چالیس برس سے گھر گھر سبزیاں بیچ کر تنہا بچے پالنے والی باہمت حلیمہ بی بی

شہزاد ملک - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نارووال


حلیمہ بی بی
’کسی نے روٹی دے دی تو وہ کھا لی، کسی نے جمعرات کی نیاز دی تو اس پر گزارا کر لیا، کسی نے گیارہویں شریف کے ختم کا کھانا دیا تو وہ استعمال کر لیا، فطرانہ ملا تو وہ بھی قبول کر لیا۔۔۔ مگر پھر اندر سے آواز آئی کہ یہ کام ٹھیک نہیں۔ اس کے بعد ٹوکرا سر پر اٹھا کر سبزیاں بیچنا شروع کر دیں۔‘

یہ کہنا ہے ضلع نارووال کی تحصیل بسرہ جالا کی رہائشی 70 برس کی حلیمہ بی بی کا، جن کے خاوند انھیں شادی کے دس برس بعد چھوڑ کر چلے گئے اور دوسری شادی کر لی۔ صرف اسی پر بس نہیں ہوئی کیونکہ چھ بچوں کی کفالت بھی حلمیہ بی بی کے ناتواں کندھوں پر ڈال دی۔

’وہ (شوہر) میرے پھوپھی زاد بھائی تھے، نہ تو اُن سے کوئی جھگڑا ہوا اور نہ ہی وہ طلاق دے کر گئے اور نہ ہی انھوں نے دوسری شادی کے بعد اپنے بچوں کی کچھ خبر لی۔‘

حلیمہ بتاتی ہیں کہ جس وقت اُن کے خاوند انھیں چھوڑ کر گئے اُس وقت اُن کی بڑی بیٹی کی عمر صرف نو سال تھی جبکہ سب سے چھوٹا بیٹا ابھی اُن کی گود میں تھا۔

’کچھ عرصہ تو میں نے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے لوگوں کی طرف سے ملنے والا کھانا اور غریبوں میں ثواب کی غرض سے تقسیم ہونے والی نذر و نیاز قبول کی لیکن اس کے بعد ضمیر نے جھنجوڑا کہ کیا ایسا ساری عمر کیسا چلے گا اور کیا میرے بچے ہمیشہ دوسروں کے ٹکڑوں پر پلیں گے اور اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو بچے کس طرح معاشرے میں سر اٹھا کر جی سکیں گے۔‘

حلیمہ بتاتی ہیں کہ ’میں اگر چاہتی تو دوسری شادی کر سکتی تھی کیونکہ میں اُس وقت جوان تھی لیکن یہ سوچ کر شادی نہیں کی کہ ان چھ بچوں کا حقیقی باپ اِن کو چھوڑ کر چلا گیا ہے تو دوسرا شوہر کیسے سوتیلے بچوں کو برداشت کرے گا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ وہ دن گیا اور آج کا دن آیا مگر انھوں نے شادی کا خیال ہی دل سے نکال دیا اور اپنی ساری توجہ اپنے بچوں پر مرکوز کرتے ہوئے محنت مزدوری کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کی ٹھان لی۔

حلیمہ بی بی

’شروع میں کسی کی سبزیاں سر پر اٹھا کر قریبی گاؤں دیہات میں بیچ آتی تھی، جس سے مجھے بھی کچھ رقم مل جاتی تھی لیکن دوسروں کی سبزیاں فروخت کر کے ملنے والے پیسوں سے میرا اور میرے بچوں کا پیٹ نہیں بھرتا تھا۔‘

حلیمہ کو اپنے والد کی طرف سے ورثے میں گاؤں میں دو کنال اراضی ملی تھی جس پر انھوں نے اپنی سبزیاں اُگانے کی ٹھانی۔

وہ بتاتی ہیں کہ ابتدا میں انھوں نے کھاد اور بیج خریدنے کی غرض سے کسی سے دو سو روپے ادھار لیے اور کام شروع کر دیا۔

’کچھ عرصہ تو دن میں ایک وقت کا ہی کھانا پکتا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حالات میں کچھ بہتری آتی گئی جس کی وجہ سے اب بچے رات کو بھوکے نہیں سوتے تھے۔‘

حلیمہ بی بی کھیتی باڑی کی غرض سے صبح سویرے یعنی پانچ بجے کے قریب اپنی زمین پر چلی جاتیں اور وہاں پر فصلوں کو پانی دینے کے علاوہ جڑی بوٹیاں تلف کرتی اور کیاریوں کی گوڈی کرتیں۔

اُن کے گاؤں بسرہ جالا میں پانچ، چھ پانی کے کنویں ہیں جو کہ پرانے زمانے میں کھیتی باڑی کے کام آتے تھے اور خوش قسمتی سے پانی کا ایک کنواں حلیمہ بی بی کی دو کنال زمین کے پاس بھی تھا۔

پاکستان کے دیہی علاقوں میں اب پانی کے ایسے کنویں ختم ہو کر رہ گئے ہیں کیونکہ لوگوں نے کھیتی باڑی کے جدید طریقے اپنا لیے ہیں۔

’شروع میں میرے وسائل بہت کم تھے اور جس دن فصل کو پانی دینا ہوتا تھا تو اُس دن کے لیے میں کسی سے گدھا مستعار لے کر اس کو رہٹ کے آگے جوتتی جس سے کنویں سے پانی نکلتا اور میں اپنی زمین کو سیراب کرتی۔‘

حلیمہ بی بی کے بقول کنویں کا مالک اُن سے پانی کے پیسے نہیں لیتا تھا۔

حلیمہ بی بی

انھوں نے کہا کہ وہ اپنی زمین پر سبزیاں وغیرہ کاشت کرتیں اور جب یہ سبزیاں تیار ہو جاتیں تو وہ انھیں ٹوکرے میں ڈال کر قریبی گاؤں میں فروخت کرتیں۔

انھوں نے بتایا کہ جب اُن کے بیٹے جوان ہوئے تو وہ بھی محنت مزدوری کرنے لگے۔ ان کے تین بیٹوں میں سے ایک بیٹا اینٹوں کے بھٹے پر کام کرتا ہے جبکہ دوسرا بیٹا گھروں کی تعمیر کے لیے بطور مزدور کام کرتا ہے۔ یہ دونوں بیٹے اپنی اپنی فیملی کے ساتھ الگ الگ گھروں میں رہتے ہیں جبکہ سب سے چھوٹا بیٹا حلمیہ بی بی کے ساتھ رہتا ہے۔

ستر برس کی حلیمہ بی بی اب نانی اور دادی بن چکی ہیں مگر سر پر ٹوکرا رکھ کر سبزیاں فروخت کرنے کا جو کام انھوں نے 40 برس قبل شروع کیا تھا وہ آج بھی جاری ہے۔

’اس سارے عرصے کے دوران شاید میں نے ایک ماہ کی چھٹی کی ہو گی۔ جیسا کہ اپنے بیٹے بیٹیوں کی شادی کے مواقع پر اور پھر پوتے، پوتیوں یا نواسے نواسیوں کی پیدائش کے موقع پر۔‘

یہ بھی پڑھیے

مردوں کی دنیا میں عزت کے ساتھ کاروبار کرنے والی ’ماں جی‘

’بھیک مانگنے سے اچھا ہے فٹ بال بناؤں‘

’مجھے دیکھیں، مجھے فخر ہے اپنےآپ پر!‘

انھوں نے بتایا کہ ان کا چھوٹا بیٹا ان کے ساتھ رہتا ہے اور جب کبھی اُن کی چھوٹی بہو نے کپڑے دھونے ہوں تو وہ کچھ دیر کے لیے کھیتی باڑی چھوڑ کر گھر چلی جاتی ہیں تاکہ ان کے بچوں کو سنبھال سکیں اور جب اُن کی بہو کپڑے وغیرہ دھو لیتی ہے تو وہ دوبارہ کھیتی باڑی کے لیے زمینوں کا رُخ کر لیتی ہیں۔

حلیمہ بی بی

کھیتی باڑی کے دوران جب حلیمہ بی بی تھک جاتی ہیں تو وہ آرام کی غرض سے درخت کی چھاؤں کے نیچے بیٹھ کر اپنی تھکاوٹ کو دور کر لیتی ہیں۔

’مالی حالات اب بھی اتنے اچھے نہیں ہیں، اس لیے روزی کما کر لائیں گے تو کھائیں گے۔‘

حلیمہ بی بی کا کہنا ہے کہ اب چونکہ وہ بوڑھی ہو گئی ہیں تو اس لیے ان کا بیٹا کھیتی باڑی میں اُن کا ہاتھ بٹاتا ہے۔ حلمیہ بی بی کا کہنا ہے کہ ذمہ داریاں زیادہ ہونے کی وجہ سے انھوں نے کچھ عرصہ قبل کھیتی باڑی کے لیے کچھ زمین سالانہ ٹھیکے پر لی تھی اور اب اُن زمینوں پر بھی سبزیاں کاشت کی ہوئی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ جب کبھی فصل اچھی ہو جاتی ہے تو اُن کا بیٹا سبزی منڈی جا کر اسے فروخت کر آتا ہے جس سے کچھ بہتر آمدن ہو جاتی ہے۔

حلیمہ بی بی

حلمیہ بی بی اس بات پر فخر محسوس کرتی ہیں کہ انھوں نے اپنی محنت کی کمائی سے بچوں کو جوان کیا اور ان کی شادیاں کیں اور آج بھی اپنی ہاتھوں سے کمائی ہوئی روزی کھا رہی ہوں۔

انھیں اِس بات پر بھی فخر ہے کہ وہ اس عمر میں بھی اپنے بچوں پر بوجھ نہیں ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں اپنے شوہر کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے بیزار لہجے میں کہا ’جو شخص اب میری زندگی میں شامل ہی نہیں ہے تو پھر اس کے بارے میں بات کرنا، اُس کو اہمیت دینے کے مترادف ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ان کے خاوند نے ’کبھی ان کی ایک روپے تک کی بھی مدد نہیں کی اور حتیٰ کہ پلٹ کر دوبارہ کبھی نہیں پوچھا، تو ایسا شخص کس کو اچھا لگتا ہے؟ اُس کو نہ بچے بلاتے ہیں اور نہ ہی میں اس کو گھر آنے کی اجازت دوں گی۔‘

حلمیہ بی بی ایک کمرے کے گھر میں رہتی ہے جس کے صحن میں سیڑھیاں اُتر کر جانا پڑتا ہے۔ ’مہنگائی کی وجہ سے مشکل سے روزمرہ کا خرچہ پورا ہوتا ہے، اگر پیسے ہوتے تو میں مکان نہ بنوا لیتی۔‘

فارغ اوقات میں حلمیہ بی بی بھی سنہرے خواب بُنتی ہیں۔ ’جب میرے پاس پیسے آئیں گے تو میں کہیں جگہ لے لوں گی، اینٹیں منگواؤں گی، سمینٹ منگواؤں گی اور گھر تعمیر کرواؤں گی، جہاں میں اپنی عمر کا آخری حصہ اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ گزاروں گی۔‘

اپنے اس خواب کو بیان کرتے ہوئے حلیمہ بی بی کی آنکھوں میں ایک خاص چمک تھی، جو اس بات کی غماز تھی کہ انتہائی نامساعد حالات میں پوری زندگی گزارنے کے باوجود بھی وہ حالات سے مایوس نہیں ہیں۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32499 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp