ہرن مینار: مشہور تاریخی و سیاحتی مقام


مغل حکمران اپنا شاندار طرز حکومت ہی نہیں بلکہ شاندار اور منفرد طرز تعمیر بھی رکھتے ہیں جس کی بدولت یہ دنیا بھر میں

اپنی الگ پہچان اور مقام رکھتے ہیں اور اسی وجہ سے ہم اپنے ماضی پر فخر کر سکتے ہیں۔ مغل حکمرانوں نے اپنی تعمیرات کی بدولت تاریخ پر ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ ان کی تعمیر کی گئی عمارت ہرن مینار مغلیہ سلطنت کا عظیم شاہکار اور ہمارے شاندار ماضی کا بے مثال نمونہ ہے۔ ضلع شیخوپورہ میں واقع یہ تاریخی عمارت بادشاہ جہانگیر نے 1606 میں تعمیر کروائی جسے بعد ازاں 1634 میں شاہ جہاں نے وسعت دی۔

یہ عمارت اپنے خاص پس منظر کی بدولت دیگر مغلیہ تعمیرات سے الگ اور ممتاز مقام رکھتی ہے۔ یہ انسان اور جانور کی محبت میں تعمیر کی گئی۔ یہ تاج محل کی طرح ایک مقبرہ ہے مگر یہ مقبرہ ایک انسان کا نہیں بلکہ ایک جانور کا ہے۔ یہ ایک پالتو ہرن ”منسراج“ کا مقبرہ ہے۔

جہاں ہرن مینار واقع ہے یہ جگہ پہلے شاہی شکار گاہ تھی جہاں مغلیہ حکمران شکار کرنے آتے تھے۔ ایک دن ایسی انہونی ہوئی کہ شکار کے دوران جہانگیر کا پالتو ہرن منسراج اس کے اپنے ہی تیر کا نشانہ بن گیا اور اس کے سامنے مر گیا۔ یہ دکھ جہانگیر کے لیے نا قابل برداشت تھا۔ منسراج کی موت سے جہانگیر اتنا افسردہ ہوا کہ اس نے منسراج کی قبر پر ایک مینار تعمیر کرنے کا حکم دیا جو بعد ازاں ”ہرن مینار“ کے نام سے مشہور ہو گیا۔

یہ مینار تیس میٹر بلند تعمیر کیا گیا۔ بل دار سیڑھیاں مینار کے اوپر تک جانے کے لیے بنائی گئیں اور 210 کھڑکیاں اس میں بنائی گئیں۔ 1634 میں شاہ جہاں نے ادھر مزید تعمیراتی کام کروایا اور ایک مستطیلی پانی کا تالاب اور اس کے درمیان ایک بارہ دری تعمیر کروائی جس سے ہرن مینار کی عمارت مزید خوبصورت اور دلکش ہو گئی۔ ہرن مینار سے بارہ دری تک جانے کے لیے ایک پل بنایا گیا۔ پل کے داخلی راستے پر ایک گیٹ موجود ہے۔ تالاب کے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے کمرے بنے ہیں جو تالاب کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ تاہم مزید تعمیرات کے باوجود یہ عمارت اب بھی ہرن مینار کے نام سے ہی جانی جاتی ہے۔

اس عمارت کے اردگرد اب بھی جنگل اور کھیت موجود ہیں مگر اب جنگل میں خطرناک جنگلی جانور موجود نہیں۔ اس میں گھاس کے وسیع میدان بھی موجود ہیں اور مختلف اقسام کے درخت بھی موجود ہیں۔ چلنے کے لیے مخصوص ٹریک موجود ہیں جہاں چہل قدمی آسانی سے کی جا سکتی ہے۔ یہاں اب مناسب روشنی کا انتظام بھی کر دیا گیا ہے جس سے سیاح دن میں ہی نہیں بلکہ رات کو بھی ادھر آسکتے ہیں۔ یہاں ایک کینٹین بھی موجود ہے تاکہ ادھر آنے والے سیاحوں کو کھانے پینے کے حوالے سے کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

تالاب میں کشتیاں چلتی ہیں جن کا کرایہ نہایت مناسب ہے جس کی بدولت یہاں آنے والے سیاح ادھر کشتی پر بیٹھنے کا شوق ضرور پورا کرتے ہیں۔ بچوں کے لیے ادھر جھولے بھی لگے ہیں۔ یہ عمارت شہر کے شور شرابے سے الگ تھلگ ایک پرسکون مقام پر واقع ہے۔ یہاں تک جانے کے لیے پکی سڑک موجود ہے۔ لوگ اپنی فیملی کے ساتھ بنا کسی خوف کے ادھر آتے ہیں۔ یہاں کے مناظر دل لبھانے والے ہیں۔

یہ تاریخی عمارت ہمیں ماضی سے جوڑے رکھتی ہے۔ یہ ایک معروف تاریخی مقام ہونے کے سبب سیاحوں کے لیے خاص کشش رکھتا ہے۔ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر سے سیاح ادھر آتے ہیں۔ یہ ہمیں جہاں مغلیہ طرز تعمیر سے آگاہ کرتا ہے وہیں مغلیہ جذبات و احساسات سے بھی آگاہ کرتا ہے۔ یہ عمارت ایک جانور کی محبت میں اس وقت تعمیر کی گئی جب دنیا انسان اور جانور کی محبت سے نا آشنا تھی۔ یہ ہمیں ماضی سے جوڑے رکھنے کا سبب ہی نہیں بلکہ ہمیں ہمارے شاندار ماضی پر فخر کرنے پر بھی مجبور کرتا ہے۔

یہ شیخوپورہ کی پہچان اور وجہ شہرت ہے۔ حکومت نے ادھر سیاحوں کی سہولت کے لیے مناسب اقدامات کر رکھے ہیں لیکن شیخوپورہ میں ریسٹ ہاوسز و ہوٹلز کی کمی کی وجہ سے دور دراز سے سیاح اول تو ادھر بہت کم آتے ہیں اور اگر آتے ہیں تو ان کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لہذا حکومت سیاحوں کی رہائش کے حوالے سے ضرورت کے مطابق اقدامات کر کے یہاں سیاحت کو مزید فروغ دے سکتی ہے۔

ہرن مینار ماضی اور حال کو جوڑنے والا ایک پل ہے۔ یہ ثقافتی ورثے کی منتقلی کا ایک بہترین سبب ہے۔ یہ ہمارے ماضی کی نا قابل فراموش کہانی ہے اور اپنے اندر بہت سے سبق لیے ہوئے ہے۔ آپ بھی اگر شیخوپورہ جائیں تو اس تاریخی عمارت کا وزٹ ضرور کریں تاکہ آپ شاندار مغلیہ طرز تعمیر سے آگاہی حاصل کر سکیں اور مغلوں کی عمارت سازی کے ذریعے اپنے جذبات کے اظہار کے طریقے سے آگاہ ہو سکیں۔ یہ انسان اور ایک پالتو جانور کی محبت کی لازوال اور ناقابل فراموش مثال ہے۔ تو چلتے ہو تو اب ہرن مینار کو چلیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments