تعلیمی اداروں میں کچھ بنیادی سہولتوں کی فراہمی


یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقی کے لئے تعلیم ایک ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ تعلیم ہی وہ واحد اوزار ہے جس کی مدد سے ایک قوم کے ننھے منے پودوں کی تراش خراش کر کے ان کو قد آور اور ثمر بار درخت کی صورت میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ تاریخ پر نظر دوڑائیں کہ جس قوم نے تعلیم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا، وہ عوج ثریا تک جا پہنچی۔ اسلام جس کی پہلی وحی کا پہلا حرف ہی ”اقراء“ ہے، اس نے ہمیشہ تعلیم پر زور دیا ہے لیکن جیسے ہی کوویڈ انیس کو دنیا میں متعارف کیا گیا، پاکستان میں اس عالمی وبا کا پہلا ہدف ”تعلیمی ڈھانچہ“ قرار پایا۔

لاک ڈاؤن ہو یا نہ ہو، مارکیٹیں، پلازے، شادی ہال، پبلک ٹرانسپورٹ، کاروباری مراکز تو کھلے ہوتے ہیں۔ عوامی جگہوں پر بھی عوام کا جم غفیر موجود ہوتا ہے لیکن تعلیمی ادارے سب سے پہلے بند کر دیے جاتے ہیں۔ مارچ 2020 ء سے لے کر آج تک مختلف حیلوں بہانوں سے تمام تعلیمی اداروں کے دروازے مستقل بند رکھنے کی بھر پور کوشش کی گئی۔ اگر میری اور آپ کی یاداشت کمزور نہیں تو مجھے یہ بھی یاد ہے کہ کوویڈ انیس سے پہلے موجودہ وزیر تعلیم پنجاب نے شدید سردی اور دھند کو بہانہ بناتے ہوئے ہمارے بچوں کو تقریباً ڈیڑھ ماہ گھر میں ہی مقید رکھا۔

مجھے وہ مضمون یاد ہے کہ جس میں، میں نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ ایک عام روم ہیٹر 500 سے 1000 روپے تک بازار مین دستیاب ہے اور اگر ہر کمرہ جماعت میں صرف ایک سے ڈیڑھ ماہ میں تین سے چار گھنٹے وہ ہیٹر جلا کر تعلیم دے دی جاتی تو اس تعلیمی نقصان سے ہزار گنا کم تھا جو اس دوران ہماری قوم کے بچوں کا ہوا۔ موجودہ حالات کا بغور جائزہ لیں کہ حکومت پاکستان نے جیسے ہی 7 جون سے سکول کھولنے کا اعلان کیا تو صوبہ پنجاب کے چند شہروں میں غیر علانیہ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے کچھ بچے بے ہوش ہو گئے اور چند طلباء و طالبات جو نکسیر کے مریض تھے، ان کو نکسیر کی وجہ سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔

ان اکا دکا واقعات کا سہارا لیتے ہوئے تعلیم اور وطن دشمن عناصر نے الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر وہ اودھم مچایا کہ ہمارے موجودہ وزیر تعلیم کو با امر مجبوری جولائی میں شدید گرمی کی وجہ سے سکول بند کرنے کا عندیہ دینا پڑا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ صورت حال میں کیا ہم شدید گرمی، سردی اور کرونا کا سہارا لیتے ہوئے قوم کو غیر تعلیم یافتہ رکھنے کی سازش میں بالواسطہ یا بلا واسطہ شریک ہیں؟

بجٹ کی ایک خبر میرے سامنے ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صرف جنوبی پنجاب کے لئے، سکول ایجوکیشن کی مد میں 15 ارب 36 کروڑ روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے لیکن مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ ابھی تک پنجاب کے سیکڑوں دیہی سکولوں میں بجلی اور پانی جیسی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے کجا یہ کہ کرونا جیسی موذی وبا کے دوران سکول کیسے کھولے جائیں۔ ایک تصویر اکثر میری نظروں کے سامنے گردش کرتی رہتی ہے جس میں بنکاک کے واٹ خلونگ توئی اسکول میں پڑھنے والے تقریباً 250 طلبا و طالبات تعلیم و تدریس کے دوران پلاسٹک کے ڈبوں میں بیٹھتے ہیں اور انہیں پورا دن اپنے چہرے پر ماسک بھی پہننا پڑتا ہے۔

ہر کلاس روم کے باہر صابن اور پانی رکھا جاتا ہے۔ جب طلبا صبح اسکول پہنچتے ہیں تو ان کا جسمانی درجہ حرارت بھی چیک کیا جاتا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اسکول میں کبھی بھی کوویڈ انفیکشن کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔ ظاہر ہے کہ ان پلاسٹک کے ڈبوں، صابن اور ماسک کی سہولت تھائی لینڈ حکومت نے ہی زیر تعلیم بچوں کو مہیا کی ہو گی۔ موسم کی شدت اور عالمی وبا دو ایسے بنیادی عناصر ہیں جن سے نمٹنا حکومت وقت کا لازمی فریضہ ہوتا ہے لیکن ان دونوں مصائب سے بچاؤ کے سکولوں اور تعلیمی اداروں کی بندش ہمیشہ سے میری سمجھ سے باہر رہی ہے۔

لوڈ شیڈنگ کا توڑ ہمارے سکولوں میں سابقہ حکومت نے سولر سسٹم کی تنصیب سے کیا لیکن میرے مشاہدے میں یہ آیا ہے کہ اکثر پرائمری سکولوں کے سولر سسٹم، سکول بند ہونے کی وجہ خراب ہو گئے ہیں لیکن موجودہ ہیڈ ٹیچر ان کی خرابی کو مقامی کاریگروں سے دور کروانے کے مجاز نہیں ہیں اور جس کمپنی نے ان کی تنصیب کی ہے ان کو فنڈز کی ادائیگی کی جائے گی تو وہ سولر سسٹم ٹھیک طرح سے کام کریں گے۔ یاد رہے کہ اگر یہ سولر سسٹم درست انداز میں کام کریں تو کسی بھی سکول میں کسی بچے کے بے ہوش ہونے کا واقعہ نہ ہو۔

جہاں تک میرے مشاہدے کی بات ہے، ہمارے ملک میں کچھ ناپسندیدہ عناصر سوشل میڈیا کے ذریعے تعلیم مخالف پروپیگنڈا میں مصروف عمل ہیں اور اپنے ان مذموم مقاصد کے حصول کے لئے وہ اپنے اپنے سائبر گروپس یا کمپیوٹر باٹ کی مدد سے ہر اس ویڈیو کو وائرل کرتے ہیں جس کی وجہ سے بچوں پر سکول کے دروازے بند کیے جا سکیں۔ یاد رہے کہ اکثر چھوٹے چھوٹے نجی سکول کرائے کی عدم ادائیگی کی وجہ سے بند ہو گئے اور بقیہ نجی اداروں میں نئے داخلے نہ ہونے کے ساتھ ساتھ طلباء کی ڈراپ آؤٹ شرح میں 50 سے 60 فیصد اضافہ ہوا ہے اور ایسے بڑے ادارے جن کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ تھی اب چار یا پانچ سو کے قریب ہو چکی ہے، جس کا بنیادی سبب والدین اور معاشرے کی تعلیم میں عدم توجہی، بے روزگاری اور مہنگائی ہے۔

موجودہ حکومت بھی زبانی جمع خرچ کے علاوہ ان مسائل کا کوئی ٹھوس حل پیش نہیں کر سکی۔ گزشتہ سال آن لائن تعلیم کے نام پر تمام طلباء و طالبات کے مستقبل کے ساتھ جو کھلواڑ کیا گیا، اس کی تلافی آئندہ دس سال میں بھی نہیں ہو سکتی۔ دیہی علاقوں میں انٹر نیٹ کی عدم دستیابی، غربت، طلباء اور اساتذہ کے درمیان فاصلے اور انٹر نیٹ کے بار بار رک جانے کی وجہ سے کوئی بھی سیکنڈری، ہایئر سیکنڈری، کالج اور یونیورسٹی کا طالب علم اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ موجودہ امتحان اعلیٰ نمبروں سے تو کجا پاس ہی کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر طلباء امتحانات میں بیٹھنے سے بھی نالاں ہے، لیکن جہاں تک میرا مشاہدہ ہے اہل اختیار نے اس کے لئے بھی امتحانی نمبرات کی بندر باٹ کا ایک باقاعدہ منصوبہ بنا رکھا ہے۔

موجودہ شدید گرمی کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ تو کر لیا گیا ہے کہ ادارے ایک ماہ کے لئے بند رکھے جائیں گے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کرونا کی چوتھی لہر کے آنے کی خبر بھی گردش کر رہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یکم اگست سے جیسے ہی تعلیمی ادارے کھلیں گے ان کو فی الفور بند کر دیا جائے گا کیونکہ موجودہ حکومت کو اپنی قوم کے بچوں کی صحت کا اتنا خیال ہے کہ وہ قوم کے مستقبل کو پس پشت ڈالنے کے درپے ہے۔ کسی بھی ریاست کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو تعلیم دینے کا بندوبست کرے بلکہ مناسب تعلیمی ماحول بھی مہیا کرے۔

اقوام متحدہ کی سابق خصوصی مندوب برائے رائٹ ٹو ایجوکیشن نے تعلیم جیسے بنیادی حق کے لئے چار معیاری اصول ترتیب دیے، جن میں فراہمی، رسائی، مطابقت اور قبولیت شامل ہیں۔ انگریزی زبان میں ان کے متبادل حروف Availability، ، Accessibility، Adaptability اور Acceptability ہیں، جس کی وجہ سے اسے FourA ’s کہا گیا ہے۔ ان اصولوں میں سب سے اہم اصول تعلیم کی فراہمی اور رسائی ہیں۔ ان دونوں مقاصد کے حصول کے لئے حکومت پاکستان کو چاہیے کہ تمام صوبوں کو اس امر کا پابند کرے کہ اندرون سکول بلا معاشی تفریق تمام بچوں کو سوشل ڈسٹنسنگ کے ساتھ ساتھ حفظان صحت کی تمام سہولیات بہم پہنچائے تا کہ تعطل کا شکار تعلیم و تدریس کے عمل کا شروع کیا جا سکے، نہ کہ کبھی شدید گرمی کو بہانہ بنا یا جائے تو کبھی شدید سردی اور دھند کو۔ اگر ایسا ہوتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب ہر سرکاری دفتر، سائنس لیبارٹری اور تعلیمی اداروں میں وہ افراد بھرتی ہوں گے جو نہ صرف بنیادی طور پر نا اہل ہوں گے بلکہ اپنے شعبے کے بنیادی اصول و ضوابط سے بھی نا بلد ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments