محمد سلیم الرحمٰن: کرکٹ سے محبت کے 76 برس اور وزڈن سے تعلق


ممتاز ادیب محمد سلیم الرحمٰن کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا ادب ہے۔ گزرے ساٹھ برسوں میں مختلف اصنافِ ادب کو باثروت بنایا۔ ادب سے ہٹ کر دیگر کئی علوم میں انھیں گہری دلچسپی ہے۔ انگریزی میں ایسے افراد کو Polymath اور اردو میں جامع العلوم کہا جاتا ہے۔ علم و ادب کی دنیا سے باہر بھی ان کی توجہ کا میدان خاصا وسیع ہے جس میں کرکٹ بھی شامل ہے۔ اس کھیل سے ان کے اُس دیرینہ اور پختہ تعلق کی بابت ہمیں بات کرنی ہے جس کا ایک نہایت اہم جزو’’ وزڈن ‘‘ ہے۔

 کرکٹ کے بارے میں بہترین کتاب Beyond a Boundary کے مصنف سی ایل آر جیمز کا مشہور قول ہے:

What do they know of cricket who only cricket know?

(جو صرف کرکٹ کے بارے میں ہی جانتے ہیں، وہ کرکٹ کے بارے کیا جانتے ہوں گے)

 جیمز کرکٹ کی باریکیاں اور نزاکتیں جاننے کے لیے اور بہت کچھ جاننے کا تقاضا کرتے ہیں۔ سابق برطانوی وزیر اعظم جان میجر کی کتاب کا نام ہی کرکٹ کے محض کھیل سے بڑھ کر کچھ ہونے کا غماز ہے۔

 More Than A Game: The Story of Cricket’s Early Years

کرکٹ کی صحیح معنوں میں جانکاری کے لیے سی ایل آر جیمز کی تعریف بنیاد بنائی جائے تو پاکستان میں سلیم صاحب سے زیادہ کم ہی کسی اور نے کرکٹ کو سمجھا ہوگا۔ یہاں یہ بھی بتا دیں کہ دس سال پہلے سلیم صاحب نے ہیBeyond a Boundary مجھے پڑھنے کے لیے دی، اس سے پہلے کے میں نیم دلی سے اسے واپس لوٹاتا انھوں نے کہا کہ میں اسے اپنے پاس ہی رکھ لوں۔ ایک بات یہ کہ چند سال پہلے مائیک مارکیوزی کی کتاب Anyone But England: Cricket and the National Malaise  پڑھ کر سلیم صاحب نے بتایا کہ یہ انھیں سی ایل آر جیمز کی کتاب کے برابر ہی پسند آئی۔

معروف ادیب اور نقاد آصف فرخی نے سلیم صاحب کے پروفائل میں کرکٹ سے ان کی لگاوٹ کا تذکرہ کچھ یوں کیا:

 ’’ ان کی زندگی میں پڑھنا اور لکھنا دو سب سے اہم چیزیں ہیں۔ وہ جن چیزوں کے بارے میں بہت گرم جوشی کا اظہار کرتے ہیں، ان میں فنی طور پر خوب گتھی ہوئی خیال آفرین تصنیفات، سائنس فکشن اور کرکٹ شامل ہیں۔ اگر آپ کہیں کہ فلاں بلے باز نے فلاں میچ میں 91 رنز بنائے تھے تو وہ یہ بتا کر آپ کی درستی کردیں گے کہ درحقیقت اس نے 95 رنز بنائے تھے۔ ‘‘

کرکٹ سے سلیم صاحب کی دلچسپی کا سوتا کب پھوٹا؟ یہ جاننے کا تجسس تو رہا، ساتھ میں یہ معلوم کرنے کی چیٹک بھی رہی کہ ان کے پاس ’’ وزڈن ‘‘ کے بہت سارے ایڈیشنوں کا جو ڈھیر لگا ہے تو ’ بائبل آف کرکٹ ‘سے متعارف ہونے کا قصہ کتنا پرانا ہے؟

یہ سوال ان کے سامنے رکھے تو معلوم ہوا:

 ’’ میں نے پہلا کرکٹ میچ 1944 میں دیکھا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ٹیم کا شاید دہلی کے کسی کلب سے مقابلہ تھا۔ کھیل بہت دلچسپ معلوم ہوا۔ کرکٹ سے لگاؤ اس وقت سے شروع ہوا۔ علی گڑھ کی ٹیم کے ایک بیٹسمین، جلال (پورا نام اب یاد نہیں) کے ہک اور پل بڑے کمال کے تھے۔ ‘‘

’’مجھے انگریزی اخباروں کے مطالعے کا بالکل شوق نہ تھا۔ کرکٹ سے دلچسپی بڑھی تو ان کی طرف متوجہ ہونا پڑا کیوں کہ کرکٹ کے بارے میں مفصل خبریں انھیں میں شائع ہوتی تھیں۔ ڈینس کومپٹن کا نام انھیں دنوں سنا۔ اس نے رانجی ٹرافی کے کسی میچ میں ڈبل سنچری بنائی تھی۔ 1945 میں، جنگ ختم ہونے کے بعد، آسٹریلین آرمڈ سروسز کی ٹیم نے ہندوستان کا دورہ کیا۔ اس خاصی مضبوط ٹیم کا کپتان ہیزٹ تھا۔ اس دورے میں لاہور کے تین کھلاڑیوں کا خاصا چرچا ہوا۔ سب سے زیادہ شہرت عبدالحفیظ کے حصے میں آئی۔ بعد میں وہ اے ایچ کاردار کے نام سے مشہور ہوئے۔ دوسرے دو کھلاڑی نذر محمد اور امتیاز احمد تھے۔ 1946 میں ہندوستان کی ٹیم نے انگلستان کا دورہ کیا۔ ٹیم میں عبدالحفیظ شامل تھے۔ میچوں سے باخبر رہنے کے لیے انگریزی اخباروں سے دلچسپی مزید بڑھ گئی۔ ‘‘

سلیم صاحب کو کرکٹ دیکھنے اور اس کے بارے میں پڑھنے کا شوق رہا لیکن بچپن کے ہمجولی صلاح الدین محمود میدانِ عمل میں بھی اترے۔ علی گڑھ کرکٹ ٹیم کے کپتان رہے۔ اس اعزاز کو معمولی مت جانیے۔ یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا۔ سر رضا علی نے ’ اعمال نامہ ‘ میں لکھا ہے کہ مولانا محمد علی جوہر کی علی گڑھ میں قدر ان کی ذاتی قابلیت کے بجائے کرکٹ ٹیم کے کپتان مولانا شوکت علی کا بھائی ہونے کی وجہ سے تھی۔

تقسیم کے بعد 1952 میں سلیم صاحب لاہور آگئے تو کچھ ہی عرصے بعد صلاح الدین محمود نے بھی اس شہر کا رخ کیا اور دوستی کے پرانے سلسلے بحال ہوئے۔ صلاح الدین محمود نے کم لکھا لیکن جتنا لکھا ستھرا لکھا۔ منفرد شاعر اور نثر نگار کی حیثیت سے پہچان بنائی۔ سلیم صاحب کی طرح ممتاز ادبی جریدے ’سویرا‘ کے مدیر رہے، ان کی ادارت میں جو چند پرچے شائع ہوئے وہ مشمولات اور حسنِ طباعت ہر دو اعتبار سے یادگار رہیں گے۔

 نذر محمد 1946میں علی گڑھ آئے تو سلیم صاحب فین کی حیثیت سے ان سے ملے تو وہ بڑی خوش اخلاقی سے پیش آئے۔ علی گڑھ میں لیفٹ آرم سپنر خالد قریشی کو بولنگ کرتے بھی دیکھا جن کے بارے میں سلیم صاحب کا خیال ہے کہ وہ قومی ٹیم کی نمائندگی کے حق دار تھے لیکن کپتان عبدالحفیظ کاردار کی گڈ بکس میں نہ ہونے کی وجہ سے انھیں چانس نہیں ملا۔

 سلیم صاحب کے ہاں کرکٹ دیکھنے اور اس کے بارے میں پڑھنے کو کیسے فروغ ملا، یہ آپ نے جان لیا۔ اب معلوم کرتے ہیں کہ 1864سے باقاعدگی سے ہر سال شائع ہونے والے ’’وزڈن‘‘ سے متعارف ہونے کی کیا کہانی ہے اورانھوں نے پہلی دفعہ اسے کس سن میں خریدا؟

 ’’ 1947میں مارچ میں معلوم ہوا کہ وزڈن نے 1946 کے سیزن کے جو پانچ کرکٹر چنے ہیں ان میں ونومنکڈ شامل ہیں۔ یہ بھی علم میں آیا کہ وزڈن کرکٹ کا ایک سال نامہ ہے اور ہر سال بہترین کارکردگی دکھانے والے پانچ کرکٹرز کو چنتا ہے۔ وزڈن حاصل کرنے کا اشتیاق بڑھ گیا۔ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اسے کیسے دیکھا یا کہاں سے خریدا جائے۔ آخر  1949 میں بمبئی کے ایک کتا ب فروش کا پتا چلا، جس سے وزڈن خریدا جا سکتا تھا۔ میں نے اسے لکھا کہ مجھے 1949 کا وزڈن وی پی کر دیا جائے۔ قیمت غالباً پانچ یا چھ روپے تھی۔ جو خوشی وزڈن ہاتھ آنے پر ہوئی اس کا کیا بیان کیا جائے۔ اس کتاب فروش نے مجھے ان کتابوں کی فہرست بھی بھجوائی جو اس کے سٹاک میں تھیں۔ فہرست دیکھ کر پتا چلا کہ 1948 کا وزڈن بھی دستیاب ہے۔ وہ بھی خرید لیا۔ ‘‘

 پندرہ برس کی عمر میں ہندوستان کے شہری کی حیثیت سے سلیم صاحب نے پہلی دفعہ ’’وزڈن ‘‘خریدا۔ اٹھارہ برس کی عمر میں خاندان کے ساتھ علی گڑھ سے پاکستان ہجرت کی، دو سال بعد یہ مرحلہ آیا کہ ان کا درجہ ’’وزڈن‘‘ کے قاری سے بلند ہو کر اس کے کنٹری بیوٹر کا ہوگیا۔ اس وقت ان کی عمر بیس برس تھی۔

 ’’وزڈن والوں سے رابطہ کیسے ہوا؟ ‘‘

’’پاکستان آنے کے بعد سوجھا کہ وزڈن سے رابط کیوں نہ کیا جائے۔ پاکستان میں جو فرسٹ کلاس میچز ہوتے ہیں، ان کا سکور فراہم کرنے کی تجویز پیش کروں۔ ٹیسٹ سٹیٹس حاصل ہونے کی وجہ سے پاکستان کی اہمیت بڑھ گئی تھی۔ میری تجویز کو وزڈن کے مدیر نے پسند کیا 1954سے1958 تک میں نے انھیں ریکارڈ فراہم کیے۔

“یہ سلسلہ منقطع کیوں ہوا؟”

” بعد ازاں پاکستان میں فرسٹ کلاس میچوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا۔ بعض میچوں کے سکور اخباروں میں صحیح طور پر درج نہ ہوتے تھے۔ اس لیے میں نے وزڈن کے مدیر سے معذرت کر لی۔ پاکستان میں ہونے والے میچوں کی تفصیل فراہم کرنے کی ذمے داری غلام مصطفیٰ صاحب نے قبول کی۔ وہ پاکستان کرکٹ بورڈ سے وابستہ تھے اور تمام میچوں کے سکور ان کی دسترس میں تھے۔ ‘‘

 1948 سے  1953 تک کے وزڈن میں نے خریدے۔ پھر پانچ سال تک مجھے وزڈن کی اعزازی کاپی ملتی رہی۔ وزڈن سے تعلق ختم ہوا تو دوبارہ خریدنے کی نوبت آئی۔ جہاں تک یاد آتا ہے، وزڈن فیروز سنز سے مل جاتا تھا۔ ‘‘

 کلیکشن میں وزڈن کے سب سے پرانے ایڈیشن کی بابت پوچھا تو اس کے بعض نایاب ایڈیشن ملنے کی کہانی بھی سامنے آئی۔ :

 ’’دوسری عالمی جنگ سے پہلے کے بعض وزڈن ہاتھ آنے کا واقعہ دلچسپ ہے۔ میرے ایک دوست تھے ذوالفقار احمد۔ اچھے شاعر تھے۔ فنِ طباعت کی بڑی سمجھ تھی۔ کلامِ پاک کا ایک نسخہ کمال کا چھاپا تھا۔ پرانی کتابوں کا کاروبار بھی کرتے تھے۔ ایک روز میں صفاں والا چوک میں واقع ’’قوسین‘‘ کے دفتر میں بیٹھا تھا کہ ذوالفقار آئے اور تین پرانے وزڈن میرے سامنے رکھ دیے۔ کرکٹ سے میرے لگاؤ کا انھیں علم تھا۔ یہ وزڈن کمیاب تھے۔ میں نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا کہ یہ کہاں سے ملے۔ ذوالفقار احمد نے بتایا کہ انارکلی کے کسی پرانی کتابیں بیچنے والے کے پاس سے اور ملے بھی صرف پانچ پانچ روپے میں۔ میں نے خیال ظاہر کیا کہ یہ کسی نجی کلیکشن کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔ ممکن ہے اور برسوں کے وزڈن بھی مل جائیں۔ ذوالفقار احمد نے اگلے دن جا کر پوچھ گچھ کی تو تین یا چار وزڈن اور مل گئے۔ سب سے پرانا 1909 کا تھا ‘‘

’’ دوسری عالمی جنگ سے پہلے کے وزڈن کیوں کمیاب تھے؟‘‘

” 1940 میں ایک دفعہ جب جرمن طیاروں نے لندن پر شدید بمباری کی تو وہ گودام تباہ ہو گیا تھا، جہاں پرانے وزڈنوں کا سٹاک موجود تھا۔ ‘‘

’’ انگلنیڈ کا دورہ کرنے والی پاکستان ٹیم کا مختصر تعارف بھی آپ نے لکھا تھا ؟”

 ’’ 1954ء میں پاکستان کو انگلستان کا دورہ کرنے کی دعوت ملی۔ ٹیم کا اعلان ہو گیا۔ اس کے فوراً بعد لندن سے کرکٹ رپورٹنگ ایجنسی کا خط موصول ہوا، جس میں لکھا تھا کہ ٹیم کے کھلاڑیوں کے بارے میں ہمیں بہت کم معلوم ہے۔ لہٰذا فوری طور پر ان کا مختصر احوال فراہم کیا جائے۔ دو تین سطروں کا تعارف انھیں درکار تھا۔ وہ میں نے بھجوا دیا۔ اس کا ڈھائی یا تین پاؤنڈ معاوضہ بھی ملا۔ “

 سلیم صاحب کے کلیکشن میں سب سے پرانا ایڈیشن 1909 اور سب سے نیا 2013 کا ہے جس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ڈیڑھ سواں ایڈیشن ہے۔ 2000ء کا وزڈن بھی ہم نے دیکھا جس میں کھلاڑیوں اور ماہرینِ کرکٹ سے سروے کی روشنی میں صدی کے پانچ منتخب کردہ کھلاڑیوں پر مضامین ہیں۔ :

٭ ڈان بریڈ مین

٭ جیک ہابس

٭ گیری سوبرز

٭شین وارن

٭ ویوین رچرڈز

 سلیم صاحب اردو اور انگریزی میں کرکٹ پر گاہے گاہے لکھتے بھی رہے ہیں۔ انگلینڈ سے شائع ہونے والے ’دی کرکٹ کوارٹرلی ‘ میں ان کا مضمون شائع ہوا۔ چند کالم ’’ پاکستان ٹائمز‘‘ میں چھپے۔ اردو میں ایک مزاحیہ مضمون “یہاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی” بھی ان کے قلم سے ہے۔ 1992 میں ’’ فرائیڈے ٹائمز‘‘ میں ورلڈ کپ کے میچوں پر تبصرے کیے۔

 انگریزی میں شاعروں ادیبوں کی کرکٹ کے بارے میں لکھت سے خوب آگاہ ہیں اور اردو میں اس کھیل پر نظم ونثر کا جو سرمایہ ہے وہ بھی نظر سے گزر چکا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی کا مضمون “کرکٹ” پسند ہے جو سب سے پہلے’’ سویرا‘‘ میں شائع ہوا تھا۔

 شفیق الرحمٰن کے افسانوں ” ننانوے ناٹ آؤٹ‘‘ اور “فاسٹ باؤلر” کی بھی تعریف کرتے ہیں۔ عظیم بیگ چغتائی کا افسانہ ’’ کرکٹ میچ ‘‘بھی اچھا لگا۔ مجید امجد کی فضل محمود کے بارے میں نظم”آٹو گراف” کا ذکر بھی کرتے ہیں لیکن سید ضمیر جعفری کی اس نظم کی بات ہو تو ان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے:

 ہال کے بال

(ویسٹ انڈیز کے تیز رفتار باؤلر وزلے ہال کا کھیل دیکھ کر)

شور اٹھا کہ ہال آتا ہے

کھیل کا انتقال آتا ہے

ہال پر جب جلال آتا ہے

بال سے پہلے حال آتا ہے

ہم کو تو کچھ نظر نہیں آتا

لوگ کہتے ہیں بال آتا ہے

الاماں اس کی برق رفتاری

بال ہے یا خیال آتا ہے

بال آتا ہے یا نہیں آتا

کچھ مگر لال لال آتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments