ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتے کالم سے


عبقری شخصیات جب بھی اپنے نظریات پیش کرتی ہیں تو دھتکار دی جاتی ہیں، ناموں کی ایک طویل فہرست ہے۔ ابو الکلام آزاد اس فہرست میں اول درجہ پر ہیں، مولانا کی شخصیت کے ہر پہلو کا جائزہ اگر آپ لینا چاہتے ہیں تو آغا شورش کاشمیری کی تصنیف ”ابوالکلام آزاد“ زیر نظر کرنا ہو گی، سکولوں میں پڑھائی جانے والی تاریخ پاکستان کی بنیاد پر اپنے دلائل پیش کرنے والوں کے لیے یہ کتاب شمالی کوریا کے ہائیڈروجن بم سے کم نہیں ، خاص طور پر پاکستان سے متعلق مولانا کی پیشین گوئیاں تو گویا زہر آلود نشتر ہیں جو دل کے مقام پر سینے میں پیوست ہو جائیں گی، اب خدا جانے مولانا نے یہ پیشین گوئیاں کرنے پر قادر کیوں کر ہوئے جو حرف بہ حرف پوری ہوئیں، مولانا کو الہام ہوا تھا یا ان کی دور اندیش نگاہوں نے افق پر وہ آثار دیکھ لیے تھے جن کو دیکھنے سے مسلم لیگ والے عاجز تھے، مولانا نے فرمایا تھا کہ پاکستانی فوج سیاہ و سفید کی مالک بن کر اقتدار کی مسند پر براجمان ہوتے ہوئے شاہی کلاہ اپنے سر پر سجا لے گی (معلوم نہیں آپ یہ فقرہ پڑھ پائیں گے یا آپ کے پڑھنے سے پہلے ہی مدیر اپنی قینچی چلا دیں گے ) ، ایسا ہی ہوا، پاک فوج نے باگ ڈور ایسی سنبھالی کہ اٹلی کا مسولینی اور جرمنی کا ہٹلر اگر زندہ ہوتے تو حیرت چہرے پر سجائے عش عش کر اٹھتے کہ جو کام کرنے سے ہم قاصر رہے وہ کسی اور نے کر دکھایا (شاید عالم ارواح میں دونوں اکٹھے ہو کر پچھتا رہے ہوں گے کہ ہم ایسا کیوں نہ کر سکے)، ان دونوں کی آمریت کے ساتھ اگر بنو امیہ و عباس کی بادشاہت کا جبر بھی اگر کسی بد قسمت ملک پر مسلط کر دیا جائے تو پھر بھی تحریر شائع ہو جائے جو ہمارے ہاں شائع نہ ہو سکی، تحریر کیا تھی، ہلکی پھلکی سی گواہی تھی جو مصنف نے دی، مگر مصنف خود اپنا ہی شعر بھی بھول گئے وگرنہ کیا ضرورت تھی کہ سنسر شپ کے دیو کو یوں بے لباس کیا جائے۔

لب سی دیے گئے مگر لازم ہے احتیاط
ایسا نہ ہو کہیں کسی منہ میں زباں بھی ہو

سبھی کے لبوں کو سی دیا گیا ہے، کسی زمانے میں پھٹے ہوئے کپڑوں کو رفو کیا جاتا تھا مگر اب لبوں کو سیا جاتا ہے، لبوں کو تو خیر سی دیا گیا ہے مگر ڈاکٹر خورشید ندیم اور اپنے صاحب تیشہ نظر دست و قلم سے کام چلا رہے ہیں، جب ہر طرف گھپ اندھیرا چھایا ہو تو دو فقط دو چراغوں کے جلنے سے فضا کہاں منور ہوتی ہے، ویسے ہر زمانے میں ہی ایک دو چراغ جلے ہیں، اکسٹھ ہجری میں رسالت مآبﷺ کے نواسے نے چراغ جلایا تھا، سر کٹ گیا مگر ان کی تعلیمات اور عزیمت کا چراغ آج بھی طمطراق کے ساتھ جل رہا ہے، شاید چراغ کو دوام بخشنے کے لیے جان سے گزرنا پڑتا ہے، شاعر اسی لیے تو تڑپا تھا۔

دور باطل میں حق پرستوں کی
بات رہتی ہے مگر سر نہیں رہتے

خوف کی ایک اوزون ہمارے اوپر قائم کر دی گئی ہے، آزادانہ سوچنے والوں کو رزق زندان بنا دیا جاتا ہے بنا کسی مقدمے کے، بنا کسی عدالت میں پیش کیے، اگر کسی پر رحم کر دیا جائے تو اس کی روح کو مشکلات کے قفس سے آزاد کر دیا جاتا ہے، یہ لوگ کیوں کر ہمارے اوپر مسلط ہو گئے ہیں جب کہ ہم تو آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں، کہتے ہیں کہ ہم نے انگریزوں سے آزادی اس لیے حاصل کی تھی کہ آزادی کی نعمت کا مزہ چکھ سکیں، مزہ تو خیر ضرور چکھا مگر آزادی کا نہیں بلکہ آقاؤں کی تبدیلی کا، انگریز اگر الہلال و البلاغ و زمیندار کو بند کرتا تھا تو نئے آقا قومی اخبار، آغاز، اور عوام کو بند کرتے رہے، انگریزوں نے اگر مولانا ظفر علی خان اور حسرت موہانی کو اگر قید میں ڈالا تو نئے آقاؤں نے فیض اور جالب کو پس زندان کیا، پس زندان کیے جانے پہ ہی بس نہ ہوئی، سنتے ہیں کہ کبیرہ جرائم کی پاداش میں پیٹھوں پر کوڑے بھی برسائے جاتے تھے، مگر دیکھ لیجیے کہ آخری فتح کس کو ہوئی، فیض و جالب نے تاریخ کے صفحات میں مقام دوام پایا جب کہ مخالفین تاریخ کی گرد تلے دب گئے، یہی سبق اگر نئے آقاؤں کے جانشین بھی سیکھ لیں تو بہتر ہو گا کہ ظلم مٹ جاتا ہے، پابندیاں ہٹ جاتی ہیں، لوگ آزادی حاصل کر لیتے ہیں، اس پودے کو جتنا تراشا جائے یہ اتنا ہی زیادہ پھوٹتا ہے، اگلے روز ایک محبی، جس کو ادب اور صحافت سے دور کا واسطہ بھی نہیں، پوچھنے لگا کہ تم نے صدیقی صاحب کا کالم پڑھا ہے، انجان بنتے ہوئے پوچھا کہ میاں کون سا کالم، کہنے لگا کہ وہی جس میں تاریخی گواہی ہے۔

پس تحریر: اگر کالم چھپ جاتا تو معمول کے قاری ہی مطالعہ کرتے مگر کالم نہ چھپنے سے وہ لوگ بھی پڑھنے پر قادر ہو گئے جن کو ادب و صحافت سے دور کا واسطہ بھی نہیں تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments