سیکولر ازم اور مذہب کی بحث


پیٹرک کنراس کی کتاب Ataturk The Rebirth of a Nation کا اردو ترجمہ آج کل پھر زیر مطالعہ ہے۔ کتاب کا اردو ترجمہ دانشور اور سیاسی کارکن فرخ سہیل گوئندی کے ادارے جمہوری پبلیکیشنز کے زیر اہتمام شائع ہوا۔ کتاب کے مطالعے کی ترغیب گرامی قدر محمود مرزا صاحب مرحوم نے دی تھی۔ ڈاکٹر الطاف جاوید صاحب مرحوم اور جناب محمود مرزا صاحب مرحوم کا شمار ان چند افراد میں ہوتا  تھا جن کی فکر اور عمل میں تضاد نہیں تھا۔ وہ جو سوچتے اور لکھتے تھے، اس میں اور ان کے عمل میں رتی برابر فرق نہیں۔ جنھوں نے ذاتی کشور کشائی، تشہیر اور خودنمائی کے ان طریقوں سے جن کا چلن عام ہے، اپنا دامن بچاتے ہوئے معاشرے کی فلاح کے لیے جو بہتر سمجھا وہ کسی بھی حرص کرم اور خوف خمیازہ کے بغیر لکھا ہے۔

کتاب کے مطالعے کے دوران کتاب کی تقریب رونمائی کی مجلس یاد آ گئی جس کے مقررین میں فرخ سہیل گوئندی، اعتزاز احسن اور میر حاصل بزنجو شامل تھے۔ فرخ سہیل گوئندی کا برہان قاطع تھا اور کسی حد تک درست بھی ہے کہ اگر ہم نے ترقی کرنی ہے تو ترکی ماڈل کو اختیار کرنا ہوگا۔ ان کے خطاب کا ہر ہر لفظ ترکی کی محبت میں گوندھا ہوا تھا۔ ان کے خطاب کی اہم بات جو پاکستانی معاشرے سے مطابقت رکھتی تھی وہ یہ کہ ”ہم ریکارڈ کی بجائے روایات پر یقین کرنے کے عادی ہوچکے ہیں“ ۔ یقیناً روایت پسندی خواہ وہ مذہب کے حوالے سے ہو، تاریخ کے حوالے سے ہو یا سیاست اور شخصیات کے حوالے سے ہو، اس نے مذکورہ تمام موضوعات اور معاشرے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ محترم گوئندی صاحب نے مذہب کے سیاسی اجارہ داروں پر تنقید کے ساتھ ساتھ طالبان اور داعش کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ان کا ایک مجاہد اپنی تین بیویوں کے ساتھ ایبٹ آباد میں پکڑا گیا لیکن چی گوویرا کی موت کے وقت ان کے بیگ سے کمال اتاترک کی وہ چھ روزہ تقریر جو نطق کے نام سے مشہور ہے، کے صفحات نکلے۔ گوئندی صاحب نے ملک کے دستور کے سیکولر اور لبرل ہونے کے حوالے سے بانی پاکستان کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کو بنیاد بنانے پر زور دیا۔ ان کا فرمانا بھی یہی تھا کہ مذہب کو ریاستی معاملات سے الگ ہونا چاہیے۔ میر حاصل بزنجو اور اعتزاز احسن کا بھی یہی کہنا تھا کہ ترکی کے ماڈل کو اختیار کرنا چاہیے اور مذہب کو سیاست سے الگ رکھنا چاہیے

بدقسمتی سے مذہب کی جتنی تعبیرات ہمارے اس خطے میں رائج ہیں انہوں نے اسلام کی حقیقی انقلابی تعلیمات کو مسخ کر کے رکھ دیا ہے، جس کے سبب ایک جدید مسلم ریاست کے قیام کی کوئی بھی سنجیدہ کوشش کامیابی سے ہمکنار ہی نہیں ہو سکی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مکتبہ فکر کی جانب سے سیاست کو مذہب سے الگ کرنے اور مذہب کو فرد کی حد تک محدود کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔

چند دہائیوں قبل دائیں بازو اور بائیں بازو کی سیاست زیر بحث ہوا کرتی تھی۔ عصر حاضر میں مذہب پسندی اور سیکولر ازم کی بحث گرم ہے۔ مغرب میں دائیں بازو اور بائیں بازو کی اصطلاحات جس پس منظر میں ابھریں اور جس طرح مغربی سیاست دائیں باز و اور بائیں بازو کے نظریات کی بنیاد پر تقسیم ہوئی وہ یہ تھیں کہ بائیں بازو کی سیاست تبدیلی اور مظلوم طبقات کی حمایت کی علمبردار تھی جب کہ اس کے برعکس دائیں بازو کی سیاست روایت پسندی اور سرمائے کے غلبے کی حامی تھی۔

مگر پاکستان میں یہ اصطلاحیں اپنے پس منظر سے ہٹ کر کفر و اسلام کی تقسیم قرار پائیں۔ یہی صورت حال عصر حاضر کے مسائل حل کرنے کے حوالے سے موجود ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان ہمیشہ انتہا پسندی کا شکار رہا ہے ایک طرف وہ انتہا پسند ہیں جو خود تو عہد حاضر کی تمام جدید ایجادات سے استفادہ کو اپنی شریعت کے نفاذ کے لیے موزوں سمجھتے ہیں لیکن عوام کو ثقافتی، تمدنی اور سماجی اعتبار سے صدیوں پرانے معاشرے میں لے جانا چاہتے ہیں۔ ان کے اپنے بچے تو دنیا کی اعلیٰ درسگاہوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں لیکن پاکستان میں وہ تعلیم اور خصوصاً تعلیم نسواں کے سب سے بڑے مخالف ہیں۔ سیکولر ازم کے حوالے سے ایک تضاد جماعت اسلامی میں بھی موجود ہے کہ پاکستان میں وہ اسلامی نظام کے نفاذ کی علمبردار ہے تو بھارت میں یہی جماعت سیکولرازم کی پرچارک ہے۔

دوسری جانب وہ طبقہ ہے جو لبرل ازم اور آزادی جیسی مثبت قدر کے نام پر انتہا پسندی کی اس حد پر ہے جہاں وہ کسی سماجی و مذہبی اخلاقیات اور قوانین کی پابندی کو درخور اعتنا ہی نہیں سمجھتا۔ ایک طرف جاگیر داری اور سرمایہ داری کے عفریت ہیں تو دوسری جانب کسانوں اور مزدورں کے مسائل کے نام پر اپنی قیمت لگوانے والا مافیا ہے۔ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ تحریک خواہ دائیں بازو کی ہو یا بائیں بازو کی، تحریک خواہ شریعت کے نفاذ کی ہو یا لبرل ازم اور سیکولر ازم کے فروغ کی، ہر تحریک پر اجارہ داری استعمار کے آلۂ کار مفاد پرست طبقات ہی کی رہی ہے، مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور اب تحریک انصاف اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ جہاں تک مذہبی جماعتوں اور ان کی تحریکوں کا تعلق ہے انہوں نے ہمیشہ مذہب کے نام پر آمروں اور بالا دست طبقات کے لیے راہیں ہموار کی ہیں۔ رہے پسے ہوئے طبقات اور مسائل کے انبار تلے دبے عوام تو وہ اپنی امیدوں اور تمناؤں کے باب میں بقول غالبؔ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ:

تھک تھک کے ہر مقام پر دو چار رہ گئے
تیرا پتہ نہ پائیں تو ناچار کیا کریں!

دانشور جناب خورشید ندیم نے اپنے ایک مضمون میں مذہب کو سیاسی عمل سے الگ رکھنے کی دو مثالیں دی ہیں۔ ایک مثال ترکی کی جہاں طیب اردوان جماعت سیکولرازم کو اصول مانتی ہے اور ان کا سیکولر ازم ان کی اسلامی شناخت سے متصادم نہیں ہے۔ دوسری مثال تیونس کی جہاں اسلامی تحریک ’النہضہ‘ کے رہنما راشد غنوشی نے بھی مسلم ڈیموکریٹس کے تصور کو اختیار کیا اور اپنی سیاسی جماعت میں بھی مذہب کو سیاسی عمل سے الگ کر دیا۔

پاکستان میں روحانی جمہوریت کے قیام، وسائل کی منصفانہ تقسیم اور کسی ضابطے کے تحت سلجھی ہوئی جدیدیت کے لیے مذہبی اور سیکولر دونوں کو فکری انتہا پسندی سے باہر نکل کر بحث کو ایک قابل عمل نتیجے پر ختم کرنے کے ساتھ اپنی قیادت متوسط اور سیاسی تربیت کے زیور سے آراستہ افراد کو سونپنی پڑے گی۔ اس کے بغیر مثبت اور حقیقی تبدیلی کی امید رکھنا عبث ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments