ایک اور کافر گم ہوا


\"\"

کامریڈ واحد بلوچ کہ بعد یہ دوسرا واقعہ ہے جس میں مغوی ہونے والا کتابوں کا عاشق، منہ پھٹ، سچ جیسی غلاظت پر یقین کرنے والا، کافر و غدار سمیت ناجانے کیا کیا تھا۔ سلمان حیدر نے تو غائب ہونا ہی تھا کیونکہ جس معاشرے کا وہ حصہ ہے وہاں جھوٹ و فریب لوگوں کا مذہب، اندھی حب الوطنی لوگوں کا پیشہ، عدم برداشت ثقافتی قدر اور حقیقت لوگوں کے لئے شیطانی ہتھکنڈا ہے۔ میرے علم میں آج تک نہیں آیا کہ کسی ایسی تنظیم کا کوئی رکن گرفتار ہوا ہو جو فرقہ واریت پھیلاتے ہیں، کسی ایسی سیاسی گروہ کا کارندہ اغواء نہیں ہوا جو روز صبح سے شام تک مزدوروں کا، ورکروں کا اور اس کے مفتوحہ حلقہ کے عوام کا پیسہ، محنت، غیرت سب کھا رہے ہوں۔ کبھی میں نظر سے نہیں گذرا کہ اربوں روپے کی کرپشن کرنے والے کلف زدہ راہنماؤں کو غائب کیا گیا ہو۔ یہاں جھوٹ کے سودا گروں کو پولیس پروٹوکول میں گھومتے میں نے دیکھا ہے۔ ہر روز ہو رہے جبر و استحصال میں پستے عوام کو جابر کے آگے مالا چڑھائے پوجتے دیکھا ہے۔ قاتلوں کا مزار بنتے، نفرت پھیلانے والوں کو وکٹری کا نشان بنائے جیل سے رہا ہوتے دیکھا ہے۔ امریکی و ہندوستانی ایجنٹوں کو ملک سے پر سکون طریقے سے واپس جاتے بھی دیکھا ہے۔ پروفیسروں کو کراچی، کوئٹہ کی سڑکوں پر شہید ہوتے اور نسلوں کے بجتے چراغ دیکھے ہیں۔ لیکن سچ بولنے والوں کو عزت دیتے کبھی نہیں دیکھا۔ ان کو یہ تو کفر کی صفائیاں دیتے، حب الوطنی کے ثبوت دکھاتے یا اپنی حماقت پر نالاں ہوتے دیکھا ہے۔ یہ کیسی آزادی ہے؟ کیسی خود مختاری ہے؟ یہاں سانس لو تب خطرہ، بولو تب مسئلہ، سوال اٹھاؤ تو مذہب آڑے، بات کرو تو ثقافتی قدروں کو خطرہ۔ یہی سلمان حیدر نے کہا تھا شاید کہ ” سنی کہے شیعہ کو کافر، اور شیعہ کہے سنی کو کافر، ایک کافر ہی ہے جو سب کو مسلمان سمجھتا ہے ”۔ ایسی باتیں کرنے والا اس ملک میں بس سکتا ہے؟ یہ پروفیسر عبدالسلام، غامدی جیسوں کو بسنے نہیں دیتا تو سلمان حیدر کیا ہیں؟

\"\"

رات گئے کی گئی اس اغواء کاری کا کچھ معلوم ہو نہ ہو مگر یہ سب جانتے ہیں کہ کس پاداش میں اغواء ہوئے ہیں۔ ان کی نظمیں، بلاگز اور چبھتے ہوئے جملے ان کو 2017 کے مطلق العنان کلیسا کے آگے مجرم ٹھہرانے کے لئے کافی ہیں۔ کس نے اٹھایا؟ کیوں اٹھایا؟ یہ سوالات اپنی جگہ مگر ان کو بازیاب کروانا کن کا کام ہے؟ ان کو ایک پیغام کوئی پہنچا دے کہ دوسرے لا پتہ افراد تو خیر کیڑے مکوڑے ہیں مگر اس دانشور کو تو اس کی دانش کی سزا نہ دو۔ کیا کرے یہ بندہ انسانی حقوق کا تحفظ کرنا مانا ایک جرمِ عظیم ہے۔ لا وارثوں کی آواز بننا ایک شیوہ فرسودہ ہے لیکن اس کا ضمیر اسے رلوا دیتا ہے زمانے میں۔ یہ کافر و غدار ہے مگر یہ کفر و بے باکی اس کی فطرت کا حصہ ہے کیا کرے یہ؟ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں ایسے لوگوں کے ساتھ نہ جانے کیا سلوک کیا جاتا ہو پر ”میں بھی کافر، تو بھی کافر ” جیسی نظم کے خالق کا انجام خدائی فوجداروں کے ہاں بڑا برا ہوتا ہے۔ کیوں نا ہو؟ یہ سلمان حیدر نامی شخص اکیلے ہی کلیسا کو ڈھانے نکلا تھا نادان کیا جانے کہ کیا کیا خطرہ میں پڑ جاتا ہے۔ یہاں سائنس و ادب، فلسفہ و تاریخ سب کافر ہیں۔ تمام کا تمام نظام جس سے کھا تو رہے ہیں سب مگر پھر بھی شرعی نہیں ہے پھر بھی جمہوری و خودمختار نہیں ہے اسی لئے اس کو پٹڑی پر لانے کے لئے آپ جیسوں کو ٹھکانے لگانا لازمی ہے۔ سلمان حیدر صاحب آپ نا سمجھ ہیں ہاتھ میں سپیکر پکڑ کر آپ جو صدائیں لگا رہے تھے وہ ان ایوانوں میں گونجتی تھی جس کی وجہ سے آپ آج ہم میں نہیں یا شاید آپ نے کفر کا اقرار کر لیا تھا۔ کیونکہ انہی دو صورتوں میں یہ دھرتی حرام ہوتی ہے۔ اور ویسے بھی بقول آپ کے

مسلم ملک میں اکثر کافر
کافر کافر میں بھی کافر
کافر کافر تو بھی کافر

اب اس کے بعد تو تمام حدیں پار گئے سمجھو۔ سچ یہاں وہی بولتا ہے جس کا سرحد پار کوئی ٹھکانہ ہو۔ آپ کا نہیں ہوگا یقیناً۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments