مانگنے والا


صبح اٹھا، تیاری کر کے اپنی سائیکل پہ سوار ہو کر اڈے پر پہنچا۔ کیونکہ وہاں سے گاڑی پہ بیٹھ کر یونیورسٹی جانا ہوتا تھا۔ یخ بستہ سردیاں عروج پر تھیں۔ سورج بھی کچھ دنوں سے شاید اپنے محبوب سے ملنے گیا ہوا تھا۔ تبھی تو وہ رقیبوں سے لاپرواہ تھا۔ دانت بغیر تھاپ کے ڈانس کر رہے تھے۔ ناک کی نوک پہ لالی بنی ہوئی تھی۔ بالوں سے لپکتی ہوئی شبنم ماتھے پہ آ کر سلام کر رہی تھی۔

بغلوں میں ہاتھ لپیٹے ہوے خدا کا شکر ادا کر رہے تھے کہ شکر ہے اس نے یہ بازو بھی بنائے ہیں ۔ کہ برودت سے بچنے کےلیے ہم انہیں لپیٹ تو سکتے ہیں۔

اسی برودت میں دیکھا کہ ایک مانگنے والی بچی آئی ،جس کے پاؤں میں نہ جوتی تھی نہ سر پہ کوئی دھوتی، جسم پہ ماں کے ارمانوں کا دوپٹہ لیے سب کے سامنے ہاتھ پھیلاے جا رہی تھی۔ حالات سے مجبور ،   جو مختلف لوگوں کے سامنے دست بستہ ہو کر درد بھری آواز میں چائے پینے کےلیے کچھ پیسے مانگنے لگی۔ جسے ہمیشہ کی طرح سبھی نے دھتکار دیا۔ بچی منہ لٹکائے آنکھوں میں آنسو سجائے، سینے میں ارمان چھپاے جانے ہی لگی تھی۔

 کہ اس کا پاوں پھسلا اور اس کے پاؤں سے اچھلنے والی کیچڑ کی چند بوندیں ایک سفید پوش، با عزت، شریف النفس، چہرے پر لال ڈاڑھی، سر پر عمامہ رکھے ہوے شخص کے کپڑوں پہ جا لگی ۔ بچی ڈر کے ماری چھوٹی انگلی منہ میں ڈالے سر جھکاے رک گئی۔ سفید پوش شخص نے غضب بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔ اس نے ایسے آنکھیں پھاڑیں کہ ایسے لگ رہا تھا کہ وہ ابھی بچی کی جان لے لے گا۔ پھر اس  سفید پوش نے اسے بازو سے پکڑا۔ اور اسی کیچڑ میں دو چار دفعہ گرا کے اپنا بدلا لے لیا۔اب اس کے دل میں کچھ سکون آیا تو اس نے سر پر دو تین چپیڑیں ماری اور اس کی جان بخش دی۔ وہاں پر ہم جتنے بھی موجود تھے سبھی کی ہنسی نہیں رک رہی تھی۔ جونہی وہ اسے جھٹکا دیتا ہماری باچھیں اور بھی کھلکھلانے لگ جاتیں۔ اس سے زیادہ تو نہیں لیکن سفید پوش کے کپڑوں پہ کچھ مزید چھینٹوں کا اضافی ہو گیا ۔لیکن اس نے بچی کو سبق سکھا دیا۔

اتنے میں گاڑی آ گئی ورنہ اس نے بچی کو ایسا سبق سکھانا تھا کہ زندگی میں کبھی کسی سے پیسے نہ مانگتی۔ گاڑی میں سوار ہو گئے۔ لک موڑ پہنچے تو وہاں پہ گاڑی رکی۔ ادھر کان دھرا تو بہت ہی درد بھری آواز سنائی دی۔ سامنے دیکھا تو تقریبا بیس بائیس سال کا مجبور جس نے بائیں ہاتھ پر کپڑا باندھا ہوا تھا۔ جس کی انگلیوں سے خون رس رہا تھا۔ لمبے لمبے بال تھے اور ماتھے پر پٹی باندھی ہوئی تھی۔

کپڑے پھٹے ہوے۔ ہونٹ سوکھے ہوے، ماؤوں بہنوں کےلیے چشم شرم سے تر اور آواز میں درد تھا۔ نوجوان اپنی درد بھری داستان سنانے لگا۔ کہتا ہے بزرگو، ماؤوں ، بہنوں ، بھائیوں آپ بھی  بچوں والے ہیں۔ آپ کے بھی بچے ہوں گے۔آپ کے بھی بھائی ہوں گے۔ آپ کی بھی بہنیں ہوں گی۔ لیکن اللہ کرے کبھی یتیم نہ ہوں۔ دوستوں میری چار چھوٹی بہنیں ہیں۔ ماں باپ چھوڑ گئے ہیں۔ چچیاں روٹی نہیں دیتی میری بہنوں کو مارتی ہیں اور کہتی ہیں کہ تم کما کر لاو۔ میرے بھائیو شالا کوئی بھی یتیم نہ ہو۔

 اللہ آپ کو یہ دن نہ دکھائے۔  کچھ لوگوں کو ترس آیا۔  کچھ نے کہا کہ یہ فراڈیہ ہے۔ کچھ عورتوں نے کہا کہ آہ!  بیچارہ بہت دکھی ہے۔ زیادہ لوگوں نے اپنی استطاعت کے مطابق اس کی مدد کی۔  سفید پوش شخص کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اس نے بھی کچھ پیسے دیے۔ اتنے میں گاڑی چل گئی۔ یونیورسٹی پہنچا۔ عصر ٹائم واپسی ہوئی۔ واپسی اسی سٹاپ پہ کچھ دیر گاڑی رکی پھر چند منٹ بعد گاڑی چلی جب موڑ میں گاڑی مڑنے لگی تو دیکھا کہ وہ مانگنے والا، وہی یتیم نوجوان،  اسی لباس میں ملبوس آگے سے آ رہا تھا۔ بس اس کے ساتھ چار لڑکا تھے۔  دو ایک طرف دو دوسری طرف آدھی سڑک پہ چلے آ رہے تھے۔ پہلے میں سمجھا کہ دھند کے اولے پڑ رہے ہیں۔ لیکن تھوڑا غور کیا تو دیکھا کہ اس کی زلفوں سے نکلتا ہوا گھنا دھواں آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا تھا۔

ملک محمد عرفان، شاہ پور
Latest posts by ملک محمد عرفان، شاہ پور (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments