انڈیا چین تنازع: ودای گلوان میں جھڑپ کے ایک برس بعد دونوں ملک کہاں کھڑے ہیں؟

شکیل اختر - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی


چین، انڈیا

وادی گلوان میں انڈیا سے خونریز ٹکراؤ کے ایک برس گزر جانے کے بعد بھی چینی فوجیں اپنی پرانی پوزیشن پر واپس نہیں لوٹی ہیں۔ چین نے مشرقی لداخ میں اس مدت میں بڑے پیمانے پر مستقل فوجی ڈھانچے تعمیر کر لیے ہیں اور چینی فوجیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ خطے میں کئی مقامات پر نئے ٹکراؤ کا اندیشہ پیدا ہو گیا ہے۔

گزستہ برس 15 جون کی شب دریائے گلوان کی وادی میں انڈیا اور چین کے فوجیوں کے درمیان ٹکراؤ میں انڈیا کے 20 اور چین کے کم از کم 4 فوجی مارے گئے تھے۔

مئی اور جون کے مہینے میں کشیدگی کے درمیان چینی فوجیوں نے پینگونگ سو جھیل، ڈیپسانگ، گلوان وادی، ہاٹ سپرنگ اور گوگرا جیسے سرحدی علاقوں میں کئی مقامات پر آگے بڑھ کر ان علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا جو پہلے انڈیا کے قبضے یا کنٹرول میں تھے۔

دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی اور فوجی سطحوں پر کئی دور کے مذاکرات ہوئے، ابتدائی طور پر کشیدگی میں کچھ کمي آئی اور چینی فوجی پینگونگ سو جھیل کے شمالی کنارے پر انڈیا کے اس حصے سے کچھ پیچھے ہٹے جس پر انھوں نے قبضہ کر لیا تھا لیکن وہ اب بھی ایکچول کنٹرول لائن کے انڈیا کی جانب ہی موجود ہیں۔

مذاکرات میں انڈیا کا مؤقف ابتدا سے یہی تھا کہ چینی فوجیں سنہ 2020 سے پہلے کی پوزیشن پر واپس چلی جائیں۔

چین، انڈیا

دلی یونیورسٹی میں چینی امور کی پروفیسر ڈاکٹر رتوشا تیواری کہتی ہیں کہ چین اس کے برعکس ’انڈیا سے یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ انڈیا 2020 سے جس پوزیشن میں ہے وہاں سے وہ پیچھے ہٹے اور اس مقام سے فوجوں کی تعداد کم کرنا شروع کرے۔ وہ بفر زون بنانے کی بات کر رہا ہے جہاں سے وہ خود پیچھے ہٹنے کی بات نہیں کر رہا۔‘

گلوان وادی میں جہاں گزشتہ برس خونریز جھڑپ ہوئی تھی اب وہاں دونوں جانب مستقل فوجی اڈے تعمیر ہو گئے ہیں۔

سیٹلائٹ تصویروں کا غور سے جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ اس خطے میں باقاعدہ ہیلی پیڈ اور بڑے بڑے ہتھیار ذخیرہ کرنے کے سٹور تعیمر کیے گئے ہیں۔

پینگونگ سو کے کنارے پر بھی چینی افواج اپنی پہلے کی پوزیشن سے محض ایک فنگر پیچھے ہٹ کر بڑی تعداد میں پہاڑوں کی اونچائی تک تعینات ہیں۔ کئی مقامات پر انڈیا اور چین کی افواج کے درمیان محض چند سو میٹر کا فاصلہ ہے۔ مشرقی لداخ کے کے دشوار گزار خطے میں اب جگہ جگہ چینی اور انڈین فوج کا ڈیرا ہے۔

سلامتی امورکی ماہر اور چین پر کتاب کی مصنفہ غزالہ وہاب کہتی ہیں کہ صورتحال میں خرابی اگست 2019 سے آنی شروع ہوئی جب کشمیر کی دفعہ 370 اور 35 اے کو ختم کیا گیا۔

وہ کہتی ہیں کہ چین خطے کی موجودہ پوزیشن (ایل اے سی) کو بدلنے کی کوشش کر رہا ہے۔

’یہ صورتحال دو برس سے خراب ہوتی جا رہی ہے۔ چین کی موجودگی یہاں بہت زیادہ بڑھتی جا رہی ہے۔ توازن ہر جگہ بدل رہا ہے۔ یہ صورتحال دراصل انڈیا کے ہاتھ سے کافی حد تک نکل چکی ہے۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ ہم اس حقیقت کو سمجھ بھی نہیں رہے ہیں کہ حالات ہمارے قابو سے باہر ہو گئے ہیں۔‘

’ایسا نہیں ہے کہ ہم صورتحال کو سنبھال نہیں سکتے لیکن ہمیں جب پتہ ہی نہیں کہ صورتحال کیا ہے تو پھر ہم یہ سوچ نہیں پا رہے ہیں کہ صورتحال کیسے سنبھالیں۔‘

غزالہ وہاب کا کہنا ہے کہ انڈیا نے اپنے سبھی ہمسایہ ملکوں سے تعلقات خراب کر رکھے ہیں۔

’ان ملکوں میں چین کا اثر رسوخ بڑھ رہا ہے۔ انڈیا اپنے ہمسایہ ملکوں پر انحصار نہیں کر سکتا اس لیے وہ مایوسی میں اب امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ چین مخالف اتحاد ’کواڈ ‘ جیسے گروپ میں شامل ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔

’اب ہم چین کی برابرابری نہیں کر سکتے۔ ہمارے پاس ٹیکنالوجی ہے اور نہ مالی وسائل۔ اس لیے جب آپ کے پاس طاقت نہیں تو آپ کسی ایسے ملک کے پاس جائیں گے جس کے پاس طاقت ہے کواڈ میں جانے کا مطلب یہی ہے کہ آپ امریکہ کی طاقت کے زور پر اپنے پڑوس میں کھڑے رہ سکیں۔‘

چین، انڈیا

ملک کی بری فوج کے سربرا ہ جنرل ایم ایم نروانے حال میں کئی بار انڈیا چین کشیدگی کا ذکر کر چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کئی دور کے مذاکرات ہوئے ہیں اور ان میں جو باتیں طے ہوئی ہیں ان پر دونوں فوجیں عمل کر رہی ہیں اور کشیدگی قابو میں ہے۔

دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا نے خطے میں پچاس سے ساٹھ ہزار تک فوجی مشرقی لداخ میں تعینات کر رکھے ہیں۔ ابتدا میں چینی فوجیوں کی تعداد بھی اتنی ہی بتائی جاتی تھی لیکن بعض ماہرین کا خیال ہے چینی فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔

انڈیا میں اس صورتحال کو تشویش کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے تاہم حکومت نے اس سلسے میں محتاط رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ چین کے بارے میں سخت مؤقف اختیار کیے جانے کے باوجود سفارتی یا سیاسی سطح پر چین کے خلاف سخت بیان بازی سے گریز کیا جا رہا ہے۔

چین کا کہنا ہے کہ انڈیا سرحدی تنازعے کو الگ رکھ کر اقتصادی رشتے بحال کرنے پر توجہ مرکوز کرے لیکن حال ہی میں انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا تھا کہ کشیدگی اور تجات دونوں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔

جواہر لال نہرو یونورسٹی میں چینی امور کے پروفیسر ڈاکٹر بالی دیپک کا خیال ہے دنیا میں طاقت کا توازن بدل رہا ہے اور پوری دنیا میں اس کا جھکاؤ اب چین کی جانب طرف بڑھ رہا ہے۔

’خاص طور سے ہمارے خطے میں اس کا اثر بہت زیادہ ہے۔ چین کی اقتصادی طاقت بہت بڑھ گئی ہے۔ سنہ 2010 میں چین کی معیشت کا حجم 3.6 ٹریلین ڈالر تھا جو محض دس برس میں بڑھ کر ساڑھے 15 ٹریلن ڈالر تک پہنچ گیا ہے جبکہ انڈیا کی معیشت محض 7.2 ٹریلین تک پہنچ پائی ہے۔‘

چین، انڈیا

’یہ جو دونوں ملکوں کے درمیان نا برابری ہے وہ اتني بڑھ گئی ہے کہ چین سوچتا ہے کہ انڈیا اب پیچھے رہ گیا ہے۔ وہ اقتصادی، فوجی اور تکنیکی اعتبار سے بہت پیچھے رہ گیا ہے ۔ چین سوچتا ہے کہ اس کا مقابلہ تو امریکہ سے ہے ۔ اس لیے اب وہ انڈیا کو اتنی اہمیت نہیں دیتا۔‘

ڈاکٹر دیپک کہتے ہیں چین نے ایکچول کنٹرول لائن پر ’سٹیٹس کو‘ یعنی پرانی پوزیشن پوری بدل دی ہے۔

وہ کہتے ہیں ’سٹیٹس کو بحال کرنے کی بات ایک خواب بن چکی ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ سنہ 2019 والی پوزیشن کبھی لوٹ سکے گی۔ گوگرا ہائٹس، ڈیپسانگ اور ہاٹ سپرنگ ، یہ تین نئے خطے ابھر کر سامنے آئے ہیں جو ٹکراؤ کے نئے علاقے ہیں۔ یہاں جو صورتحال ہے اس میں کبھی بھی جھڑپ ہو سکتی ہے۔‘

رتوشا تیواری کے خیال میں موجودہ صورتحال میں انڈیا کی حکمت عملی چین کو قابو میں رکھنے کی ہو گی۔

’انڈیا چین پر اتنا دباؤ بنائے رکھے کہ وہ اپنی موجودہ پوزیشن سے مزید آگے نہ بڑھ سکے اور اسٹیس کو کی بحالی کے لیے مزاکرات کے لیے تیار ہو۔‘

چین سے مذاکرات میں تعطل کے بعد انڈیا اب رفتہ رفتہ امریکہ کی زیر قیادت چین مخالف اتحاد کی طرف مائل ہو رہا ہے۔

انڈیا کے وزیر ‏خرجہ ایس جے شنکر نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ چین سے انڈیا کے رشتے ایک انتہائی مشکل موڑ پر پہنچ گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32503 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp