹنگ کرنے کی تربیت دی جبکہ 2020 میں یہ تعداد 1996 تک جا پہنچی۔

دوسری جانب، یورپ میں بھی صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز پر حملے بڑھ رہے ہیں۔ تحفظ صحافت کے فروغ کے لیے کونسل آف یورپ کے ایک بہت سرگرم پلیٹ فارم کی 2020 ء کی رپورٹ کے مطابق اس کونسل کے 47 رکن ممالک میں سے 25 میں صحافیوں پر مجموعی طور پر 142 سنگین حملے کیے گئے

چند روز قبل فلسطین کے شہر غزا پر اسرائیل نے اپنی جس فرعونیت کا مظاہرہ کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے وہاں نہ صرف انسانی حقوق پائمال ہوئے بلکہ صحافت بھی تار تار ہوئی۔ اسرائیل نے غزا میں بی بی سی، اے پی، الجزیرہ اور متعدد دوسرے میڈیا دفاتر کو میزائل حملے سے تباہ کر دیا مگر امریکہ سمیت تمام مغربی میڈیا اس سفاکیت پر خاموش رہا۔ اس واقعے پر کسی امریکی و مغربی میڈیا کے پیٹ میں نہ تو انسانی حقوق سے جڑے جذبات کے مروڑ اٹھے اور نہ ہی صحافیوں کی جان و مال کے تحفظ کی فکر نے انہیں پریشان کیا۔ مغربی میڈیا کا یہ دوہرا معیار مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی جارحیت اور انسانی حقوق کی پائمالی اور صحافت پر قدغن کی وجہ سے نیوز کوریج کی پابندی پر بھی نظر آتا ہے جہاں ان کے سلے ہیں جو یقیناً ڈیپ پاکٹس کی غمازی کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments