عرفان صدیقی صاحب کا کالم اور ایڈیٹر کی مجبوریاں



میں نے عرفان صدیقی صاحب کے زیر بحث کالم کو دو تین بار پڑھا۔ مجھے اس میں کوئی بات بھی ناقابل اشاعت نہیں لگی۔ جتنا میں اپنے پریس لاز کو جانتی ہوں مجھے اس کالم کا کوئی نقطہ یا جملہ پریس کے مروجہ قوانین یا ضا بطوںسے متصادم نظر نہیں آتا۔ اگر صحافتی اقدار کی بات کریں، تو بھی اس کالم میں کوئی شے قابل اعتراض نہیں۔ سو میری رائے میں یہ کالم کسی بھی پہلو سے ناقابل اشاعت نہیں ہے۔ اس کے برعکس مجھے تو یہ لگتا ہے کہ اسے نہ چھاپنے سے عوام کے جاننے کا حق مجروح ہوا ہے۔ اگر یہ کالم شائع کر بھی دیا جاتا تو کوئی خاص فرق نہ پڑتا کیوں کہ طاقت کے ایوانوں میں ہونے والی اس رسہ کشی سے سبھی واقف ہیں۔
لیکن ہماری تاریخ کا ” نازک موڑ” ایک ہی مقام پر رکا ہوا ہے۔ جیسے وقت ٹھہر گیا ہو۔ یہ سلسلہ جانے کب تک جاری رہے گا۔ جیسا کہ میں نے اپنی رائے بتا دی ہے کہ میرے خیال میں کوئی قابل گرفت لفظ بھی استعمال نہیں ہوا نہ ہی کوئی قومی راز فاش کیا گیا ہے۔ تاہم ممکن ہے کہ ایڈیٹر صاحب موجودہ حالات کے تناظر میں اپنے ادارے کو مشکلات سے بچانے کے لئے یہ کالم چھاپنے سے گریز کر رہے ہوں۔ ایڈیٹر کی کرسی پر بیٹھ کر فیصلہ کرنا کچھ اور ہوتا ہے اور گھر کے پر سکون ماحول میں بیٹھ کر اصولی رائے دینا کچھ اور۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments