پاکستان میں اقلیتوں پہ کیا گزری؟


بانی پاکستان محمد علی جناح نے ایک روشن خیال لیڈر کے طور پر اقلیتوں کے بارے میں کہا: ”اقلیتوں کا تحفظ کیا جائے گا۔ ان کا تعلق خواہ کسی فرقے سے ہو۔ ان کا مذہب یا دین یا عقیدہ محفوظ ہوگا۔ ان کی عبادت کی آزادی میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کی جائے گی۔ انہیں مذہب، عقیدے، اپنی جان اور اپنے تمدن کا تحفظ حاصل ہو گا۔ وہ بلا امتیاز ذات پات اور عقیدہ ہر اعتبار سے پاکستان کے شہری ہوں گے۔“

سوال یہ ہے کہ کیا بعد میں آنے والے حکمران قائد کے اس بیان سے وفا کر سکے؟

پاکستان کے وجود کے کٹر مخالف اور پھر اچانک حامی ٹھہرنے والے علماء نے قائد اعظم کے اوپر بیان کیے گئے نظریہ پر چند سال بعد ہی پانی پھیر دیا۔ ”قائد اعظم کا پاکستان“ نامی دعویٰ کرنے والوں کے خیالات ملاحظہ فرمائیے :

پنجاب میں 1953 میں ہونے والے فسادات کی تحقیقاتی رپورٹ میں لکھا ہے کہ جب علماء سے غیر مسلموں کے بارے میں موقف لیا گیا تو مولانا ابوالحسنات نے کہا کہ: ”غیر مسلم کا موقف ذمیوں کا سا ہوگا۔ ان کی وضع قوانین میں کوئی آواز نہ ہوگی۔ قانون کے نفاذ میں ان کا کوئی حصہ نہ ہوگا اور سرکاری عہدوں پر فائز ہونے کا کوئی حق نہ ہوگا۔“ جماعت اسلامی کے طفیل محمد کو ایک مضمون (جس میں بیان کیا گیا تھا کہ اقلیتوں کے حقوق مسلمانوں کے برابر ہوں گے ) کا حوالہ دے کر یہی سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا: ”اگر پاکستان میں جماعت کے نظریے پر مبنی مملکت قائم کی جائے تو میں پاکستان میں عیسائیوں یا دوسرے غیر مسلموں کے ان حقوق کو تسلیم نہیں کروں گا۔“

”قائداعظم کا پاکستان“ اور ”نظریہ پاکستان“ کا راگ الاپنے والوں نے قائداعظم کی وفات کے چند سال بعد ہی ان کے نظریات سے راہیں جدا کر لیں۔

پاکستانی اقلیت کے بڑے مسائل میں سے ایک مسئلہ ”جبری تبدیلی مذہب“ کا ہے۔ یہ مسئلہ ہرگز نیا نہیں ہے۔ جدوجہد پبلیکیشنز نے ”اسلامی بنیاد پرستی کا ابھار“ نامی کتاب شائع کر رکھی ہے۔ اس کتاب میں ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایک گاؤں کا کئی سال پرانا واقعہ شامل ہے۔ جہاں ایک 19 سالہ طالبعلم کسی عزیز کی شادی کے سلسلہ میں آیا۔ گاؤں کے مولوی غلام رسول کو معلوم پڑا کہ وہ طالب علم غیر مسلم ہے تو اسے اغوا کروا کے قریبی مدرسہ میں رکھا گیا۔

اسے زبردستی مسلمان کرنے کی کوشش کی گئی۔ جب وہ اس بات پر آمادہ نہ ہوا تو اس پر وحشیانہ تشدد کیا گیا اور پانچ روز یہی کرنے کے بعد اس پر موٹر چوری کا الزام لگا کر ٹوبہ ٹیک سنگھ میں چھوڑ دیا گیا۔ طالبعلم کو فوری طور پر ہسپتال شفٹ کیا گیا، جہاں وہ جہان فانی سے کوچ کر گیا۔ اس واقعہ میں جب تک طالب علم کی موت نہ ہوئی تب تک مرکزی ملزم مولوی غلام رسول کے خلاف کوئی مقدمہ تک درج نہ کیا گیا۔ ایک اور رویہ جو اخبارات کی طرف سے دیکھنے کو ملتا ہے وہ بھی برقرار رہا۔

ملک کے صرف انگریزی اخبارات نے یہ خبر پرنٹ کی مگر اردو اخبارات نے اس کی ”حساس“ نوعیت کی وجہ سے پرنٹ کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ سلسلہ آج بھی پہلے سے کہیں زیادہ تیزی سے جاری ہے۔ سندھ اور پنجاب کے کچھ علاقوں سے آئے روز ”جبری تبدیلی مذہب“ کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ اس میں پندرہ سے بیس سال کی لڑکیاں اب ہدف بن چکی ہیں۔ جنہیں اغوا کرنے کے بعد ڈرا دھمکا کے ”زبردستی کا مسلمان“ بنا کر کسی مسلمان سے نکاح کروا دیا جاتا ہے۔ اس ظلم پے بھی کوئی انگلی اٹھے تو لڑکی کا کردار گندا (لڑکے کو پسند کرتی تھی اس لیے خود گھر سے بھاگی) کر کے پیش کر دیا جاتا ہے اور لڑکی کے والدین اس سے ملنے سے بھی قاصر رہتے ہیں۔ پاکستان کے مین سٹریم میڈیا نے اس حساس معاملے پر آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔

ڈیموکریٹک کمیشن فار ہیومن ڈویلپمنٹ نے چند تحریروں اور دستاویزات پر مشتمل کتابچہ بنام ”رواداری“ شائع کر رکھا ہے، جس میں سبط حسن، آئی۔ اے۔ رحمان، خالد احمد، وجاہت مسعود، ارشد محمود، افراسیاب خٹک، مولانا وحید الدین خان اور جسٹس (ر) دراب پٹیل جیسے لوگوں کی تحریریں شامل ہیں۔

خالد احمد صاحب نے اس کتاب میں ”سندھ اور بلوچستان میں ہندوؤں کی حالت زار“ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا ہے۔ وہ 2001 کی ”فرائیڈے ٹائمز“ کی ایک رپورٹ کا حوالہ دے کر لکھتے ہیں کہ: ”بلوچستان میں ہندوؤں کی دس ہزار میں سے آدھی آبادی کو ایک سال کے اندر اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ ایک عرصہ سے پرامن طریقے سے رہنے والے مسلمانوں اور ہندوؤں کے تعلقات میں کشیدگی کی وجہ“ جنگجو مذہبی گروہ ”ہیں۔ مذہبی جماعتوں کے کارکن ہندوؤں کے گھر، مندر جلانے اور ان پر حملہ کرنے کی کارروائیوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

سندھ میں بھی اقلیتوں کے ساتھ سلوک اس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ خالد احمد صاحب کے مضمون سے سندھ کا ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیں : حیدرآباد میں انکم ٹیکس کا ایک ہندو افسر اشوک کمار آرمی مانیٹرنگ ٹیم کے ساتھ صدر کے دکانداروں سے ٹیکس لینے گیا۔ حکام سے شکایت کرنے کی بجائے ایک دکاندار نے الزام لگایا کہ ہندو افسر نے دھمکی دی ہے کہ اس نے فارم نہ دیا تو وہ اسے داڑھی سے پکڑ کر کھینچ لے گا۔ اس کے بعد دکاندار نے اپنے ساتھیوں کا مجمع اکٹھا کر کے ایک جلوس کی شکل اختیار کر لی۔ اس واقعہ پر شہر میں دو روز تک ہڑتال رہی اور اشوک کمار کو نہ صرف عہدے سے معطل کر دیا گیا بلکہ اس کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ درج کر کے اسے جیل بھیج دیا گیا۔

پاکستان میں اقلیتوں کو قانونی لحاظ سے بھی کافی نقصان پہنچایا گیا، جیسا کہ 1984 میں نیا اسلامی قانون شہادت نافذ کیا گیا جس کی دفعہ 17 کے مطابق غیر مسلم کی عدالت میں گواہی آدھی کردی گئی۔ حدود آرڈیننس کے تحت بھی کوئی مسلمان تو غیر مسلم کے خلاف گواہی دے سکتا ہے مگر کوئی غیر مسلم کسی مسلمان کے خلاف گواہی دینے کا حق نہیں رکھتا۔

1986 میں پارلیمنٹ نے دفعہ 295۔ C کو پاکستان کے ضابطہ فوجداری کا حصہ بنایا۔ اس قانون میں سزائے موت، عمر قید یا جرمانے کی سزا رکھی گئی۔ 1991 میں اس قانون میں ترمیم کی گئی اور عمر قید کو ختم کر کے صرف سزائے موت کی سزا مقرر کردی گئی۔

قانونی امور میں مہارت رکھنے والے جسٹس دراب پٹیل نے اپنے ایک مضمون بنام ”توہین مذہب کا قانون اور بنیادی حقوق“ میں توہین مذہب کے قانون پر گہری بحث کی ہے۔ جسٹس صاحب لکھتے ہیں کہ دفعہ 14 کے مطابق کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دوسروں کی خلوت میں مخل ہو بشرطیکہ قانون اس کی اجازت دے۔ جبکہ دفعہ 295۔ B کا متن یہ ہے کہ: ”کوئی بھی شخص جو دیدہ دانستہ طور پر قرآن مجید کے تقدس کو پامال کرتا ہے یا اسے نقصان پہنچاتا ہے یا اس کی بے حرمتی کا مرتکب ہوتا ہے یا قرآن پاک کے کسی حصے یا جزو کی توہین کرتا ہے یا اسے کسی توہین آمیز انداز میں استعمال کرتا ہے یا کسی غیر قانونی مقصد کے لئے استعمال میں لاتا ہے تو اسے عمر قید کی سزا دی جائے گی۔

“ اسی دفعہ کے تحت اس شخص کو بھی سزا دی جا سکتی ہے جو اپنے گھر کی چار دیواری کے اندر قرآن پاک کی بے حرمتی کا مرتکب ہوتا ہے۔ چنانچہ دفعہ کا یہ حصہ آئین کے آرٹیکل نمبر 14 کے تحت دیے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کا موجب بنتا ہے جس کے مطابق ”کسی شخص کو اس امر کا حق حاصل نہیں کہ وہ دوسروں کی خلوت میں مخل ہو۔“ اس قانون کا کس قدر غلط استعمال کیا جاتا ہے اس کا اندازہ کتاب میں درج صرف ایک واقعہ سے لگائیں : پنجاب میں 1994 میں جماعت اسلامی کے ایک رہنما کے بیٹے ڈاکٹر حافظ فاروق سجاد کو قتل کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر فاروق سجاد کے اپنے ہمسایوں کے ساتھ کچھ اختلافات تھے اور اخباری اطلاعات کے مطابق یہ ہمسائے اس کے گھر کے اندر گھس گئے، لاٹھیوں سے حملہ کیا اور شور مچا دیا کہ اس نے اپنے گھر میں قرآن مجید سے کچھ صفحات پھاڑ دیے ہیں۔ دوسرے لوگوں نے بھی اس بات پر یقین کر لیا اور ایک نہایت ہی بھیانک اور خوفناک طریقے سے ڈاکٹر فاروق کو قتل کرنے میں مددگار ثابت ہوئے۔ یہ واقعہ تو ایک مسلمان گھرانے کے ساتھ پیش آیا، اب اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایسے ”اسلام پسند“ اقلیتوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہوں گے۔

دوسری طرف اگر کوئی اسلام کے علاوہ دوسرے مذاہب کی کتب کی بے حرمتی کرے تو اس جرم کے لیے زیادہ سے زیادہ سزا دو سال قید یا جرمانہ ہے اور یہ جرم بھی صرف اسی صورت میں سرزد ہوتا ہے جب متعلقہ مذہب کی مقدس کتاب کی بے حرمتی اس مذہب اور مذہب کے پیروکاروں کے جذبات بھڑکانے کے لیے کی گئی ہو۔ چنانچہ قانون کی رو سے اگر کوئی مسلمان کسی دوسرے مذہب کی مقدس کتاب میں سے اپنے گھر کی چار دیواری کے اندر کوئی صفحہ پھاڑ دیتا ہے تو وہ کسی جرم کا مرتکب نہیں ہوتا ہے۔ مگر کوئی غیر مسلم اسلام کی مقدس کتاب کے ساتھ یہی عمل کرے تو وہ سزا کا مرتکب ہوتا ہے۔

جسٹس دراب پٹیل کی قانونی بحث سے ہٹ کر جب بھی کوئی توہین مذہب کا واقعہ پیش آتا ہے تو قانون پر عمل درآمد کے لیے مکمل کیس چلتا ہے، گواہ پیش کیے جاتے ہیں، وکیلوں کی طرف سے بحث و مباحث کے بعد فیصلہ دیا جاتا ہے۔ یہ ایک قانونی راستہ ہے، مگر یہ سب ہونے سے قبل ہی عوام نے فیصلہ کر لیا ہوتا ہے کہ اسے ”سزائے موت“ دی جائے۔ اگر عوام کی امنگوں کے مطابق فیصلہ نہ آئے تو یہی قانون لوگوں کی جان لینے کا موجب بھی ٹھہرتا ہے۔

جیسا کہ 1995 میں سلامت مسیح پر توہین مذہب کا کیس چل رہا تھا۔ پہلے اس کے وکیل صفائی پر حملہ ہوا اور بعد ازاں اس کیس کا فیصلہ سنانے والے جج جسٹس عارف اقبال بھٹی کو قتل کر دیا گیا۔ اسی طرح 2014 میں مسیحی خاتون شمع اور ان کے شوہر کو توہین کے الزام میں ایک بھیڑ نے ہلاک کر دیا۔ ایسے ہی سندھ کے ضلع گھوٹکی میں ایک نویں جماعت کے طالبعلم نے اپنے ہندو استاد نوتن مل پر توہین مذہب کا الزام لگایا تو لوگوں نے مل کر نوتن مل کے سکول کی عمارت توڑ دی اور اس کے بعد اس کی ذاتی رہائش گاہ پر حملہ کر دیا۔ اس طرح کے کئی دوسرے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جہاں الزام کے بعد ثبوت نہیں مل پاتے اور صحیح غلط کا فیصلہ ہوئے بغیر ”اقلیتی ملزم“ کی جان لے لی جاتی ہے۔ جس کی تازہ مثال پشاور کی ہے جہاں اسی الزام کے تحت کورٹ میں پیشی کے دوران ایک احمدی کو خالد نامی نوجوان نے قتل کر دیا۔

اس قانون سے اقلیتوں کو ایک اور نقصان یہ پہنچا ہے کہ غیر مسلموں کو ان کی جائیدادوں سے بے دخل کرنے کے لئے توہین مذہب کا قانون ایک ہتھیار بن گیا ہے۔ کسی پر بھی الزام عائد کر کے اسے جیل بھجوانے کے بعد اس کی جائیداد پر قبضہ کر لیا جاتا ہے۔ کئی سال قبل ساہیوال میں ایوب مسیح پر ایک شخص نے توہین مذہب کا مقدمہ درج کروایا بعد میں اسی شخص نے ایوب کے گھر پر قبضہ جما لیا۔ ایسی وجوہات کی بنا پر اگر اقلیتی ملزم عدالت سے بے گناہ ثابت ہو کر بری ہو بھی جائیں تو وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

حال ہی میں اقلیتوں کے حوالے سے ایک اور درد ناک واقعہ پیش آیا ہے۔ 2014 میں ایک مسیحی جوڑے کو توہین مذہب کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی۔ اب سات سال جیل میں گزارنے کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے انہیں بے قصور قرار دیتے ہوئے بری کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ عدالت نے یہ فیصلہ ”ناقص“ ثبوتوں کی بنیاد پر دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ بے قصور تھے تو صرف ایک الزام کے تحت ان کی زندگی کے 7 سال ضائع کیوں کیے گئے؟ یہ الزام جھوٹا ثابت ہونے کے بعد ، پہلے سزا سنانے والی عدالت یا الزام عائد کرنے والوں میں سے کوئی اپنے عمل پر معافی مانگے گا؟ اقلیتوں کے بارے میں ہمارے دعوؤں اور عملی صورتحال میں کیا یہ ”کھلا تضاد“ نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments