سپریم کورٹ اور ادارے: آئین کی حفاظت بنیادی فرض ہے


سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کو سپریم جوڈیشل کی طرف سے برطرف کرنے کے فیصلہ کے خلاف پٹیشن پر سماعت غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردی گئی ہے۔ گزشتہ روز اس معاملہ پر ہونے والی سماعت میں بعض ایسے اہم نکات سامنے آئے ہیں جو پاکستان میں عدلیہ کے کردار، آئینی تقاضوں اور انٹیلی جنس اداروں کی زور زبردستی کے حوالے سے اہم ہیں۔ پاکستان میں عدلیہ کو اپنے وقار اور آئین کی حفاظت کے لئے اپنا کردار واضح کرنا ہوگا۔

شوکت صدیقی کی درخواست پر غور کے دوران بنچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ایک موقع پر واضح کیا کہ عدالت اگر اداروں کی حفاظت نہیں کرے گی تو کون کرے گا؟ ان کا یہ سوال شوکت عزیز صدیقی کی راولپنڈی ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن میں21 جولائی 2018 کو کی گئی تقریر کے حوالے سے تھا۔ فاضل جج کا کہنا تھا کہ اس تقریر کے متن سے انکار نہیں کیا گیا ، اس لئے یہ کہنا کہ جوڈیشل کونسل نے تحقیقات کے بغیر فیصلہ سنا دیا ، درست نہیں ہے۔ اس موقع پر بنچ میں شامل جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ شوکت صدیقی کے وکیل کو دو سادہ سوالوں کا جواب دینا ہے۔ ایک کیا یہ تقریر جج کے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی تھی یا نہیں؟ دوسرےہمیں یہ سمجھا دیں کہ کونسل کو مزید تحقیقات کی ضرورت تھی یا نہیں؟

شوکت صدیقی کے وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ ان کے مؤکل نے سپریم جوڈیشل کونسل میں اوپن ٹرائل کی درخواست دی تھی جو مسترد کر دی گئی۔ انہوں نے چیف جسٹس سے ملاقات کے لئے چار بار درخواست کی لیکن شنوائی نہیں ہوئی ۔ چیف جسٹس ان کی پریشانی سننے کےلئے ان سے نہیں ملے۔ تاہم بنچ میں شامل ججوں کا اصرار تھا کہ ایک پبلک فورم پر تقریر کرنا غلط تھا۔ اس معاملہ سے عدالتی نظام کے اندر رہتے ہوئے نمٹنا چاہئے تھا۔ جسٹس بندیال کے بقول شوکت صدیقی نے تقریر کرکے اپنا بغض نکالا۔ حامد خان نے کہا کہ شوکت صدیقی کی تقریر کا مقصد عدلیہ کو بدنام کرنا نہیں ، نظام کی بہتر ی تھا۔ اوپن ٹرائل کی درخواست کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’سپریم جوڈیشل کونسل کو خطرہ تھا کہ اگر تحقیقات شروع ہوئی تو میرا موکل جنرلز کو بلانے کا کہے گا۔ اسی خطرے سے بچنے کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل نے میرے موکل کے خلاف ایسے باتیں کیں‘۔

ججوں اور وکیل کے مکالمہ کے دوران یہ پہلو بھی زیر بحث آیا کہ سپریم کورٹ اداروں کے تحفظ میں کس حد تک جاسکتی ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال کے یہ ریمارکس کہ عدالت عظمی ٰ پر اداروں کی حفاظت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، شاید پاکستان میں عدلیہ کے کردار کے حوالے سے ابہام پیدا کرنے کا سبب بنیں گے۔ ملکی سپریم کورٹ نے اداروں کی حفاظت کی نام نہاد ذمہ داری نبھانے ہی کے لئے پچاس کی دہائی میں مولوی تمیزالدین کیس میں نظریہ ضرورت ایجاد کیا اور قانونی تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے گورنر جنرل کی طرف سے ملک کی پہلی آئین ساز اسمبلی کو برطرف کرنے کو جائز قرار دیا۔ اس ایک فیصلہ کی وجہ سے عدلیہ ایک ایسے گرداب میں پھنسی کہ وہ آج تک اس کی ہلاکت خیزی سے باہر نہیں نکل سکی۔ آج ملک میں سیاست اور قانون کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ اگر 1955 میں دیے گئے اس فیصلہ میں قانون کی بجائے اداروں کی حفاظت کے لئے ماورائے قانون’ نظریہ ضرورت ‘ کی مجبوری کا سہارا نہ لیا جاتا تو آج ملک کی سیاسی و عدالتی تاریخ مختلف ہوتی۔ اور ستر سال بعد بھی ہماری عدالتیں یہ اصرار نہ کررہی ہوتیں کہ ہم ابھی سیکھنے کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ سب کو اصلاح کی ضرورت ہے۔

ایک جج کی اسٹبلشمنٹ کے کردار کے حوالے سے کی گئی تقریر پر اسے عجلت میں برطرف کرنے کا فیصلہ بھی درحقیقت اسی سوچ کا مظہر تھا جس کے تحت اداروں کی حفاظت کو ترجیح دی جاتی ہے اور اکا دکا شخص اگر حوصلہ کرکے درپردہ رونما ہونے والے غیر قانونی، غیر آئینی اور غیر اخلاقی اعمال کا احوال بیان کرتا ہے تو اسے نشان عبرت بنانے میں دیر نہیں کی جاتی۔ اس لئے جسٹس عمر عطا بندیال جب اس اہم معاملہ کی سماعت کے دوران اداروں کی حفاظت کی ذمہ داری تو اٹھاتے ہیں لیکن آئینی تقاضوں کا ذکر نہیں کرتے تو یہ یاد دہانی کروانا ضروری ہے کہ اداروں کی حفاظت کے لئے مصلحت آمیز رویہ اختیار کرنا عدالتوں کا کام نہیں ۔ سپریم کورٹ کے متعدد جج مختلف مواقع پر یہ اصرار کرچکے ہیں کہ سپریم کورٹ آئین کی محافظ ہے۔ یہی کسی ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کا بنیادی فرض ہے۔ کوئی دوسرا مقصد اس بنیادی اور اصولی مقصد سے بالا نہیں ہوسکتا۔ ریمارکس اور کسی وکیل کے ساتھ مکالمہ کی صورت میں جب اداروں کی حفاظت کی ذمہ داری کا ذکر آتا ہے تو پاکستانی عدلیہ کے تاریخی پس منظر میں اس بارے میں تشویش پیدا ہونا فطری امر ہے۔ ملک کی پیچیدہ اور تکلیف دہ سیاسی و عدالتی تاریخ کے تناظر میں ضروری ہے کہ اس معاملہ کو صاف کردیا جائے اور جج دو ٹوک الفاظ میں یہ اعلان کرنے کے قابل ہوں کہ آئینی دستاویز ہی سب سے مقدس ہے اور اس کی حفاظت ہی ان کا اولین فریضہ ہے۔ بصورت دیگر بحث کو طول دیا جاسکتا ہے لیکن قانون کی بالادستی اور عدلیہ سمیت سب اداروں کو آئین کا تابع فرمان بنانے کا مقصد حاصل نہیں کیا جاسکتا۔

اس حوالے سے خاص طور پر یہ ذمہ داری اس وقت دو چند ہوجاتی ہے جب ادارے آئین توڑ نے کا سبب بنے ہوں۔ اس موقع پر اگر عدالت اداروں کی حفاظت کا عزم کرتے ہوئے آئینی ضرورتیں نظر انداز کرنے کا موجب بنے تو ناقابل قبول صورت حال پیدا ہوگی جو تنازعات حل کرنے کی بجائے نئے فتنے پیدا کرنے کا باعث بنے گی۔ شوکت صدیقی کیس میں یہ سوال ضرور اہم ہے کہ کیا انہیں آئی ایس آئی کی مداخلت کے بارے میں پبلک تقریر کرنی چاہئے تھی یا اس بارےمیں چیف جسٹس کو تحریری طور سے مطلع کرنا چاہئے تھا۔ یا متعلقہ افسر کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس لیتے ہوئے اسے عدالتی نظام کے اندر نمٹانا چاہئے تھا۔ چیف جسٹس کو مطلع کرنے کے حوالے سے حامد خان کا جواب شافی اور اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے مزاج کا عکاس ہے۔ شوکت صدیقی کی بار بار درخواست کے باوجود ملاقات کا وقت نہیں دیا گیا۔ جہاں تک فاضل ججوں کی اس دلیل کا تعلق ہے کہ شوکت صدیقی ہائی کورٹ کے جج کے طور پر توہین عدالت کا نوٹس لے سکتے تھے۔ یہ سوال اٹھانے والوں کو حامد خان کی اس بات کا جواب دینا چاہئے کہ اگر شوکت صدیقی نے توہین عدالت کا نوٹس دینے کی بجائے تقریر کرکے ’اپنا بغض‘ نکال لیا تو اس وقت کے چیف جسٹس نے یہ معاملہ نوٹس میں آنے کے بعد توہین عدالت کی کارروائی کیوں نہیں کی۔ چیف جسٹس نے تب بھی اداروں کی حفاظت کے ’مقدس فرض‘ کے پیش نظر خفیہ ملاقاتوں کا احوال پبلک کرنے والے جج ہی کی بازپرس کرنا اور انہیں معزول کرنا اہم سمجھا۔

حامد خان کا یہ کہنا بھی قابل غور ہے کہ ’ شوکت عزیز صدیقی نام نہ لیتے تو بھی جرم، نام لے لیا تو بھی جرم‘۔ انہوں نے کہا کہ شوکت عزیز صدیقی کے خلاف جو کرنا ہے کریں البتہ انہوں نے اپنی تقریر میں جن کا نام لیا ہے، ان سے بھی پوچھا جائے۔ یہ اہم مطالبہ ہے۔ اس کا جواب اگر آج نہ دیا گیا تو یہ سوال ایک گونج کی صورت میں نظریہ ضرورت کی ذہنیت والے ججوں کے سامنے بار بار واپس آتا رہے گا۔ تاآنکہ کوئی حوصلہ مند منصف اصل قصور واروں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی جرات کرسکے۔ اس حوالے سے افراد اور ادارے میں تخصیص کرنا بھی اہم ہے۔ کسی بھی ادارے سے وابستہ کوئی شخص جب قانون ہاتھ میں لیتا ہے تو اس فعل کو ادارے کے سر نہیں تھوپا جاسکتا۔ نہ ہی اس قانون شکن کو ادارے کی حرمت و تقدیس کے نام پر جوابدہی سے مستثنی قرار دیا جاسکتا ہے۔ سپریم کو رٹ کو فرد اور ادارے میں تمیز کرنا ہوگی۔ اداروں پر حاوی افراد کو اداروں کے تقدس کی آڑ میں غیر قانونی حرکات کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ موجودہ حالات میں اگر عدالت بھی خود کو یہ تمیز کرنے کی اہل ثابت نہیں کرے گی تو نہ آئینی نظام کام کرے گا اور نہ ہی معاشرہ میں قانون کا احترام عام ہوسکے گا۔

سماعت کے دوران جب شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان نے اصرار کیا کہ ’ شوکت صدیقی کے ساتھ جو ہو رہا تھا، انہوں نے عوام میں بتا کر جرات کا مظاہرہ کیا‘۔ اس پر جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھاکہ عوام کو بتانا جرات نہیں ہتھیار پھینکنا ہے۔ انہوں نے ماضی میں ایک دوسرے جج کے ساتھ پیش آنے والے ایسے ہی واقعہ کا حوالہ بھی دیا جنہوں نے شوکت صدیقی طرح تقریر کرنے کی بجائے اندرونی طور پر شکایت کی اور معاملہ حل ہو گیا۔ جسٹس بندیال نے چونکہ نہ تو اس جج کا نام بتایا اور نہ ہی اس واقعہ میں افراد کے بارے میں معلومات دی ہیں ، اس لئے اس پر تبصرہ ممکن نہیں ہے۔ البتہ اس واقعہ کا حوالہ دے کر انہوں نے خود ہی اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ اداروں کے بعض افسر ججوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور شوکت صدیقی اس مشکل کا سامنا کرنے والے تنہا جج نہیں تھے۔ اس طرح فاضل جج خود ہی نظام کی خرابی کا اعتراف کررہے ہیں۔ یوں ان کی اس بات کو قبول نہیں کیا جاسکتا کہ درپردہ قانون شکنی کی اطلاع عام کرنا بہادری نہیں بلکہ ہتھیار پھینکنےکے مترادف ہے۔ جب نظام کو جکڑ لیا جائے اور اعلیٰ عدالتوں کے جج اپنے ایک ساتھی کو سچا ماننے کے بعد اسے ہی مطعون کرنے پر آمادہ ہوں تو اس کا اعلان کرنے کا حوصلہ کرنے والا جج تو بہادر اور اصول پرست ہی کہلائے گا۔ اسے بزدل یا شکست خوردہ نہیں کہا جاسکتا۔

عدالتی نظام کی سلامتی آئین کی بالادستی میں مضمرہے۔ اگر کوئی جج اس حقیقت کو نظر انداز کرتا ہے تو وہ وقتی مفاد کے لئے سچائی سے گریز تو کرسکتا ہے لیکن قانون کی بنیاد پر ایک مہذب معاشرے کی تشکیل میں رکاوٹ بھی بنتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments