گالف کا کھیل اور جرنیل کا استعفی


ریڈ کارپٹ پر دادا جی کی فاتحہ کی ویڈیو دیکھنے والے بھائی لوگو آپ فوج کے حوالے سے ایک دھواں دار خبر پر یقین کریں گے؟ اگر آپ کو بتایا جائے کہ فوج کے ایک لیفٹیننٹ جنرل کو ریٹائرڈ جنرل اور سابق سربراہ کے ساتھ گالف کھیلنے کے ”جرم“ میں استعفی دینا پڑ گیا ہے۔ ریٹائرڈ جنرل کی جگہ تعینات ہونے والے دوسرے سربراہ کو چند ہفتے کے اندر کچھ الزامات کی وجہ سے فوج کی سربراہی سے استعفی دینا پڑ گیا ہے۔ گالف کھیلنے والی خبر جن صحافیوں نے بریک کی ان پر بھی ان کے اداروں نے کوئی پابندی نہیں لگائی نہ ہی ان صحافیوں نے کسی قسم کی معذرت کی ہے۔

آپ اتنا تو جان ہی گئے ہوں گے یہ ہمارے ملک کا واقعہ نہیں ہو سکتا بلکہ ایسے قانون اور ان قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے جنرل اور حقیقی مسائل پر بات کرنے والے صحافی ہمارے ہاں پائے ہی کہاں جاتے ہیں؟

جی یہ درست ہے کیونکہ یہ کینیڈا کا واقعہ ہے۔ جہاں اسی سال ریٹائرڈ ہونے والے چیف آف ڈیفینس سٹاف (جو کینیڈین افواج کا سربراہ ہوتا ہے ) جنرل جوناتھن وینس (Jonathan Vance) غیر اخلاقی/جنسی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے۔ اس پر ملٹری پولیس ریٹائرڈ جنرل کے خلاف تحقیقات کر رہی ہے۔ اسی دوران جنرل وینس کی جگہ افواج کینیڈا کے سربراہ ایڈمرل میکڈونلڈ پر بھی جنسی نوعیت طرح کے الزامات سامنے آئے اور انہیں صرف 41 دن اپنے عہدے پر رہنے کے بعد استعفی دینا پڑا۔ ملٹری پولیس کی تحقیقات کے دوران کچھ حاضر سروس اعلی افسران جنرل وینس کے ساتھ گالف کھیلتے پائے گئے۔

یہ خبر پریس میں آنے کی دیر تھی کہ شور مچ گیا۔ وزیراعظم پر تنقید ہوئی۔ کیس کو سست رفتار سے چلانے کی بات اٹھی، الزام لگانے والی ایک افسر خاتون میجر کیلی برینان کا پہلے ہی کہنا تھا کہ مجھے اس کیس میں انصاف ملنے کی توقع نہیں کیونکہ مبینہ طور پر جنرل کا کہنا تھا کہ وہ مقدس گائے (untouchable) ہے اور موجودہ وزیر دفاع کرنل (ر) ہرجیت سنگھ ساجن بھی میرے زیر اثر ہے۔ لیکن ایماندارانہ صحافت اور مسئلے کی جڑ پر گفتگو کی وجہ سے گالف کھیلنے والے افسر رائل کینیڈین نیوی کے وائس ایڈمرل کریگ بینس (جنہوں نے آئندہ نیول چیف بننا تھا) نے معافی مانگی۔ فوج کے دوسرے اعلی افسر وائس چیف آف ڈیفینس لیفٹیننٹ جنرل مائیک رولو کو اپنے عہدے سے استعفی دینا اور معافی مانگی پڑی۔ مائیک رولو کا ایک قصور یہ بھی تھا کہ وہ ملٹری پولیس کے انچارج بھی تھے۔

پچھلے دنوں لندن اونٹاریو میں پاکستانی خاندان کی دہشت گردانہ ہلاکت اور اسلاموفوبیا کے ساتھ فوج کا یہ سکینڈل بہت شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے فوج میں کچھ فوری تبدیلیاں بھی کی ہیں، وائس چیف آف ڈیفنس کے طور پر ایک خاتون لیفٹیننٹ جنرل کو تعینات کیا ہے، بھاری رقم بھی اس مسئلے سے نبٹنے کے لئے مختص کی گئی ہے۔ لیکن سکینڈل بڑھتا جا رہا ہے اور کچھ اور خواتین افسر بھی حوصلہ پا کر سامنے آ رہی ہیں جنہیں اس طرح کے مسائل کا سامنا رہا ہے۔ اپوزیشن کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور وزیراعظم کو پارلیمنٹ اور میڈیا دونوں کو وضاحتیں دینا پڑ رہی ہیں۔

لیکن کیا ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں فوج سے متعلق کوئی خبر پارلیمنٹ، میڈیا اور عوام کا مسئلہ کیوں نہیں بن پاتا؟ شاید اس لئے کہ پارلیمنٹ کو ڈونکی راجہ، میاں چور اور بلو رانی سے فرصت ہو تو وہ دوسرے مسائل پر دھیان دے۔ حیرت اس وقت ہوتی ہے جب انقلابی قسم کے لیڈر 20 فیصد ملٹری بجٹ پر تنقید کی بجائے بہت کم کہہ کر ”نظر کرم“ کے منتظر ہو رہتے ہیں۔ صحافی جرنیلوں کے بیڈروم میں ہونے والی کارروائی میں ہیرو بننے تو پہنچ جاتے ہیں لیکن حقیقی مسائل پر بولنے کی جرات نہیں کرتے۔ اگر کوئی ایسا دعوی کرتا ہے تو اس سے حالیہ دادا جی کی فاتحہ پر ہی کوئی بیان بطور ثبوت طلب کر لیں۔ یوں تو بڑے میاں صاحب کی طرح ان کے سینے میں بھی ہزاروں دفن ہیں لیکن جرات مند صحافت کا رویہ وہی کہ ”ہمارے ساتھ معاملات ٹھیک رکھیں ورنہ بتا دیں گے۔“ خیر چھوڑیے ناصر کاظمی کے دو خوبصورت شعر پڑھیے کہ

جی جلاتا ہوں اور سوچتا ہوں
رائیگاں یہ ہنر نہ جائے کہیں
آؤ کچھ دیر رو ہی لیں ناصر
پھر یہ دریا اتر نہ جائے کہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments