ملکۂ برطانیہ کی دو بار سال گرہ کیوں ہوتی ہے؟


برطانیہ کی ملکہ الزبتھ سب سے طویل عرصے تک شاہی حکمران رہنے کا ریکارڈ بھی رکھتی ہیں۔
ویب ڈیسک — ملکۂ برطانیہ الزبتھ دوم یوں تو 21 اپریل کو 95 برس کی ہوچکی ہیں۔ لیکن برطانیہ کے شاہی خاندان کی روایت کے مطابق سرکاری سطح پر ان کی سال گرہ 12 جون کو منائی جاتی ہے۔

برطانیہ کے بادشاہ یا ملکہ کی حقیقی اور سرکاری سال گرہ الگ الگ منانے کی یہ روایت 1748 میں بادشاہ جارج دوم کے زمانے سے شروع ہوئی۔

مؤرخین کے مطابق بادشاہ جارج دوم کی سالگرہ خزاں میں آتی تھی اور برطانیہ کے ناسازگار موسم کے باعث یہ وقت عوامی تقریبات کے لیے ناموزوں تھا۔

اس لیے موسمِ گرما میں فوج کی روایتی (ٹروپنگ دی کلر) پریڈ کے دن ہی سرکاری سطح پر بادشاہ کی سال گرہ منانے کی رسم کا آغاز کیا گیا جو تا حال جاری ہے۔ یہ پریڈ ہر سال جون کے دوسرے ہفتے میں منعقد ہوتی ہے۔

برطانیہ میں کرونا کے باعث جاری پابندیوں میں نرمی کے بعد رواں برس 12 جون کو یہ پریڈ منعقد کی جائے گی۔ برطانوی میڈیا کے مطابق شہزادہ فلپ کے انتقال کے بعد اس مرتبہ ملکہ کے کزن ڈیوک آف کینٹ پریڈ کے معائنے میں ملکہ کے ساتھ شریک ہوں گے۔

برطانیہ کی ملکہ الزبتھ سب سے طویل عرصے تک شاہی حکمران رہنے کا ریکارڈ بھی رکھتی ہیں۔ سال میں دو مرتبہ سالگرہ کے انعقاد کے علاوہ بھی برطانیہ کے شاہی حکمران اور خاندان سے متعلق کئی دلچسپ باتیں اور روایات ہیں۔

الزبتھ ملکہ کیسے بنیں؟

جس وقت شہزادی الزبتھ کے والد کی تاج پوشی ہوئی تھی، ان کی عمر محض 11 برس تھی اور اس کے 16 برس بعد 2 جون 1953 کو الزبتھ دؤم کے سر پر ملکۂ برطانیہ کا تاج سجایا گیا تھا۔

شہزادی ایلزبتھ اور شہزادہ فلپ کی شادی کے موقعے پر لی گئی تصویر۔ فائل فوٹو
شہزادی ایلزبتھ اور شہزادہ فلپ کی شادی کے موقعے پر لی گئی تصویر۔ فائل فوٹو

الزبتھ کے والد جارج چہارم سے پہلے ان کے بڑے بھائی ایڈورڈ ہشتم برطانیہ کے بادشاہ تھے جو 20 جنوری تا 11 دسمبر 1936 تک تخت نشین رہے۔ وہ ایک طلاق یافتہ امریکی خاتون ویلس وارفیلڈ سمپسن کی محبت میں گرفتار تھے اور ان سے شادی کرنا چاہتے تھے۔

برطانیہ میں بادشاہ یا ملکہ چرچ آف انگلینڈ کا سربراہ بھی ہوتا ہے۔ چرچ کے تحت شادی کا رشتہ پوری زندگی کے لیے ہوتا ہے اور طلاق یافتہ افراد کے شریک حیات اگر زندہ ہوں تو ان سے شادی نہیں ہو سکتی۔ اور چوں کہ ویلس کے سابق شوہر زندہ تھے، اسی بنیاد پر ان کی بادشاہ سے شادی کی مخالفت کی گئی۔

البتہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس معاملے پر چرچ کے مؤقف میں بھی نرمی آئی ہے۔ سن 2018 میں شہزاہ ہیری کی طلاق یافتہ امریکی اداکارہ میگھن مرکل سے شادی پر چرچ کی جانب سے اعتراض نہیں کیا گیا تھا۔

لیکن ماضی میں ایک طلاق یافتہ خاتون سے شادی کی خواہش پر شاہی خاندان اور چرچ آف انگلینڈ کی سخت مخالفت کی وجہ سے ایڈورڈ کو بادشاہت چھوڑنا پڑی تھی اور یوں ان کے چھوٹے بھائی اور الزبتھ کے والد جارج ششم برطانیہ کے بادشاہ بنے تھے۔

یہ وہی بادشاہ جارج ہیں جنہیں ہکلاہٹ کی شکایت تھی اور اس پر قابو پانے کے لیے ان کی مستقل مزاجی سے کی گئی کوششوں کو 2010 میں ریلیز ہونے والی فلم ’کنگز اسپیچ‘ میں دکھایا گیا ہے۔

ملکۂ برطانیہ کی تاج پوشی کو اب 69 برس مکمل ہو چکے ہیں اور اگلے برس وہ اپنی تخت نشینی کی 70 ویں سال گرہ منائیں گی۔ یوں وہ سب سے طویل عرصے تک تخت نشیں رہنے والی برطانوی فرماں روا ہیں۔

خیال رہے کہ 6 فروری 1952 کو جب بادشاہ جارج ہشتم کا انتقال ہوا تو الزبتھ اس وقت کینیا میں تھیں۔

سلطنتِ برطانیہ کی وسعت کے بارے میں گزشتہ صدی کے وسط تک یہ کہا جاتا تھا کہ اس سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا۔ جب ملکۂ الزبتھ دوم تخت نشیں ہوئیں تو دنیا کے کئی خطوں میں تاجِ برطانیہ کے اقتدار کا سورج غروب ہو چکا تھا۔ لیکن وہ اب بھی رسمی طور پر برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور نیوزی لینڈ سمیت کئی ممالک کی سربراہِ ریاست ہیں۔

ملکہ ایلزبیتھ دو جون 1953 کو تاجپوشی کے بعد اپنے شوہر شہزادہ فلپ کے ساتھ۔ فائل فوٹو
ملکہ ایلزبیتھ دو جون 1953 کو تاجپوشی کے بعد اپنے شوہر شہزادہ فلپ کے ساتھ۔ فائل فوٹو

اس کے علاوہ وہ 54 ممالک کی تنظیم ’دولتِ مشترکہ‘ کی سربراہ بھی ہیں۔ اس تنظیم کے زیادہ تر رکن ممالک وہ ہیں جو برطانوی نو آبادیات کا حصہ تھے۔ البتہ دولتِ مشترکہ میں اب وہ ممالک بھی شامل ہو سکتے ہیں جو کبھی سلطنتِ برطانیہ کا حصہ نہیں رہے۔

کیا یہ محض ایک اعزازی منصب ہے؟

اگرچہ برطانوی نظامِ مملکت میں ملکہ کا عہدہ رسمی اور اعزازی ہے لیکن انہیں کئی اہم اختیارات اور مراعات بھی حاصل ہیں۔

برطانیہ کی پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے کسی بھی بِل کو باقاعدہ قانون کے نفاذ کے لیے ’شاہی منظوری‘ یا ’رائل اسینٹ‘ درکار ہوتا ہے۔ عام طور پارلیمان سے قانون سازی مکمل ہونے کے بعد شاہی منظوری فوری طور پر حاصل ہو جاتی ہے اور اسے ایک رسمی کارروائی تصور کیا جاتا ہے۔

لیکن کسی قانون کے مجوزہ مسودے کو پارلیمنٹ میں زیرِ بحث لانے سے قبل ’ملکہ کی توثیق‘ (کوئنز کنسینٹ) کے اختیار پر کئی سوال اٹھائے جاتے ہیں۔

اس اختیار سے متعلق 2013 میں اہم معلومات اس وقت سامنے آئی تھیں جب ایک عدالتی فیصلے کے تحت کابینہ کے وکلا کی تیار کردہ دستاویز منظرِ عام پر آئی تھی۔ اس دستاویز میں بتایا گیا تھا کہ وزرا اور سرکاری ملازمین کسی قانون سازی کو پارلیمان میں زیرِ بحث لانے سے قبل ملکہ اور ولی عہد شہزادہ چارلس کو اس کی جزئیات اور تفصیلات سے آگاہ کرنے کے پابند ہیں۔

بعض مبصرین کے خیال میں اس دستاویز سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملکہ اور شاہی خاندان کے قانونی سازی سے متعلق اختیار کے رسمی یا اعزازی ہونے کا عام تاثر مکمل طور پر درست نہیں۔

ملکہ ایلزبتھ اور ولی عہد شہزادہ چارلس۔ فائل فوٹو
ملکہ ایلزبتھ اور ولی عہد شہزادہ چارلس۔ فائل فوٹو

اس دستاویز میں بتایا گیا تھا کہ ملکہ نے 1999 میں عراق کے خلاف فوجی کارروائی سے متعلق ایک بِل ویٹو کر دیا تھا کیوں کہ اس مجوزہ قانون سازی میں عراق پر فوجی حملوں کا حکم دینے کا اختیار ملکہ سے پارلیمنٹ کو منتقل کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔

یہ تفصیلات سامنے آنے کے بعد لبرل ڈیموکریٹ رکنِ پارلیمنٹ اینڈریو جارج نے کہا تھا کہ یہ ان لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے جو سمجھتے ہیں کہ ملکہ کا کردار محض اعزازی ہے۔

لیکن شاہی خاندان یا ملکہ کو حاصل زیادہ تر حتمی اختیارات اب کابینہ یا وزرا کو منتقل کر دیے گئے ہیں یا انہیں مشاورت سے مشروط کر دیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ برطانوی پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے ارکان یعنی ’لارڈز‘ کے تقرر کا اختیار بھی ملکہ کے پاس ہے۔ وہ منتخب حکومت کے وزرا کے مشورے سے یہ اختیار استعمال کرتی ہیں۔

چرچ آف انگلینڈ کی سربراہ

برطانیہ کی ملکہ ہونے کے ساتھ الزبتھ دوم ’چرچ آف انگلینڈ‘ کی سربراہ بھی ہیں۔

چرچ آف انگلینڈ کا قیام سولہویں صدی میں عمل میں آیا تھا۔ اس وقت کے بادشاہ ہنری ہشتم کی اہلیہ کیتھرین سے کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی اور وہ اپنی وراثت کے لیے نرینہ اولاد کے خواہش مند تھے۔

اس کے لیے وہ کیتھرین سے علیحدگی اختیار کرکے ایک اور شادی کرنا چاہتے تھے۔ اس وقت کے پاپائے روم کلیمنٹ ہفتم نے کیتھرین کے ساتھ شادی منسوخ کرنے کی ہنری کی خواہش تسلیم نہیں کی جس کے بعد ہنری نے 1534 میں برطانوی پارلیمنٹ سے قانون سازی کرا کے چرچ آف انگلینڈ کو رومن کیتھولک چرچ کی ماتحتی سے نکال دیا۔

اس قانون کے تحت برطانیہ کا بادشاہ یا ملکہ اس چرچ کے سربراہ ہوتے ہیں۔ ملکہ وزیرِ اعظم کے مشورے سے چرچ آف انگلینڈ کے بشپس اور آرچ بشپس کا تقرر کرتی ہیں جب کہ وزیرِ اعظم اپنی سفارشات کے لیے چرچ کمیشن سے مشاورت کرتے ہیں۔

برطانوی فرماں روا کے چرچ آف انگلینڈ کا سربراہ ہونے سے یہ مراد بھی لی جاتی ہے کہ جانشینی کے لیے شاہی خاندان سے تعلق ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا چرچ آف انگلینڈ کے مذہبی عقائد پر کاربند ہونا بھی ضروری ہے اور اگر کوئی مذہب تبدیل کر لیتا ہے تو وہ بادشاہ یا ملکہ نہیں بن سکتا۔

ڈرائیونگ لائسنس اور پاسپورٹ

شاہی خاندان کی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ کے قانون کے تحت ملکہ کے خلاف دیوانی یا فوجداری مقدمات میں کارروائی نہیں ہو سکتی۔ لیکن وہ ذاتی طور پر یہ یقینی بناتی ہیں کہ ان کا ہر عمل قانون کے مطابق ہو۔

ماہرین کے مطابق اگر ملکہ یا بادشاہ کسی سنگین جرم کا ارتکاب کر دیں تو انہیں منصب سے دست بردار ہونا پڑتا ہے۔ ماضی میں اس کی ایک مثال ملتی ہے جب 1649 میں بادشاہ چارلس اول کے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلا کر انہیں پھانسی دی گئی تھی۔

مؤرخین کے مطابق چارلس نے عدالت کے سامنے یہی دلیل پیش کی تھی کہ بادشاہ قانون سے بالاتر ہوتا ہے لیکن عدالت نے ان کا یہ استدلال تسلیم نہیں کیا تھا۔

اس کے علاوہ ملکہ کو کچھ اور قانونی مراعات بھی حاصل ہیں۔ جیسا کہ برطانیہ میں ڈرائیونگ لائسنس ملکہ کے نام سے جاری ہوتا ہے لیکن ملکہ کے لیے ڈرائیونگ لائسنس بنوانا ضروری نہیں۔ اسی طرح بیرونِ ملک سفر کے لیے انہیں پاسپورٹ بھی درکار نہیں ہوتا البتہ شاہی خاندان کے دیگر افراد کو یہ رعایت حاصل نہیں۔

ملکہ کا بادشاہ نہیں ہوتا

رواں سال 9 اپریل کو 90 برس کی عمر میں شہزادہ فلپ کا انتقال ہوا۔ الزبتھ سے ان کی شادی 20 نومبر 1947 کو اس وقت ہوئی تھی جب وہ شہزادی تھیں اور ملکہ نہیں بنی تھیں۔

شادی کے بعد فلپ پرنس آف گِریس اینڈ ڈنمارک کے خطابات سے دست بردار ہو گئے تھے اور ملکہ بننے کے بعد ان کی اہلیہ ہی نے انہیں ڈیوک آف ایڈنبرا کا خطاب دیا تھا۔

فلپ ملکہ کے شوہر تھے لیکن انہیں برطانیہ کا بادشاہ نہیں کہا جا سکتا تھا۔ سن 1957 میں انہیں پرنس کہا جانے لگا جب کہ اس سے پہلے انہیں صرف ڈیوک آف ایڈنبرا کہا جاتا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ برطانوی شاہی نظام میں بادشاہ کی اہلیہ کو تو ’کوئین کونسورٹ‘ کا یا ملکہ کا خطاب دیا جا سکتا ہے اگرچہ کاروبارِ حکومت میں عملاً ان کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔

لیکن ملکہ کے شوہر کو رسمی طور پر بھی ’بادشاہ‘ کا خطاب نہیں دیا جا سکتا کیوں کہ شاہی خاندان کے صدیوں پرانے قواعد و ضوابط کے تحت برطانیہ کی بادشاہت خاندانی وراثت ہے اور بادشاہ کا حقیقی وارث ہی اس کا حق دار ہے۔ اس لیے ملکہ سے شادی کرنے والے کو بادشاہ کے بجائے ’پرنس کونسورٹ‘ کہا جائے گا۔

شاہی خاندان کے لیے کون سے ضوابط پر عمل کرنا ضروری ہے

برطانیہ کے قوانین اور روایات کے تحت شاہی خاندان اور ملکہ پر بھی کچھ ضوابط کی پابندی لازم ہے۔

ملکہ برطانیہ سربراہِ ریاست ہیں اور ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ سیاسی طور پر غیر جانب دار رہیں۔ اسی طرح شاہی خاندان کے دیگر افراد بھی سیاسی موضوعات پر عام اظہارِ خیال نہیں کر سکتے۔

کھانے کی میز پر ملکہ موجود ہوں تو جیسے ہی وہ کھانا ختم کر دیں، شاہی خاندان کے افراد کو بھی کھانے سے ہاتھ روکنا پڑتا ہے۔

سفر میں شاہی خاندان کے افراد کے لیے ایک سیاہ لباس ساتھ رکھنا ضروری ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اگر انہیں اچانک کسی موت کے سوگ میں شریک ہونا پڑے تو اس صورت میں ان کے پاس موزوں لباس ہونا چاہیے۔

اس کے علاوہ شاہی خاندان میں سے جو افراد ملکہ کے ممکنہ جانشین ہیں وہ ایک ساتھ سفر نہیں کر سکتے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments