کیا چترال میں وبا خود کشی میں اضافہ کا سبب بنی؟


کمرہ جماعت میں ایک استاد طالبعلموں سے مخاطب ہو کر کہتی ہیں کہ آج میں، روزانہ کے معمول سے ہٹ کر، آپ لوگوں کو ایک اسائنمنٹ دے رہی ہوں جس میں آپ کو اپنے دل کی بات پوری دیانت داری کے ساتھ لکھنی ہوگی۔ اسائنمنٹ کے لئے سب کو کاغذ دینے کے بعد بچوں کو مخاطب کر کے بولی: آج آپ کا کام یہ ہے کہ ’آپ اپنے زندگی میں کیا بننا چاہتے ہیں‘ اس بارے میں لکھیں۔

سب بچے اپنے اپنے حوالے سے لکھنے کے بعد اپنا اسائنمنٹ استاد کے پاس جمع کرتی ہیں جس میں ایک بچے کے اسائنمنٹ پر جب استاد کی نظر پڑی تو اس میں ایک لفظ اسے نظر آیا۔ اس بچے کو جاتے ہوئے دیکھ کر اسے اپنے پاس بلا کر اس کو مخاطب کر کے کہنے لگی کہ شاید آپ کو اس اسائنمنٹ کا مطلب درست سمجھ نہ آئی ہو؟ کیونکہ اس بچے نے ایک لفظ سے اپنا اسائنمنٹ سمیٹ لی تھی۔ وہ بچہ اسائنمنٹ کے سوال ”آپ اپنے زندگی میں کیا بننا چاہتے ہیں“ کے جواب میں لکھا تھا ”خوش“ ۔

اپنے زندگی میں کچھ بننے سے پہلے کرنا تھا وہ : خوش رہنا یعنی اس کے نزدیک زندگی کا فلسفہ اور مقصد خوش رہنا ہے، اور خوش رہنے کا فلسفہ زندگی کے اس سفر کو بہتر گزارنے کا راز و طاقت کا سرچشمہ ہے۔

نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا کے ہر ملک میں کورونا وائرس کی وبا سے، محققین کے مطابق، خود کشی میں اضافہ کوئی غیریقینی بات نہیں کیونکہ نوے فیصد ایسے کیسسز نفسیاتی بیماری سے ہو جاتے ہیں۔ ماہر ین کے مطابق کورونا وائرس کی بیماری اور اس کا خوف، کام کے حوالے سے دباو، خوف کے علاوہ ڈپریشن، پریشانی اور دوسرے نفسیاتی مسائل جنم لیتے ہیں ان کی وجہ سے خود کشی کی بیماری میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ہر شخص کا کاروبار زندگی خراب اور لوگ گھروں سے باہر آ گئے ہیں تو نفسیاتی طور پر اسیری کی کیفیت موجود ہے۔ پاکستان میں صنعت، کاروبار، مزدوری، نوکری، سکول، تفریحی مقامات، کھیل اور لوگوں کا آپس میں میل جول اب اگر مکمل طور پر بند نہیں تو فاصلہ ضرور ہے۔

اس فاصلے کو جب پریشانی، کوفت، خوف اور تنہائی لے تو بیماری کی شکل لے لیتی ہے۔

اب تک چترال میں یہ عام تاثر تھا اور ہے کہ دوسرے عوامل کے علاوہ، اور یہ عام مشاہدے میں بھی آ چکا ہے، کہ میٹرک اور انٹر میڈیٹ، میڈیکل اور انجنیئرنگ وغیرہ کے امتحانات کے نتائج آنے کے بعد خود کشی کے واقعات رونما ہوتے رہے لیکن اب چترال میں ایک بار پھر خود کشی کی بیماری کا یہ لہر دوبارہ زیادہ ہو گئی ہے۔ گزشتہ ایک مہینے سے اس بیماری میں خوفناک اضافہ دیکھنے میں آئی جس میں نہ صرف نوجوان لڑکیاں اور لڑکے بلکہ شادی شدہ خواتین کے خود کشی کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس سال اب تک 25 کے قریب افراد خود کشی کر چکے ہیں۔ اس سے ایک قیاس یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ کورونا وبا کی وجہ سے ہو رہے ہیں؟ چترال میں خودکشی کے واقعات ہو رہے ہیں جس میں صحت، تعلیم، معاشی مسائل، بے روزگاری، گھریلو مسائل اور ناچاقی، ذہنی دباو اور کوفت قابل ذکر ہوسکتے ہیں۔

صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت یونیسف کے تعاون سے روزمرہ زندگی کے مسائل یا کورونا وبا کی وجہ سے کوئی نفسیاتی مسائل کا شکار ہے جس میں چڑچڑا پن، ڈرو خوف اور مایوسی ہو تو صوبائی حکومت کی قائم کردہ ہیلپ لائن اور معالج سے مفت مشورہ اور علاج کی سہولت سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے باوجود ہمیں انفرادی اور اجتماعی حد تک ہر حساس ذہن پر یہ باور کرنا ہوگا کہ :

زندگی کا مقصد دولت نہیں، تعلیم کا مقصد نوکری نہیں، مقابلے کا مقصد جان کی بازی نہیں، فاصلے کا مقصد تنہائی نہیں۔ بے روزگاری کا مطلب ناکامی نہیں، امتحان میں ناکامی کا مطلب محرومی نہیں، انحطاط کا مطلب تباہی نہیں۔

ہمیں معاشرے میں خصوصاً کورونا وبا کے دنوں اکثر لوگ کسی نہ کسی وجہ سے پریشان ہیں ان کی پریشانی کا سبب بننے کی بجائے اس کے حل میں اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، اور معاشرے سے فرسودہ سوچ اور کلمات کے خلاف جنگ اب ناگزیر ہے جس سے کوفت، پریشانی، چڑچڑا پن اور ذہنی مایوسی پیدا ہو جاتے ہیں۔

نامساعد حالات کے باوجود حالات کا مقابلہ کرنا زندگی ہے اور زندگی خوش رہنے کا نام اور سلیقہ ہے۔ حالات کے تناظر میں خود کو اور اپنے اردگرد لوگوں کو وبا کے دنوں خوش رکھنا، ذہنی طاقت دینا، مدد اور راہنمائی کرنا ہماری معاشرتی اور اخلاقی فریضہ ہے۔

الحاج محمد خان
Latest posts by الحاج محمد خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments