ہجرت اور جدوجہد کی داستان: الوداع ڈاکٹر سلمان‎


میرے گھر کے پچھلے صحن میں پھیلی سبز گھاس، کیاریوں میں کھلے رنگ برنگ پھول، کانٹوں اور بھورے پتوں سے ڈھکی جھاڑیاں سب خاموش کسی گہری سوچ میں گم ہیں۔ انہیں تین اطراف سے گھیرے لکڑیوں کی باڑ اور اس پر بیٹھنے والے نیلے پیلے پرندے سب ہی اداس ہیں۔ شاید انہی پرندوں نے میرے گھر کی کیاریوں کو قریبی شہر لندن کی وہ المناک کہانی سنائی ہے جہاں کسی نے رنگ اور مذہب کی بنیاد پر ایک ہنستا بستا خاندان مٹا ڈالا۔

سرخ اور کاسنی پھول ایک دوسرے سے سرگوشیوں میں پوچھتے پھرتے ہیں کہ اگر ہم مختلف رنگ اور نسل کے ہو کر بھی ایک دوسرے کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہے ہیں تو کیا بنی نوع انسان پر یہ منطق لاگو نہیں ہوتی؟ لکڑی کی باڑ نے خاموشی سے ان پھولوں پر اپنا سایہ پھیلا دیا ہے جیسے کہتی ہو ہم سب ایک دوسرے کا سہارا ہیں۔

دونوں پرندے نیچے گھاس سے اپنا دانہ چگتے سوچ رہے ہیں کہ اس زمین پر تو خدا نے سب کا رزق پھیلا دیا ہے تو پھر یہ انسان اسے لہو رنگ کیوں کرتے ہیں؟

خدا کی پناہ، ایک خاندان کے چار افراد اور تین نسلیں نفرت کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ پندرہ سال سے کینیڈا میں بسا خاندان، ایک لمحے میں ختم۔ 46 سالہ سلمان، جو فزیو تھراپسٹ تھے، ان کی بیوی جو ویسٹرن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی مکمل کر رہی تھیں، 15 سالہ بیٹی، اور ان سب سے ملنے آئی ڈاکٹر سلمان کی 74 سالہ ماں، انہیں گاڑی تلے روند کر شہید کر دیا گیا۔ سارے خاندان میں سے صرف 9 سالہ بیٹے، فیاض کی زندگی بچ پائی، جس کی باقی زندگی اب ایک امتحان بن چکی ہے۔ اور اس سب کی وجہ تھی اسلاموفوبیا۔ کیوں کہ یہاں ایک سفید فام درندہ یہ برداشت نہیں کر پایا کہ یہ پاکستانی مسلم خاندان اس ملک میں کیوں کر آباد ہو گیا۔ کینیڈا جیسا ملک جہاں کی تہذیب اور تمدن ہی مختلف رنگوں اور نسلوں کے ملاپ سے سجی ہوئی ہو، وہاں ایسا واقعہ ہو جانا ہر رنگ ہر مذہب اور خود کینیڈا کے معاشرتی ڈھانچے پر ایک سوالیہ نشان چھوڑ گیا ہے۔

اور اب یہاں اور دنیا بھر میں بسنے والے پردیسی خود سے یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ آخر کیوں چلے آتے ہیں ہم۔ اپنا گھر، اپنا دیس، اپنی زندگی سب چھوڑ کر ایک نئے ملک میں ایک نئی امید لیے؟ یہ پردیسی جو نگر نگر کی خاک چھانتے، تنکوں کو اکٹھے کر ایک نیا گھونسلا بناتے ہیں۔ کیا اس لیے کہ برسوں کی محنت کو نفرت کی آگ چند لمحوں میں منوں مٹی تلے دفن کر دے؟ پردیس کو دیس بنانے اور یہاں خون پسینہ ایک کرنے والوں کے لیے بدلے میں امن و آشتی سے اپنے روزگار کا حصول اور اپنی انگلی نسلوں کے لیے بہتر زندگی کی امید ہی تو ہے۔ مگر ایسے واقعات صرف ایک خاندان پر قیامت نہیں توڑتے بلکہ ہزاروں لاکھوں کی آنکھوں سے امید چھین کر خوف کا پہرہ بٹھا دیتے ہیں۔

ابھی اس واقعہ کو ایک اکلوتا حادثہ سمجھ کر دل کو تسلی دینے کی کوشش کر ہی رہے تھے کہ ایک نئی ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں کوئی اور سفاک اپنی کھڑکی سے ویڈیو بناتے ایک پیدل گزرتے مسلم خاندان پر ٹرک چڑھا دینے کی باتیں کرتا سنائی دے رہا ہے۔ پھر ایک اور حضرت سامنے آئے جو اس حادثے کی توجیح یہاں آنے والے امیگرینٹس کی بڑھتی تعداد اور نتیجتاً مقامی افراد کو نوکریوں کے حصول میں مشکلات اور مسلمانوں کی مختلف تہذیب و ثقافت کو قرار دے رہے تھے۔

یہ سب تارکین وطن نا تو زبردستی آپ کے ملک میں گھس بیٹھے ہیں نا ہی کسی سازش کے تحت یہاں آباد ہیں۔ یہ لوگ کینیڈا سرکار اور امیگریشن آفس کی دعوت پر یہاں اپلائی کرتے ہیں، اور یہاں آنے کے بعد سالہا سال کے تجربے اور اعلیٰ تعلیم کے باوجود اپنے پروفیشن میں ملازمت نا ملنے پر رونے نہیں روتے بلکہ دستیاب نوکریوں کو حاصل کر کے محنت اور ایمانداری سے اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پالتے ہیں۔

دنیا کے مختلف کونوں سے یہاں کینیڈا منتقل ہوئے یہ افراد نا تو یہاں کی معیشت پر بوجھ ہیں نا ہی انہیں یہاں بلانا کسی حکومت کا احسان۔ یہ لاکھوں امیگرینٹس یہاں کی ورک فورس کا ایک اہم حصہ ہیں۔ ملٹی بلین ڈالر انڈسٹریز جیسے اوبر، ایمازون، فوڈ انڈسٹری اور دیگر انڈسٹریز کا پہیہ بھی انہی مہاجرین کی افرادی قوت کی وجہ سے رواں ہے۔ ہر سال لاکھوں نئے امیگرینٹس جو دس سے تیس ہزار ڈالر یہاں کینیڈا کے کر آتے ہیں وہ بھی یہاں کی معیشت میں شامل ہوتا ہے۔ اس کے بعد یہ سب جو عموماً اپنے ملکوں میں اچھے پڑھے لکھے اور کامیاب افراد سمجھے جاتے ہیں وہ سب اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے واسطے یہاں اوسط درجے کی نوکریوں سے وابستہ ہو جاتے ہیں، کوئی ٹیکسی ڈرائیور تو کوئی ٹرک چلا رہا، کوئی فوڈ ڈیلیوری تو کوئی ریستوران کا کچن سنبھالتا۔

ان میں سے چند فیصد ہی اوسط ان افراد کی ہوتی جو یہاں کے حالات سے لڑ بھڑ کر کسی اچھے مقام تک پہنچ پاتے اور یہ سب جو کما رہے وہ واپس انہی ملکوں میں خرچ کر رہے اس امید پر کہ جو مواقع انہیں نہیں ملے وہ ان کی اولاد کو حاصل ہو سکیں تو جب کوئی یہ کہتا ہے کہ یہ نگر نگر سے آنے والے یہاں بوجھ ہیں تو وہ انجان یا بے وقوف نہیں، بلکہ تعصب کے گندے غلاف میں لپٹا ایک فسادی ہے جو یہ برداشت نہیں کر پاتا کہ ایک معاشرہ مختلف رنگوں اور تہذیبوں سے مل کر پنپ رہا ہے۔

ڈاکٹر سلمان اور ان کا خاندان تو گزشتہ جمعہ کے روز ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں سپرد لحد ہوئے۔ مگر یہ اب نا صرف یہاں کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں بلکہ میڈیا اور رائے عامہ کے دیگر اداروں کے لئے بھی ایک ٹیسٹ کیس ہے کہ وہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے کس حد تک کوشش کرتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ تمام حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں نے نا صرف اس اندوہناک واقعے کی مذمت کی بلکہ یہاں کے مقامی افراد بھی مکمل طور پر پاکستانی اور مسلم کمیونٹی کے ساتھ کھڑے نظر آ رہے ہیں۔ کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو اور دیگر رہنما اسے دہشت گردی کی واردات قرار دے چکے ہیں اور آخر کار، اس واردات کے قریب ایک ہفتے بعد ملزم پر قتل کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی دفعات کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ امید ہے کہ اب دہشت گردی کا لیبل صرف مسلمانوں کے لئے مخصوص نہیں رکھا جائے گا، بلکہ ہر وہ شخص جو رنگ، نسل یا مذہب کو جواز بنا کر کسی پر حملہ آور ہونے کی کوشش کرتا ہے، اسے ایک ہی نظر سے دیکھا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments