آپ اپنا ستائیس روپے بچاس پیسے حق مہر اپنے پاس رکھیں


اپنی دل و جان سے عزیز سہیلیوں کے حق مہر کی رقوم کا وعظ سنتے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے شدید آندھی آئی ہو اور سب اڑا کے لے جانے کے بعد تھم گئی ہو۔ دل جیسے زور دار دھماکوں سے پھٹتا جا رہا ہو یا ایک نظام کا لادا ہوا بوجھ ہے جو اٹھانے پر زبردستی مجبور کر دیا گیا ہو۔ غضب خدا کا، نکاح نامہ ہے کوئی طلاق نامہ تو نہیں جس کو لے کر ابہام ہوں۔ حق مہر ہے، قارون کا خزانہ تو نہیں جو زمیں نگل لے گی۔

ہمارے یہاں جیسے خواتین کے حقوق کے حوالے سے آگہی بڑھ رہی ہے، حقوق نسواں کے موضوعات پر کھل کر گفتگو بھی عام کی جاتی ہے، کم از کم خواتین کی محافل کی حد تک سہی جو کہ خوشگوار ہے۔ اگر خواتین ان امور پر مبحث ہیں گویا یہ بھی کامیابی ہے کیونکہ خود خواتین ہی ان موضوعات پر گفتگو کرنا معیوب سمجھتی ہیں، جس کے بے شمار سماجی اور اخلاقی جواز گڑھے جاتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر خواتین کی میلاد یا خاص مذہبی ایام کی محافل میں خواتین کو خواتین عالمہ اور ذاکرہ شوہروں کی فرمانبرداری اور تابعداری کے غیر انسانی نسخے دیتی آئی ہیں۔

ان محافل میں ناک کان بال کیسے چھپانے ہیں تو بتایا جاتا رہا ہے مگر کبھی کسی عورت کو یہ نہیں بتایا گیا کہ زندگی بہتر کرنے کے لئے اسے کیا کرنا چاہیے، ناخنوں پر رنگ تو لگانا حرام بتلایا گیا مگر متشدد شوہر سے زندگی محفوظ کیسے رکھی جائے کوئی بتانے کو تیار نہ تھا۔ ظلم پر صبر و شکر کی تلقین جنت کی آس میں تو سکھائی گئی، مگر ظلم و ستم کی نفی کبھی نہیں بتائی، شوہر کے حقوق بتائے گئے مگر عورت کے حقوق پر خاموشی کو مسیحا گردانا گیا۔

دنیا میں اسلام کا ترقی پسند چہرہ دکھانے کے لئے حضرت خدیجہ اور حضرت عائشہ کی امثال تو دی گئیں مگر مقامی مسلمان عورت کو حضرت خدیجہ اور حضرت عائشہ جیسا بننے سے ہر طرح سے روکا گیا، نہ وہ دین اور دنیا کے امور کی تشریح کے قابل سمجھی گئیں، البتہ مسلمان عورت کو ہی نالائق اور کم عقل ثابت کرنے کی خاطر ہر کہانی بنی گئی جس سے اس کی آواز کو ختم کیا جانا آسان ٹھہرا۔ اسلامی تجارت اور معیشت میں حضرت خدیجہ کا حوالہ تو دیا گیا مگر کسی بھی ایسی عورت جو اپنے پیروں پر کھڑی ہونے کی خواہاں ہوئی کو نفرت، تشدد اور بد کرداری کے دشنام سے شرمایا گیا۔

جن محافل کو عورت کی ترقی اور کامیابی کا ذریعہ بننا تھا، ان کو ہی مسلمان عورت کی سماجی پستی کے لئے استعمال کیا گیا۔ ایسی محافل میں عالمہ سمیت سب خواتین ہی گھریلو تشدد اور سماجی ظلم کی متاثرہ ہوتی ہیں مگر افسوس کا مقام کہ ان محافل کو جو عورتوں کے لئے شعور اور آگہی کا مستند ذریعہ بن سکتی تھیں کو عورت کو مزید لاعلم اور خوف میں مبتلا کرنے کے کام میں لائی گئیں۔ اس معاشرے کی ہر عورت نے ہی جنسی، معاشی، اور گھریلو تشدد اور امتیاز سہا ہے مگر مجال ہے ان محافل میں ان پر بات بھی ہو سکے۔ نکاح، حق مہر اور طلاق جیسے موضوعات پر کبھی ان محافل میں گفتگو نہیں کی گئی اس پیرائے سے جس سے عورت با اختیار ہو سکے، اس کے برعکس عورتوں کو مزید جھکانا اور تشدد سہنا سکھایا جاتا ہے۔ آپ کو اعتراض ہو سکتا ہے مگر حقیقت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔

اب چونکہ نوجوان خواتین کے مابین کچھ حد تک حقوق نسواں پر گفتگو ہوتی ہے، نکاح نامے، حق مہر پر معلومات بھی عام کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ لڑکیاں اٹھارہ اٹھارہ سال اور کہیں پر پی ایچ ڈی جیسی اعلیٰ تعلیمی اسناد حاصل کرنے کے باوجود اپنے ان حقوق بارے کچھ نہیں کر سکتی جن پر ان کو آگہی مل رہی ہے۔ گھر والے بے حد محبت اور رائے کا احترام کرنے والے بھی ہوں گے، مگر بیٹی کو اس کا نکاح نامہ پڑھنے، اس میں ترامیم کرنے کی اجازت تو دور دستخط کرانے کے علاوہ نکاح نامے کا کوئی ورق تلک پلٹنے کی مہلت نہیں دیتے۔

نکاح کے وقت اتنی جلدی نکاح ہو جانے کی نہیں ہوتی جتنی دلہن کے ہاتھوں سے نکاح نامہ نوچنے کی ہوتی ہے۔ عین نکاح کے قریب نکاح نامہ کھنچنے والے مرد حضرات ضرور موجود رہتے ہیں، جو فوراً سے نکاح نامہ لے کر غائب ہوتے ہیں کہ کہیں کوئی عورت اپنے دینی اور آئینی حقوق کا استعمال نہ کر بیٹھے۔ میرے تجربے کے قریب یہ بہت عام سے سرگرمی ہے جو میں نے متعدد بار دیکھی ہے۔ آخر نکاح نامے میں ایسا کیا درج کیا جاتا ہے جو دلہن کے دیکھنے، پڑھنے اور سمجھنے کے بعد آپ کی اصلیت اس پر کھول کر رکھ دے گی؟

مجھے معلوم ہے سب باپ یا بھائی ایسے نہیں بھی کرتے ہوں گے، مگر مجھے یہ بھی علم ہے کہ یہ زیادتی بہت عام ہے۔ اسی کی وجہ سے اس ملک میں لاکھوں شادی شدہ خواتین نے نکاح سے پہلے، نکاح کے وقت اور نکاح کے بعد اپنا نکاح نامہ دیکھا تک نہیں ہوتا۔ اول تو کسی کم عمر لڑکی یعنی کھلونوں سے کھیلنے والی عمر کی بچیوں کی شادی (جنسی و سماجی زیادتی) سے پہلے نکاح نامے پر عمر ہی سیدھا اٹھارہ برس لکھ دی جاتی ہے۔ جس کو دنیا کی سمجھ بوجھ نہ ہو اس کو بھی ایک کم عمر بچی اور اٹھارہ سالہ بچی میں فرق نظر آتا ہے۔ اٹھارہ سالہ لڑکی کو بچی کہنے کا مطلب یہی ہے کہ اس عمر کے لڑکے لڑکیاں بچے اور بچیاں ہی ہوا کرتے ہیں۔ اس عمر کے اطفال گیارہویں بارہویں کے امتحان کی فکر کرتے اچھے لگتے ہیں نا کہ شادی کی۔

دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ وہ نوجوان لڑکیاں جن کو ان کے حقوق سے مکمل آشنائی ہے، جو مناسب کماتی بھی ہیں، خود کو آزاد اور با اختیار سمجھتی ہیں، مگر ایسا کیا ہے جو اپنا نکاح نامہ اور حق مہر خود طے کرنے کی آزادی نہیں رکھتی؟ اس نظام میں جو کہ حقیقتاً عورت کے خون اور جسم کے ریشوں پر پلتا ہے، ہرگز اپنی بیٹی اور بہن کو ایسے فیصلے کرنے کی اجازت نہیں دے گا جس سے ان کی خود مختاری اور شخصی آزادی کا شبہ ان کے ہونے والے شوہر یا سسرال پر ہو۔

اس خوف سے بھی کہ بیٹی کی رضا کے مطابق حق مہر مختص کرنا یا نکاح نامے میں ترمیم کرنے سے بارات ناراض نہ ہو جائے؟ سوال تو یہ ہے کہ جو انسان اور خاندان ایسی بات پر ناراض ہو سکتا ہے تو زندگی بھر ایسے لوگ اس لڑکی سے کیسا رویہ روا رکھ سکتے ہیں کوئی کیوں نہیں سوچتا؟ ایسی جگہ بیٹی کی شادی کرنا جہاں دلہا یا سسرال حق مہر کی پانچ دس ہزار کی کمی بیشی پر شادی کا پنڈال چھوڑ کر جا سکتے ہیں وہاں بیٹی کو عمر بھر کے لئے رخصت کرنا کہاں کی محبت اور عقل مندی ہوئی؟ لیکن ٹھہریے، ایسا بے مثال قدم وہ لوگ اٹھائیں گے جو خود اس گناہ سے آلودہ نہ ہوں گے۔

کل کو یہی لوگ کسی اور لڑکی کے ساتھ بھی نکاح اور طلاق کے حقوق پر نکاح نامے میں لکیریں کھینچیں گے۔ یہ ایک ایسی زنجیر ہے جو توڑنے نہیں دی جاتی۔ آج جو ساس ہے، ماضی قریب میں وہ بھی ایک ایسی ہی حقوق سے لاعلم دلہن تھی جس کو اس کی امنگوں کی مطابق حق مہر ملا نہ ہی اپنا نکاح نامہ دیکھنے تک کی آزادی۔ یہ وہ معاشرتی ڈھیل ہے جو پدرشاہی نظام میں افراد ایک دوجے کو دیتے ہیں، جس کی بلی بیٹی بہن کی صورت میں عورت چڑھتی ہے، آج ان کے گھر کی عورت ہے تو کل کو کوئی ان کو اپنے گھر کی عورت قربان کر کے دے گا۔

پھر یہ لوگ تشدد اور صنفی امتیاز پر خوشی کے ڈھول پیٹنے والے سر عام یہ وعظ دیتے ہیں کہ حق مہر مانگنے والی لالچی ہے، لاکھوں کا جہیز نوچنے والے حق مہر کو انا کا مسئلہ بناتے شرم سے ڈوبتے غوطے نہیں لگاتے۔ شروع سے عورتوں کی مذہبی محافل میں عورت کو یہ کہہ کر چپ کرایا جاتا ہے کہ اس کے بہت حقوق ہیں، اور جب رہی سہی تخصیص اور جبر کی زندگی گزارنے کے بعد واحد حق جس کا ان محافل میں خوب پرچار کیا جاتا ہے کو استعمال کرنے کا موقع آتا ہے وہاں دلہن کا حق دلہے اور سسرال کی خواہش کے مطابق طے کر کے عورتوں کے بہت حقوق ہیں کے قالین سے مٹی جھاڑ دی جاتی ہے۔

لاکھوں کا جہیز لینے والا مرد، لاکھوں کمانے والا اتنی غیرت نہیں کھاتا کہ بیوی سے پلنگ اور بستر سمیت سینکڑوں استعمال کی اشیاء نہ لے۔ کہاں جاتی ہے مرد ذات کی غیرت جب سسر کے پیسے اور ساس کی بچت کے خریدے ہوئے پلنگ پر سسر اور ساس کو گالی دے کر لیٹتا ہے؟ خیر یہ نکات تو بہت بوسیدہ ہو چکے، اتنی غیرت اس سماج میں ہوتی تو جہیز کی اشیاء کے بازار ہی آباد نہ ہوتے۔ گریبان چاک تو ان انا پرستوں، دروغ اور خام خیالی کے فرسودہ لحاف اوڑھے لوگوں کا ہونا چاہیے جن کی غیرت ٹھوکریں کھانے کے لائق ہے، جو ہونے والی بیوی سے جہیز تو لاکھوں کا بٹورتے ہیں مگر حق مہر دیتے ان کو سفید پوشی یاد آتی ہے۔ جو حق مہر کو ہی ہتھیار بنا کر اس معاشرے میں عورت کو پیسے کی پجاری اور لالچی ثابت کرتے ہیں۔ بظاہر کچھ عاشق محبت کی شادی تو کر رہے ہوتے ہیں مگر محبوبہ سے حق مہر پر اس لئے الجھ پڑتے ہیں کہ ان سے نا انصافی روا رکھی جا رہی ہے، جیسے مرضی کا حق مہر لکھوانے والی غلط ہو۔

مذہب کے نام پر محبوبہ پر اپنے عقائد کا بوجھ تو ڈالتے ہیں مگر اسی مذہب کے تحت ہونے والی بیوی کو اس کی آرزو کے تحت مہر لینے نہیں دیتے۔ دو لاکھ کا جوڑا پہنے دلہن کو پانچ دس ہزار حق مہر دینے والوں اور لکھوانے والے عزیزوں کو شرم بھی نہیں آتی، انا اور خود پرستی کی بس اونگھ آتی ہے۔ یہ شادیوں پر حق مہر لکھوانے کا ناٹک اگر بند ہو جائے تو دلہن کی توہین کم ہو جائے گی۔ پچاس ہزار کا صرف بناؤ سنگھار کرنے والی دلہن، جس کے پیروں میں جوتے دس دس ہزار مالیت کے ہوں، جس کو فقط سہیلیوں سے سلامی پچاس ہزار اکٹھی ہو اس کو پانچ دس ہزار کا حق مہر دینا اس کے منہ پر تھپڑ رسید کرنے کے علاوہ کچھ نہیں، جس جرم میں اس کے اپنے گھر کے مرد برابر کے ملوث ہوتے ہیں۔ بس بیٹی کا بوجھ سر سے اتر جائے، بیٹی چاہے شادی کے نام پر جہنم میں جائے، مگر جائے سہی۔

آخر میں وہ تمام خود ساختہ مردانگی اور حمیت کے جھروکوں کے مقید افراد جو عورت کے طلاق دینے اور لینے پر حق مہر کی مرد کو واپسی مرد اور پدر شاہی کی جیت سمجھتے ہیں ان کے لئے اتنا ہی عرض ہے کہ جو عورت صرف ایک مرد سے جان چھڑوانے کے لئے وکیل کو لاکھوں دینے پر تیار ہے، وہ ایسے انسان کو نکاح میں دیے گئے حق مہر نما تھپڑ کے پانچ ہزار بآسانی دے دے گی تو اس کی زندگی میں کوئی معاشی روگ نہیں لگے گا۔ آپ اپنا ستائیس روپے پچاس پیسے سے لے کر پانچ ہزار کا حق مہر اپنی جیب میں واپس رکھ لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments