گوٹھ علی نواز کی ریاست

وسعت اللہ خان - تجزیہ کار


گوٹھ علی نواز کے عین سر پہ صبح ساڑھے تین بجے کے لگ بھگ دھماکہ ہوا۔ ریلوے لائن سے ساڑھے پانچ سو گز پرے سوئے ہوئے گھروں کے مرد آواز کی جانب دوڑ پڑے اور پھر آس پاس والے بھی پہنچنے لگے۔

ریلوے ٹریک کے دونوں طرف الٹی ہوئی مسافر بوگیوں میں پھنسے کچھ انسان مر چکے ہیں، کچھ ذرا دیر میں مرنے والے ہیں۔ جو مر گئے سو مر گئے۔ اب مسئلہ زندگی اور موت کی دوہری رسی پر جھولتے زخمیوں کا ہے۔

گاؤں والوں کو حالات سمجھنے میں بس چند ثانیے لگے۔ کسی نے کسی سے نہیں پوچھا اب کیا کریں۔ جس کو جو برتن ہاتھ آیا اس میں پانی بھر کے زخمیوں کی پیاس بجھانے چلے آئے۔

گاؤں کی موٹر سائیکلیں جانے کب ہنگامی ایمبولینسوں میں تبدیل ہو گئیں۔ ان جوانوں کو کوئی تربیت نہیں تھی کہ کس زخمی کو کیسے اٹھانا ہے۔ بس اتنا اندازہ تھا کہ ایک ایک سیکنڈ بھاری ہے۔ ان زخمیوں میں سے جتنوں کو جیسے کیسے قریبی صحت مرکز تک پہنچا دیا جائے تو شاید جان بچ جائے۔

کچھ نے دیکھا کہ چند بے سدھ مسافر کھلے آسمان تلے پڑے ہیں تو دوڑ کر بستر کی چادریں، اجرکیں، کھیس جمع کر کے لے آئے اور ساکت جسموں پر ڈالتے چلے گئے۔

پُر تجسس بچے زندگی اور موت کا دلچسپ تماشا دیکھنے کے بجائے جائے حادثہ اور گاؤں کے درمیان جانے کب خود بخود سپلائی لائن بن گئے۔

عورتوں کے لیے بہت مشکل تھا گھر بار چھوڑ کر لاچاروں کی مدد کے لیے اپنے مردوں کی اجازت کے بغیر نکلنا۔ مگر انھوں نے بھی فوری کام ڈھونڈھ لیا۔

جتنا آٹا میسر تھا گوندھ کر توا چڑھا دیا۔ پتیلوں میں چائے کا پانی ابلنے لگا۔ شاید مویشی بھی بھانپ گئے تھے کہ آج ان کے دودھ کی سب سے زیادہ ضرورت پڑنے والی ہے۔

گھر کے مردوں کو جس جس میسر اوزار کی ضرورت تھی لڑکیوں نے وہ ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر دیے۔ کچھ نوجوان کہیں سے ایک دو کٹر بوگیاں کاٹنے کے لیے بھی لے آئے۔

بچے بچیوں نے کچے صحنوں میں اور گھر سے باہر درختوں کے نیچے چارپائیاں بچھا کر رلیاں ڈال دیں۔ جانے کب کسے ضرورت پڑ جائے۔

علی نواز کے گھر میں عورتوں بچوں جوانوں سمیت بارہ جنے تھے۔ اسے سب کو منظم کرنے میں زیادہ سے زیادہ پانچ منٹ لگے ہوں گے۔اس کی بیوی حبیبہ نے باورچی خانے کی کمان سنبھال لی۔

کتنے گھنٹے وہ باورچی خانے میں رہی یہ تو اسے یاد نہیں۔ بس اتنا یاد ہے کہ روٹیاں بناتے بناتے اور چائے ابالتے ابالتے اس کے ہاتھ سیاہ ہو گئے تھے۔

چھ سات گھنٹے بعد امدادی ٹیمیں بھی پہنچنا شروع ہو گئیں۔ پھر مقامی میڈیا آنے لگا۔ اب گاؤں والوں کے لیے ایک اور مرحلہ شروع ہو گیا۔ امدادی ٹیمیں ان کی مہمان ہیں۔ اور مہمان کی بھوک پیاس اور آرام کی ضرورت کے لیے پوچھا تھوڑی جاتا ہے۔

جو تھک جاتا وہ چارپائی پر سستا لیتا۔ چائے تو سب کی سانجھی ضرورت ہے اور کھانا ؟ وہ تو چاہیے ہی چاہیے۔۔ کوئی ٹیم اپنے ساتھ یہ سب تھوڑی لے کر آتی ہے۔

یہ آپریشن جتنے گھنٹے چلتا رہا چھوٹا سا گوٹھ علی نواز اور آس پاس کے گاؤں اس آپریشن پر اپنی بساط بھر امدادی چھتری بنے رہے۔

جو وقائع نگار وہاں پہنچے ان میں سے شائد ہی کسی نے اس گاؤں والوں سے ان کا اپنا حال پوچھا ہو۔ ان رپورٹروں کو بس اتنا جاننا کافی تھا کہ ڈہرکی سے پچیس کلومیٹر پرے الٹ جانے والی دو ٹرینیں۔ اتنے ہلاک، اتنے زخمی، فلاں فلاں ادارے کی امدادی سرگرمیاں وغیرہ وغیرہ۔

چائے کس نے بنائی؟ کھانے کا کس نے پوچھا، پانی کا گلاس کس نے تھمایا۔ شاید ان بیرونیوں کو جائے حادثہ سے رخصتی کے بعد کسی کی شکل تک یاد نہ ہو۔

ایسے ہر حادثے کا ذمہ دار انسانی غلطی ہے یا تکنیکی خرابی، کسے معطل ہونا ہے، کس کی ترقی ہونی ہے، ورثا کو کتنی رقم ملے گی، کب ملے گی اور کتنی جوتیاں چٹخا کے ملے گی، زخمیوں کا مکمل علاج سرکار کروائے گی کہ یہ زخمی اپنے لیے بازار سے خود نمک خریدیں گے۔

کس امدادی ٹیم نے جانفشانی دکھائی اور ان میں کون کون آزمائش کی اس گھڑی کا ہیرو ہے۔ آئندہ ایسے حادثات روکنے کے لیے کیا کرنا ہے۔ کیا بتانا ہے کیا کیا چھپانا ہے، حقائق کے دودھ میں کتنا پانی ملانا ہے۔ یہ سب ریاست اور حکومت کے سوچنے کی باتیں ہیں۔ ریاست کچھ کرے نہ کرے سوچتی وافر ہے۔

کیا بوڑھا علی نواز جانتا ہے کہ اس کے گاؤں سمیت آس پاس کا ہر گاؤں ہیرو ہے؟ اسے ضرورت ہی نہیں جاننے کی۔ یہ وصف تو ہر دیہاتی کے خون میں ہے۔

علی نواز نے تو یہ بھی نہیں سوچا کہ ایسا اہم کام کرنے سے پہلے پنچائیت کا اجلاس بلانا مناسب رہے گا کہ نہیں، اپنے کھیسے میں ہاتھ مار کر پیسے گننے ہوں گے، اپنے وسائل کی چادر ناپنی ہو گی، افرادی قوت کا جائزہ لینا ہوگا۔

اسے کہاں معلوم ہوگا کہ فی زمانہ فی سبیل اللہ کام میں ہاتھ ڈالنا ہی کافی نہیں۔ اس کا باقاعدہ اخراجاتی واؤچر بنا کر سرکار کو پیش کیا جاتا ہے۔

ٹرین

ایسے بے لوث کام کے آغاز سے پہلے یا بعد میں فوٹو سیشن اور دو کالمی خبر کے لیے رال ٹپکانا اور لہک لہک کر انٹرویو کی آس میں کیمرے کا انتظار کرنا اور اپنی مدد کو میڈل کی طرح لہرانا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔

یہ ناخواندہ و نیم خواندہ آسودگانِ خاک بھلا یہ سب چترائیاں کیا جانیں اور سمجھیں۔ انھیں تو بس فطرت نےایک ہی کام سکھایا ہے۔ کوئی مصیبت میں ہو تو پہلے کچھ کر گذرو۔ سوچنے کے لیے زندگی پڑی ہے۔

یہ وہ وصف ہے جسے سمجھنا اور محسوس کرنا کسی بھی ریاستی بابو اور بابو گیر حکومت کی اوقات سے باہر ہے۔

( اس کالم کا بنیادی خیال اے ایف پی کی ایک فیچر سٹوری پڑھ کے آیا )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).