سجاد رشید صوفی: ’عوامی دربار‘ میں منافرت پھیلانے کا الزام، سماجی کارکن ضمانت کے بعد ’احتیاطی حراست‘ میں

ریاض مسرور - بی بی سی اردو، سری نگر


’میں آپ سے اُمید رکھتا ہوں، چونکہ آپ ایک کشمیری ہیں اور میں آپ کا گریباں پکڑ سکتا ہوں اور آپ سے جواب طلب کرسکتا ہوں، مگر غیر ریاستی افسروں سے کیا اُمید رکھ سکتا ہوں۔’

یہی الفاظ کہنے پر کشمیر کے ضلع گاندربل میں ایک سماجی کارکن سجاد رشید صوفی کو قید کر لیا گیا ہے۔

گزشتہ ہفتے ضلع کے صفاپورہ قصبہ میں لیفٹنیننٹ گورنر منوج سنہا کے مقامی مُشیر بصیر خان نے ’عوامی دربار’ منعقد کیا تھا جس میں ضلع ترقیاتی کمیشنر کریتیکا جوتسنا بھی موجود تھیں۔ جوتسنا کا تعلق اُترپردیش سے ہے اور انہیں اس سال فروری میں یہاں تعینات کیا گیا تھا۔

واقعہ

دربار میں موجود صفا پورہ کے ایک باشندے غلام محمد نے بی بی سی کو بتایا کہ سجاد کی یہ بات سنتے ہی مُشیر اور ضلع کمیشنر بہت غصہ ہوگئے اور دربار کو برخاست کر دیا۔ کچھ ہی دیر بعد پولیس نے صوفی کو انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 153 کی شِق اے کے تحت گرفتار کرلیا۔ اس قانون کے مطابق کوئی بھی بات یا حرکت جو مذہب، نسل، جائے پیدائش یا زبان کی بنیاد پر سماج کے مختلف طبقوں کے درمیان منافرت پھیلانے کا موجب ہو وہ قابل مواخذہ ہے۔

پولیس کی ایف آئی آر میں سجاد کا یہی جملہ الزام کے خانے میں درج ہے: ’میں آپ سے اُمید رکھتا ہوں، چونکہ آپ ایک کشمیری ہیں اور میں آپ کا گریباں پکڑ سکتا ہوں اور آپ سے جواب طلب کرسکتا ہوں، مگر غیر ریاستی افسروں سے کیا اُمید رکھ سکتا ہوں۔’

ایف آئی آر کے مطابق ساجد نے یہ بات اعلیٰ حکام اور سنیئیر افسروں کی موجودگی میں کہی، تاہم عدالت سے ضمانت کے باوجود اُنہیں دوبارہ ’احتیاطی حراست‘ میں رکھا گیا ہے اور پولیس نے عدالت کو بتایا ہے کہ انہیں رہا کیا گیا تو وہ ’واقعے کے عینی شاہدین کو ہراساں کرسکتے ہیں، وہ زبان دراز ہیں اور گواہوں کو بہکا بھی سکتے ہیں۔’

سجاد رشید کے ایک رشتہ دار راجا جاوید نے بی بی سی کو بتایا ’اس الزام میں ہم نے عدالت سے ضمانت حاصل کرلی تھی، مگر ساجد کو پولیس نے دوبارہ گرفتار کرلیا اور چوبیس گھنٹوں تک غیرقانونی حراست کے بعد اُس کے خلاف ایک اور مقدمہ درج کرلیا۔’

گاندربل پولیس کے سربراہ سُہیل میر نے بی بی سی کے ساتھ فون پر بات کرتے ہوئے ساجد کی دوبارہ گرفتاری کی تصدیق کی۔ اُنہوں نے بتایا ’یہ احتیاطی حراست ہے تاکہ امن و قانون میں کوئی خلل نہ ہو۔’ تاہم ایس ایس پی سُہیل میر نے واضح کیا کہ ساجد کا پولیس ریکارڈ بالکل صاف ہے اور کسی بھی غیرقانونی سرگرمی میں ان کا ابھی تک نام نہیں ہے۔

واضح رہے کہ ساجد رشید کی گزشتہ تین نسلیں ہندنواز سیاست کرتی آئی ہیں۔ اُن کے دادا انڈیا کے زیرانتظام خودمختار کشمیر کے پہلے ’وزیر اعظم’ شیخ محمد عبداللہ کے قریبی ساتھی تھے اور اُن کے والد عبدالرشید جموں کشمیر پولیس میں ڈی ایس پی کے عہدے سے ریٹائر ہوچکے ہیں۔ ساجد خود بھی نیشنل کانفرنس کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور وہ 2011 میں چار سال کے لیے سرپنچ بھی منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے گزشتہ ضلع ترقیاتی کونسل کے انتخابات میں بھی حصہ لیا جبکہ اُن کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ ہندنواز سیاست میں سرگرم ہونے کی وجہ سے اُن کے گھر پر مسلح حملے بھی ہوتے رہے ہیں۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے کشمیر انتظامیہ نے ’بیک ٹُو وِلیج‘ نامی مہم شروع کی ہے جس کے تحت اعلیٰ افسران دُور دراز دیہات میں جاکر ’عوامی دربار’ لگا کر لوگوں کی شکایات سنتے ہیں۔ لیفٹنیننٹ گورنر منوج سنہا نے خود ریڈیو کے ذریعہ عوام کی آواز پروگرام شروع کر کے ’دل کھول کر شکایت کرنے’ کی حوصلہ افزائی کی ہے۔

گاندربل کی ضلع کمشنر کریتیکا جوتسنا سے مسلسل کوشش کے باوجود رابطہ نہ ہوسکا، تاہم اس واقعہ کے خلاف عوامی حلقوں میں شدید تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔

سوشل میڈیا پر ردعمل

سوشل میڈیا پر اس واقعے کے حق اور مخالفت میں بحث جاری ہے اور بعض افراد اسے غیر کشمیری افسروں کی ’تاناشاہی’ سے بھی تعبیر کر رہے ہیں جبکہ بعض لوگوں نے حبیب جالب کا یہ شعر پوسٹ کیا:

بولتے جو چند ہیں، سب یہ شرپسند ہیں

ان کی کھینچ لے زبان، ان کا گھونٹ دے گلا

قادری انضمام نے اس بارے میں ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’کشمیر میں ایک شخص صرف اس وجہ سے جیل میں ہے کیونکہ اُس نے کہا کہ اُسے ایک مخصوص بیورکریٹ سے کوئی توقع نہیں۔

سدھارتھ ورداراجن نے اپنی ٹویٹ میں اس کو دھلا دینے والی خبر قرار دیا۔

جبکہ زبیر امین نے متنبہ کیا کہ ’آپ میں سے جو مستقبل میں اس طرح کی ریاستی بات چیت میں جائیں تو براہ مہربانی قصیدہ پڑھیں۔ بابو کی ناراضی آپ کو جیل پہنچا سکتی ہے‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp