قومی اسمبلی میں ہاتھا پائی: جمہوریت ناکام کرنے کی منظم کوشش


قومی اسمبلی میں دو روز سے جو ہنگامہ آرائی اور تصادم دیکھنے میں آرہا ہے ، اس کی تفصیلات اخبارات، سوشل میڈیا اور ٹاک شوز کے ذریعے ہر شخص تک پہنچ چکی ہیں۔ تاہم یہ جاننا سیاسیات کے ہر طالب علم کے لئے اہم ہے کہ پارلیمنٹ میں موجودہ فساد کا آغاز وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی قیادت میں گزشتہ روز ہؤا تھا۔ عام طور سے حلیم الطبع اور خوش کلام کہلانے والے شاہ محمود قریشی کا یہ جارحانہ رویہ نہ جانے ان کی یا حکومت کی کون سی پریشانی یا بدحواسی کا شاخسانہ ہے۔

اسپیکر اسد قیصر نے گزشتہ روز حسب روایت اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو بجٹ پر بحث کا آغاز کرنے کی دعوت دی تھی۔ جوں ہی انہوں نے تقریر کا آغاز کیا وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اپنی نشست پر کھڑے ہوگئے اور ’چور چور ‘ کے نعرے لگاتے ہوئے اپوزیشن لیڈر کو تقریر سے روکنے لگے۔ حکمران جماعت کے دیگر ارکان نے ڈیسک بجا کر اور شور مچاکر ان کا ساتھ دیا اور شدید ہنگامہ آرائی کے سبب اسپیکر کو اسمبلی کا اجلاس بیس منٹ کے لئے ملتوی کرنا پڑا۔ وزیر خارجہ اور حکومتی ارکان کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت تک اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کو تقریر نہیں کرنے دیں گے جب تک اپوزیشن تحریری طور سے یہ یقین دہانی نہ کروائے کہ وہ بھی عمران خان کی تقریر کو خاموشی اور اطمینان سے سنیں گے۔ مختصر وقفہ طویل ہوگیا بالآخر اسپیکر کو چند گھنٹے بعد اجلاس آج تک کے لئے ملتوی کرنا پڑا۔ اس دوران حکومتی و اپوزیشن ارکان بجٹ سیشن کی کارروائی جاری رکھنے کے لئے کسی افہام و تفہیم پر متفق نہیں ہوسکے۔

اس پس منظر میں جب آج قومی اسمبلی کا بجٹ سیشن دوبارہ شروع ہؤا اور شہباز شریف اپنی نامکمل تقریر کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تو ایک بار پھر سرکاری بنچوں سے شور شرابہ، ہنگامہ آرائی اور برا بھلا کہنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ مسلم لیگ کے متعدد ارکان نے اس دوران اپنے لیڈر شہباز شریف کے گرد گھیرا ڈال لیا تھا اور سرکاری بنچوں سے آنے والی مغلظات کا جواب دیا جانے لگا۔ تھوڑی ہی دیر میں بات ہاتھا پائی اور ایک دوسرے پر بجٹ کی کتابیں پھینکنے تک پہنچ گئی۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ دونوں جانب سے ارکان ایک دوسرے کو تاک تاک کر پوری قوت سے بجٹ کتابیں پھینک رہے تھے۔ یعنی جس کتاب میں ملک کی سال بھر کی معاشی تقدیر کااحوال لکھا تھا، پارلیمنٹ کے قابل عزت اراکین نے انہیں ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور زمین پر پاؤں تلے روندا۔ اس سے قانون اور اخلاقی ضابطوں کے بارے میں عوام کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے لوگوں کی ذہنی حالت اور سماجی رویہ کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اب حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے پر زیادتی کرنے کا الزام لگا کر غیر پارلیمانی ہتھکنڈے اختیار کرنے کا الزام عائد کررہے ہیں۔

اسمبلیوں میں ہنگامہ آرائی اور ایک دوسرے پر لفظوں کے نشتر چلانا کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ متعدد بار اجلاس میں ہنگامہ بھی ہوجاتاہے لیکن مسلم لیگ (ن) کے لیڈر اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی یہ بات شاید درست ہو کہ پارلیمانی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملے گی کہ ہنگامہ آرائی کا آغاز حکمران جماعت کی طرف سے کیا جائے اور وہ اسے جاری رکھنے پر مصر بھی ہو۔ شاہ محمود قریشی جنہوں نے اپوزیشن کو تہذیب سکھانے کے لئے بظاہر ’غیر مہذب اور غیر پارلیمانی ‘ طریقہ اختیار کیا تھا، اب بھی اس بات پر اصرار کررہے ہیں کہ جب تک اپوزیشن سرکاری بنچوں سے کی گئی باتوں کو تحمل سے سننے کی ضمانت نہیں دے گی، ہم بھی ان کی تقریریں نہیں سنیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’بجٹ پر تنقيد حزب اختلاف کا حق ہے لیکن مہذب طريقہ اختیار کیا جائے۔ اپنی بات کريں اور حکومتی موقف سنيں۔ اگر اپوزيشن ہماری نہيں سنے گی تو ہم بھی ان کی نہيں سنيں گے‘۔ تاہم ملک کے باوقار وزیر خارجہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ انہیں گزشتہ روز شہباز شریف کو چور کہتے ہوئے پارلیمنٹ کا اجلاس خراب کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ کیا یہ طریقہ کار کسی باقاعدہ اور سوچی سمجھی ’پارلیمانی حکمت عملی ‘ کا نتیجہ تھا؟

بجٹ سیشن کسی بھی اسمبلی میں اہم ترین وقوعہ ہوتا ہے۔ اپوزیشن اور حکومتی ارکان اس اہم دستاویز کے مختلف پہلوؤں کو سامنے لاتے ہیں ۔ اس طرح لوگوں کو سرکاری مالی تجاویز کی خوبیوں اور خرابیوں کا پتہ چلتا ہے۔ بجٹ سیشن کے دوران عام طور سے حکومت اپوزیشن کو بات کرنے کا موقع دیتی ہے۔ جن ملکوں میں سیاسی افہام و تفہیم کاکلچر موجود ہے وہاں اپوزیشن کی جائز تجاویز کو مان لیا جاتا ہے تاکہ قومی بجٹ اتفاق رائے سے منظور ہوجائے۔ لیکن پاکستان جیسے جن ملکوں میں یہ مہذب پارلیمانی مزاج ابھی تک فروغ نہیں پاسکا ، وہاں بھی اپوزیشن کو دل کا غبار نکالنے اور تنقید کرنے کا موقع دیا جاتاہے تاکہ بجٹ پر رائے دہی کے وقت زیادہ ہنگامہ نہ ہو اور حکومت مالی بل منظور کروانے میں کامیاب ہوجائے۔ پارلیمنٹ میں مالی بل کی ناکامی کسی بھی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ سمجھی جاتی ہے۔ کوئی بھی حکومت کسی وقتی اشتعال اور ہیجان کے باعث اس قسم کا خطرہ مول لینے کے لئے تیار نہیں ہوتی۔ اس لئے بجٹ سیشن میں خاص طور سے حکومتی بنچوں کی طرف سے شدت کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آتا۔

اور اگر تحریک انصاف کی طرح کوئی حکومت محض چند ووٹوں اور حلیف جماعتوں کے سہارے پر کھڑی ہو تو اس کی حتی الامکان کوشش ہوتی ہے کہ اپوزیشن کو مشتعل کرنے کی بجائے کسی طرح مصالحت سے کام لیا جائے اور اس مشکل پارلیمانی مرحلہ سے عزت و احترام کے ساتھ گزرا جائے۔ البتہ شاہ محمود قرشی کی سرکردگی میں تحریک انصاف نے گزشتہ دو روز کے دوران جس پارلیمانی حکمت عملی کا مظاہرہ کیا ہے ، اس سے یہ واضح ہورہا ہے کہ حکومت کو بجٹ کے ’نا منظور‘ ہونے کا اندیشہ تو نہیں ہے لیکن وہ اس دستاویز پر کسی بحث کی بھی متحمل نہیں ہوسکتی۔ اس حکمت عملی کے دو پہلو ہیں اور دونوں ملک میں پارلیمانی جمہوریت کے حوالے سے انتہائی افسوسناک اور قابل غور ہیں۔ ایک پہلو تو یہ ہے کہ اگر حکومت نے اپنی بھرپور صلاحیت کے ساتھ خراب حالات میں بہترین بجٹ پیش کیا ہے تو وہ اپوزیشن کی تنقید سے کیوں پریشان ہے۔

حالیہ بجٹ تحریک انصاف کے سابقہ دو بجٹوں کے مقابلے میں بہتر قرار دیا جارہا ہے کیوں کہ اس میں ہر شعبہ کو سہولت دینے اور پہلی بار ترقیاتی شعبہ میں زیادہ فنڈز فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ عام طور سے قیاس کیا جارہا ہے کہ اس بجٹ سے تحریک انصاف کی ناکام معاشی پالیسیوں کے بارے میں تاثر تبدیل کرنے میں مدد ملے گی۔ اس کے باوجود پارلیمنٹ میں حکومت کیوں جارحیت پر اتری ہوئی ہے۔ کیا اس کی وجہ آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والے معاہدہ کی بعد نامعلوم شقات ہیں جو بجٹ بحث کے دوران سامنے آسکتی ہیں اور وزیر خزانہ نے ملکی معاشی حالت کی جو خوشگوار تصویر بنانے کی کوشش کی ہے، اسے نقصان پہنچ سکتا ہے؟یا پھر طویل بجٹ دستاویز میں بعض ایسی معلومات اور حقائق شامل ہیں جن پر عام بحث سے حکومتی مالی پالیسی کے بودے پن کا راز کھل سکتا ہے۔ اور بجٹ حقیقت میں صارفین کو وہ سب مراعات دینے کا سبب نہیں بنے گا جس کے بلند باند دعوے مسلسل کئے جارہے ہیں۔

موجودہ حکومت متنازعہ امور کو زور ذبردستی اور ایک خاص پارلیمانی حکمت عملی کے ذریعے منظور کروانے کی شہرت رکھتی ہے۔ عام طور سے تحریک انصاف کی حکومت آرڈی ننس کے ذریعے کام چلاتی ہے اور جب انتہائی مجبوری میں پارلیمنٹ سے قانون منظور کروانا پڑے تو متنازع قانون پر بحث کی نوبت نہیں آنے دیتی اور ہنگامہ آرائی میں قانون منظور کروانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسا ہی ایک متنازع قانون بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو اپیل کا حق دینے کے لئے حال ہی میں منظور کروایا گیا ہے۔ اس قانون کو 20 دیگر قوانین کے ساتھ ملاکر اکٹھا منظور کروایا گیا تھا۔ اپوزیشن کے شدید احتجاج ، کورم کی کمی کے دعوؤں اور قانون کی کمزوریوں کی نشاندہی کے باجود حکومت نے اس معاملہ پر بحث نہیں ہونے دی۔ اس پس منظر میں اب بجٹ بل کے حوالے سے حکمت عملی میں حکومت کا خوف محسوس کیا جاسکتا ہے۔

اس معاملہ کا دوسرا اہم اور افسوسناک پہلو البتہ یہ ہے کہ حکومت ایک طرف بجٹ پر بحث سے کترا رہی ہے تو دوسری طرف اسے بجٹ منظور کروانے کے لئے اکثریت حاصل کرلینے کا کامل یقین ہے۔ ورنہ انتہائی قلیل اکثریت کے ساتھ اقتدار سنبھالے ہوئے کوئی حکومت معمول کے پارلیمانی ماحول میں ایسا اشتعال انگیز رویہ اختیار نہیں کرے گی جو اس وقت تحریک انصاف نے اپنایا ہے۔ اس طرز عمل سے تو یہی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حکومت کو یقین دلوایا گیا ہے کہ کچھ بھی ہوجائے بجٹ دستاویز منظور ہوجائے گی اور اس مرحلے پر عمران خان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ہر لیڈر کو اپنے ساتھیوں پر اعتماد ہوتا ہے لیکن جب کسی لیڈرکی پارٹی کو پارلیمنٹ میں واضح اکثریت ہی حاصل نہ ہو تو اس کے غیر ضروری اعتماد کے پس پردہ کچھ عوامل ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ان عوامل کو اسٹبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔

عمران خان کی واضح ہدایت پر تحریک انصاف قومی اسمبلی میں جس پالیسی پر کاربند ہے اس سے ’نامزد‘ ہونے کی پھبتی کو خود عمران خان اور ان کے ساتھی ہی درست ثابت کرنے کا جتن کررہے ہیں۔ یہ ایک ثانوی بحث ہے کہ عمران خان کی سیاست کو اس کا کیا فائدہ یا نقصان ہوگا لیکن ملکی جمہوریت کو ضرور اس سے ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ عمران خان بوجوہ ملک میں جمہوریت کو ناکام قرار دینے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔ کیا یہ حکمت عملی ان کے کسی نئے سیاسی ایجنڈے کا ایک پہلو ہے؟

آج کی ہنگامہ آرائی کے بعد پشتون تحفظ موومنٹ کے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کا کہنا ہے کہ ’آج کا دن پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں بدترین موقع تھا۔ آج ان لوگوں کی ہدایت پر جمہوریت اور پارلیمنٹ کی توہین کی گئی جنہیں پارلیمنٹ میں نامزد کیا گیا ہے حالانکہ وہ اس اہل نہیں ہیں‘۔ اس تبصرہ سے انکار ممکن نہیں ہے۔ جاننا چاہئے کہ سرکاری صفوں میں وہ کون سے عناصر ہیں جو ملک میں جمہوریت کو ناکام دیکھنے میں ہی اپنا فائدہ سمجھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments