عوام تو عوام ہوتے ہیں


آمروں سے اشتراکیوں تک اور نازیوں سے جمہوریت کا قصیدہ پڑھنے والوں تک، آخر سبھی عوام عوام کرتے ہوئے، عوام کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار کی سیڑھیاں چڑھ کر جب سنگھاسن پر جا براجمان ہوتے ہیں تو وہی کیوں کرتے ہیں جو وہ چاہتے ہیں یا جو کرنے کو وہ بہتر خیال کرتے ہیں؟ محض اس لیے کہ مسئلوں کا تعلق عوام کے ساتھ ہی ہوا کرتا ہے اور جاہ و مناصب کے کوشی ان مسائل کا جاپ نہیں کریں گے تو ان کی بھلا کون سنے گا۔

آمر تو عموماً آمر بننے کے بعد ہی اس کھیل کو اپنے ہاتھ میں لیا کرتے ہیں۔ اشتراکیوں کا کھیل ہی ”مزدور طبقے کی آمریت“ کے نام سے شروع ہوا کرتا تھا مگر تاریخ گواہ ہے کہ ایک بھی مزدور مقتدر نہیں ہوا۔ یہ اور بات ہے کہ اشتراکی انقلابات برپا ہونے کے دو تین عشروں بعد مزدور سے شروعات کر کے، تعلیم حاصل کرنے والے اور مقتدر حلقوں کی اشیر باد پانے والے چند لوگ ضرور اوپر تک پہنچے لیکن وہاں پہنچتے پہنچتے یا تو وہ خود ”کسی اور طبقے“ کے لوگ بن جایا کرتے تھے یا ان کی نفسیات میں بچپن سے اٹکی ہوئی گھنڈیاں کچھ اور ہی طرح کے گل کھلایا کرتی تھیں۔

سوویت یونین کی مثال لیتے ہیں، لینن، تروتسکی، کامینوو اور نام لیتے جائیں ان میں سے بھلا کون مزدور رہا تھا یا مزدور طبقے سے تھا، لے دے کے ایک نام ہے ستالن (ایوسف جوگاش ولی) کا کہ موچی کا بیٹا تھا اور عیسائی مدرسے (سیمینری) کا فارغ التحصیل تھا، اس کے ساتھ کیا کیا ظلم و تعدی منسوب نہیں۔ دوسرا خروشچیف تھا، ملک بھر میں بلا جواز ساری فصلوں کو چھوڑ کر بیکار مکئی کی فصلیں اگائے جانے کا حکم دینے سے لے کر مصوروں کو سرعام ذلیل و رسوا کرنے تک کیا کیا حماقتیں اور زیادتیاں اس سے سرزد نہیں ہوئی تھیں بالآخر ”اشتراکی تاریخ“ کا واحد رہنما تھا جسے اس کے عہدے سے اس کی زندگی میں ہٹا دیا گیا تھا۔

نازی تو ایک ہی تھا بڑا اور باتصویر یعنی ایڈولف ہٹلر۔ نیشنل سوشلزم یا قومی اشتمالیت کا نام لیتے ہوئے عوام پر اپنی گرفت کو مضبوط کیا پھر اس نے جرمن عوام کے ساتھ جو سلوک کیا تھا اس پر میں اور آپ کیا کہیں، ساری دنیا کہتی ہے۔ جمہوریت کا قصیدہ پڑھنے والے تو عوام کی مدد کے بغیر اقتدار میں آ ہی نہیں سکتے اور جمہوریت بنیادی طور پر ہے ہی مغربی جمہوریت جو یونان میں پیدا ہوئی، برطانیہ میں پروان چڑھی پھر یورپ بھر میں اور اس باہر پھیل گئی۔

سونے پر سہاگہ یہ کہ مغربی ہی نہیں بلکہ یہ مظہر سرمایہ دارانہ بھی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کے کنڈوں کے ساتھ جھولتے ہوئے نیچے سے اوپر جانے والوں میں خال خال عوام نما افراد کے وہی اقتدار کے ایوانوں میں جا فروکش ہوتے ہیں جن کی کلغیوں میں اگر ستارے نہ سہی تو موتی ضرور ٹکے ہوتے ہیں۔ پر کیا کیا جائے کہ اس سے بہتر طرز حکومت تاحال موجود نہیں ہے۔

یہ درست ہے کہ جہاں دولت کی ریل پیل کے سبب تعلیم عام ہوئی، روشن خیالی نے زور پکڑا، وہاں عوام کی پیشہ ورانہ اور بعض پراز مقاصد تنظیموں کے بننے اور مضبوط ہونے سے آسودہ حال مقتدر افراد مجبور ضرور ہوئے کہ عوام کی بھلائی کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولتیں اور حقوق کی فراہمی کی خاطر کام کریں۔ کیا پتہ اگر نوآباد کاری اور صنعتی انقلاب کے ادوار نہ آتے تو آج ان ترقی یافتہ اور نسبتاً عوام دوست ملکوں میں جمہوریت کا حال کیا ہوتا۔

تو کیا عوام اقتدار میں آنے والوں کا ساتھ دینا چھوڑ دیں؟ نہیں ایسا نہ تو کیا جا سکتا ہے اور نہ کرنا چاہیے۔ کیا اس لیے نہیں جا سکتا کہ پھر اقتدار کے ایوان میں جانے کا طریقہ غیر جمہوری ہو جائے گا اور کرنا اس لیے نہیں چاہیے کہ پھر اقتدار کے ایوان میں عوام کے مسئلوں سے متعلق بات بھلا کیسے ہوگی؟ تو کیا عوام یونہی زیرپاء رہیں گے؟ ایسا بھی نہیں ہوگا کیونکہ تاریخ اور حالات ہوتے ہی بدلنے کے لیے ہیں۔ ہاں البتہ اگر عوام پرانی دھر پر قائم رہیں تو یہ عمل بہت طویل اور مبہم ضرور ہو جایا کرتا ہے۔ مگر عوام اپنی نفسیات سے تب تک جان بھی تو نہیں چھڑا سکتے جب تک تعلیم اور آسودگی ان کی سوچ کو بہتر نہیں بنا دیتی۔ یعنی عوام، اقتدار، مقتدر لوگ، عوام کی بھلائی یہ سب آپس میں گندھے ہوئے ہیں۔

ایک بات طے ہے کہ ملک سے زمیندارانہ سوچ ختم کرنے کی غرض سے صرف ان لوگوں کو ہی ووٹ دیے جائیں جن کی زمینیں نہ ہوں اور جو خالصتاً تجارت اور صنعت سے وابستہ ہوں۔ یہاں بھی ایک مسئلہ ہے کہ پاکستان جیسے ملکوں میں جو دنیا میں اب کم رہ گئے ہیں، زمیندار بھی تجارت اور صنعت سے وابستہ ہو گئے ہیں۔ اس میں البتہ ایک تخصیص کی جا سکتی ہے کہ جس شخص کی زمین ڈھائی سو ایکڑ سے زیادہ ہو اسے اپنے ووٹوں کے زور پر اقتدار میں آنے سے روکا جائے۔ ایسا کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ اتنی کم زمین کے حامل لوگ عموماً جاگیردار یا بڑے زمیندار طبقے سے نہیں ہوتے۔ یہ زمین یا تو انہوں نے خود خریدی ہوتی ہے یا تقسیم در تقسیم کے بعد ان کی جاگیردارانہ خان پڑ کی ہوتی ہے۔

دوسرا طریقہ زیادہ سے زیادہ پیشہ ورانہ اور پراز مقاصد تنظیمیں بنانا ہے جو لوگوں کو باشعور کریں اور مقتدرین کو باور کرائیں کہ دنیا میں آ رہیں دور رس تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ انہیں بھی تبدیل ہونے کی ضرورت ہے۔ انہیں عوام کو صرف اپنے مقصد کی خاطر استعمال ہی نہیں کرنا چاہیے بلکہ عوام کی خاطر خود بھی استعمال ہونے کی عادت اپنا لینی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments