چی گویرا: امریکہ کو ناکوں چنے چبوانے والے گوریلا جنگجو


چی گویرا

’موت آنے تک جاری رہنے والی جدوجہد کی کوئی حد نہیں ہے۔ دنیا کے کسی بھی گوشے میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے ہم اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ سامراج کے خلاف کسی ایک ملک کی فتح ہماری فتح اور کسی ایک ملک کی شکست ہماری شکست ہے۔’

یہ بات چی گویرا نے موت سے دو برس قبل الجزائر میں ایفرو ایشین سالیڈیرٹی سمینار میں اپنا آخری بین الاقوامی خطاب کرتے ہوئے کہی تھی۔

چی گویرا ارجنٹینا میں پیدا ہوئے اور وہ کیوبا کے انقلابی رہنما تھے جو بائیں بازو کے حامیوں کے ہیرو بن گئے۔ البرٹو کوردا کی جانب سے لی گئی ان کی ایک تصویر 20 ویں صدی کی ایک معروف علامت بنی۔

چی گویرا

چی گویرا ارجنٹینا میں پیدا ہوئے اور وہ کیوبا کے انقلابی رہنما تھے جو بائیں بازو کے حامیوں کے ہیرو بن گئے

ارنسٹو گویرا ڈی لا سرنا جو چی گویرا کے نام سے مقبول ہوئے، 14 جون سنہ 1928 کو ارجنٹینا کے علاقے روساریو کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے بیونس آئیرز یونیوسٹی سے طب کی تعلیم حاصل کی۔ اس عرصے میں انھیں جنوبی اور وسطی امریکہ میں بہت زیادہ سفر کرنے کا موقع ملا۔

چی گویرا

انھوں نے بڑے پیمانے پر پھیلی غربت اور ظلم و جبر کا مشاہدہ کیا اور مارکسزم میں دلچسپی نے انھیں اس بات پر قائل کیا کہ جنوبی اور وسطی امریکہ کے مسائل کا واحد حل مسلح انقلاب ہے

انھوں نے بڑے پیمانے پر پھیلی غربت اور ظلم و جبر کا مشاہدہ کیا اور مارکسزم میں دلچسپی نے انھیں اس بات پر قائل کیا کہ جنوبی اور وسطی امریکہ کے مسائل کا واحد حل مسلح انقلاب ہے۔

وسعت اللہ خان سنہ 2007 میں بی بی سی اردو کے لیے لکھی اپنی تحریر میں چی گویرا کو کچھ اس طرح یاد کرتے ہیں: ‘چی گویرا نے اپنی مختصر سی زندگی میں کیا نہیں کیا تھا۔ رگبی اور شطرنج کا کھلاڑی، دمے کا مریض، ڈاکٹر، فوٹوگرافر، موٹر بائیک رائیڈر، شاعر، گوریلا کمانڈر، باپ، شوہر، ڈائری نویس، ادیب اور انقلابی۔۔۔‘

چی گویرا

سنہ 1954 میں وہ میکسیکو گئے اور آنے والے برس میں وہ کیوبا کے انقلابی رہنما فیدل کاسترو سے ملے

‘وہ آدمی کے بھیس میں چلتی پھرتی تکلیف تھا۔ ایسا عبداللہ جو کسی بھی شادی کو دیوانہ ہونے کے لیے بیگانا نہیں سمجھتا تھا۔ اس کے لیے پورا لاطینی امریکہ اور پھر پوری دنیا ایک ہی ملک تھا۔‘

سنہ 1954 میں وہ میکسیکو گئے اور آنے والے برس میں وہ کیوبا کے انقلابی رہنما فیدل کاسترو سے ملے۔

چی گویرا

‘وہ آدمی کے بھیس میں چلتی پھرتی تکلیف تھا۔ایسا عبداللہ جو کسی بھی شادی کو دیوانہ ہونے کے لیے بیگانا نہیں سمجھتا تھا۔ اس کے لیے پورا لاطینی امریکہ اور پھر پوری دنیا ایک ہی ملک تھا ۔’ وسعت اللہ خان کا کالم

چی گویرا نے ’26 جولائی کی تحریک’ میں کاسترو کے ساتھ شمولیت اختیار کی اور کیوبا کے ڈکٹیٹر بتیستا کے خلاف گوریلا جنگ میں اہم کردار ادا کیا۔

کاسترو نے سنہ 1959 میں بتیستا کا اقتدار ختم کیا اور کیوبا میں اقتدار سنبھال لیا۔ سنہ 1959 سے 1961 کے دوران چی گویرا کیوبا کے نیشنل بینک کے صدر تھے اور پھر وزیر برائے صنعت رہے۔ اس عہدے پر انھوں نے کیوبا کے سفارتکار کی حیثیت سے دنیا بھر میں سفر کیا۔

چی گویرا

ملک کے اندر انھوں نے ایسے منصوبے بنائے جن کے ذریعے زمینوں کی دوبارہ سے تقسیم کی جاتی اور انھوں نے صنعتوں کے کے لیے منصوبہ بندی کی

ملک کے اندر انھوں نے ایسے منصوبے بنائے جن کے ذریعے زمینوں کی دوبارہ سے تقسیم کی جاتی اور انھوں نے صنعتوں کے کے لیے منصوبہ بندی کی۔

یہ بھی پڑھیے

امریکہ، کیوبا تعلقات: چی گویرا ہوتے تو کیا کہتے؟

چی گویرا کی ڈائری، بدھا کی کتھائیں

چی گویرا کا گھر اب ‘کائٹ سرفنگ’ کی جنت

امریکہ کے سخت ناقد کی حیثیت سے انھوں نے کاسترو کی حکومت کو سوویت یونین سے اتحاد میں معاونت فراہم کی۔ امریکہ کی جانب سے تجارتی پابندیوں اور ناکام اصلاحات کے بعد کیوبا کی معیشت بدحال ہوئی۔

چی گویرا

چی گویرا نے کئی ماہ براعظم افریقہ، خاص طور پر کانگو میں گزارے۔ انھوں نے گوریلا جنگ کے لیے باغی فوج کو تربیت دینے کی کوشش کی

اس مشکل وقت کے دوران چی گویرا نے کیوبا کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ لڑنا شروع کر دیا۔ بعدازاں انھوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے دیگر حصوں میں انقلاب پھیلانا چاہتے ہیں اور پھر سنہ 1965 میں کاسترو نے اعلان کیا کہ چی گویرا نے کیوبا چھوڑ دیا ہے۔

کتاب چی گویرا کی ڈائری میں ان کی جانب سے کاسترو کو لکھے گئے دو خطوط بھی ہیں جن میں سے ایک وہ لکھتے ہیں کہ: ’مجھے لگتا ہے کہ میں نے اپنے فرض کا وہ حصہ ادا کر دیا ہے جس نے مجھے کیوبا کی سرزمین اور انقلاب سے منسلک رکھا۔‘

’سو میں تم سے، ساتھیوں سے اور تمھارے عوام سے جو کبھی کے میرے ہو چکے ہیں، رخصت ہوتا ہوں۔ کوئی قانونی بندھن مجھے اب کیوبا کے ساتھ نہیں باندھے ہے، جو بندھن ہیں وہ ایک اور نوعیت کے ہیں ایسے بندھن جنھیں اپنی مرضی سے توڑا نہیں جا سکتا۔‘

چی گویرا

‘موت آنے تک جاری رہنے والی جدوجہد کی کوئی حد نہیں ہے۔ دنیا کے کسی بھی گوشے میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے ہم اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ سامراج کے خلاف کسی ایک ملک کی فتح ہماری فتح اور کسی ایک ملک کی شکست ہماری شکست ہے’

جاتے جاتے اپنے بچوں کے نام خط میں چی نے لکھا کہ: ’تمھارا باپ ایک ایسا آدمی تھا جس نے جو سوچا اُس پر عمل کیا۔ یقین رکھو وہ اپنے نظریات سے مکمل طور پر وفادار رہا۔ یاد رکھو اگر کوئی چیز اہم ہے تو انقلاب، اس کے مقابلے میں ہماری ذات، ہمارا وجود کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔‘

چی گویرا نے کئی ماہ براعظم افریقہ، خاص طور پر کانگو میں گزارے۔ انھوں نے گوریلا جنگ کے لیے باغی فوج کو تربیت دینے کی کوشش کی۔ لیکن ان کی کوششیں رائیگاں گئیں اور سنہ 1966 میں وہ خفیہ طور پر کیوبا لوٹ گئے۔

کیوبا سے انھوں نے بولیویا جانے کی ٹھانی تا کہ وہ رینی بارنتوس اورتونو کی حکومت کے خلاف باغی فوجوں کی قیادت کر سکیں۔ امریکی مدد سے بولیویئن فوج نے انھیں اور ان کے باقی ماندہ جنگجوؤں کو گرفتار کیا۔

چی

البرٹو کوردا کی جانب سے لی گئی ان کی ایک تصویر 20 ویں صدی کی ایک معروف شبیہہ بنی

نو اکتوبر سنہ 1967 کو بویلیا کے گاؤں لاہیگورا میں چی گویرا کو خفیہ طور پر سپرد خاک کیا گیا۔ سنہ 1997 میں ان کی باقیات کا پتا چلا جنھیں نکال کر کیوبا کو لوٹایا گیا۔

کتاب چی گویرا کی ڈائری میں ایک مضمون فیدل کاسترو کا بھی ہے جس میں وہ لکھتے ہیں: ’یہ ثابت ہو چکا ہے کہ چی لڑتے ہوئے مارا گیا۔ اس کی ایم ٹو رائفل کی نالی ایک گولے سے بالکل بے کار ہو گئی تھی۔ اس کے پستول میں گولیاں نہیں تھیں۔ اس بے بسی میں اسے زندہ گرفتار کر لیا گیا۔

’اس کے ٹانگوں میں اتنے زخم تھے کہ وہ چل بھی نہیں سکتا تھا۔ اسی حالت میں اسے ہگوراز لے جایا گیا۔ فوجی افسروں نے اُسے قتل کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک سکول میں اس فیصلے پر عمل درآمد کی تفصیلات سب کو معلوم ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp