جمہوریت پر حملہ: شہباز اور بلاول جرم میں برابر کے شریک ہیں


قومی اسمبلی میں جو مناظر گزشتہ روز دیکھنے میں آئے اور آج تیسرے روز بھی جن کا تسلسل ملاحظہ کیا گیا ہے، اس کے بعد کون چاہے گا کہ پاکستان میں ایسی جمہوریت ہو۔ جب جمہوریت کی علامت پارلیمنٹ کو مغلظات بکنے اور ایک دوسرے کو زدو کوب کرنے کا اکھاڑہ بنا لیا جائے گا تو ایسی جمہوریت سے لوگ پناہ ہی مانگیں گے۔ اس وقت پاکستان میں یہ صورت حال محسوس کی جاسکتی ہے۔

سرکاری اور اپوزیشن لیڈر متفقہ طور سے مگر علیحدہ علیحدہ بیانات میں  گزشتہ روز ہونے والے واقعات کو پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا تاریک ترین دن قرار دے رہےہیں۔ آج قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے کچھ دیر تک کارروائی چلانے کی کوشش کی اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو بجٹ پر اپنی تقریر پوری کرنے کا موقع دیا لیکن سرکاری بنچوں کی مسلسل ہنگامہ آرائی کی وجہ سے بجٹ پر بحث کا آغاز نہیں ہوسکا۔ ابھی شہباز شریف گزشتہ روز ہونے والے واقعہ پر افسوس ہی کررہے تھے اور اسپیکر کو پارلیمنٹ کے تقدس کی حفاظت اور اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکامی پر شرمندہ کرنے کی کوشش ہی کررہے تھے کہ اچانک اسپیکر کی میز پر کوئی چیز آکر گری جس کے بعد اسپیکر اسد قیصر نے اجلاس مزید ایک روز کے لئے ملتوی کردیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ جس کسی نے بھی یہ حرکت کی ہے، اسمبلی میں اس کا داخلہ بند کیا جائے گا۔ اس سے پہلے وہ حکمران جماعت کے تین ارکان اسمبلی سمیت مجموعی طور پر سات ارکان پر گزشتہ روز گالی گلوچ کرنے کے الزام میں اسمبلی میں داخلے پر غیر معینہ مدت تک کے لئے پابندی لگا چکے ہیں۔ اسد قیصر نے آج کا اجلاس ملتوی کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ’میں اس وقت تک اجلاس کی کارروائی منعقد نہیں کروں گا جب تک حکومت اور اپوزیشن باہمی معاملات طے نہیں کرلیتیں‘۔

ملک کی پارلیمانی تاریخ کے تاریک ترین دن کا دعویٰ کرنے کے باوجود حکومت یا اپوزیشن کی طرف سے کسی شرمندگی کا اظہار سننے میں نہیں آیا۔ بلکہ الزام تراشی اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا سلسلہ اخباری بیانات اور ٹی ٹاک شوز میں جاری رہا۔ ایک طرف وفاقی وزیر علی حیدر زیدی ، اپوزیشن کی تقریروں کے خلاف سرکاری بنچوں کے احتجاج اور ہلڑ بازی کو حکمران جماعت کا جمہوری حق قرار دیتے ہیں تو دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی روہیل اصغر گالی دینے کو پنجاب کا کلچر کہہ رہے ہیں ۔ اور اسی جماعت کے لیڈر طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ اپوزیشن پیچھے نہیں ہٹے گی ۔ ’حکومت جیسا کرے گی، ویسا ہی بھرے گی‘۔ اس ماحول میں دونوں طرف کے لیڈر اس ہنگامہ آرائی کی ذمہ داری دوسرے پر ڈال رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے لیڈر شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے ملاقات کی ہے اور گزشتہ روز اجلاس میں ہلڑ بازی کی ذمہ داری اسپیکر پر ڈالتے ہوئے ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے پہلے اپوزیشن ، قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے خلاف تحریک عدم اعتماد لاچکی ہے جس پر شیڈول کے مطابق ووٹنگ جمعہ کے روز ہوگی۔ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ موجودہ حالات میں اپوزیشن عدم اعتماد کی کوئی تحریک منظور کروا سکے گی۔ اس لئے ان تحریکوں کو الزام تراشی کے سلسلہ کی کڑی ہی سمجھنا چاہئے جو اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کے علاوہ اپوزیشن کے لئے نئی ناکامیاں سمیٹنے کا سبب بنیں گی۔

اگر ایک طرف یہ کہا جارہا ہے کہ حکومت بجٹ بحث سے بھاگ رہی ہے ، اسی لئے عمران خان کی تائد سے قومی اسمبلی میں ہلڑ بازی کی گئی ہے تو دوسری طرف وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے ایک ٹوئٹ میں یہی الزام اپوزیشن پر عائد کیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اپوزیشن ارکان نے اجلاس شروع ہوتے ہی ’حملہ ‘ کردیا تھا۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے اسد عمر کا کہنا ہے کہ ’ اپوزیشن کی اصل پریشانی یہ ہے کہ ملک معاشی طور سے ترقی کے سفر پر گامزن ہے اور حکومت نے انتہائی مقبول بجٹ پیش کیا ہے۔ اسی لئے وہ بحث سے راہ فرار اختیار کررہے ہیں‘۔ حکومت اور اپوزیشن کا ایک دوسرے کو غلط قرار دینا باعث حیرت نہیں ہے لیکن پارلیمنٹ میں ہلڑ بازی اور دشنام طرازی کا المناک سانحہ رونما ہونے کے بعد جو افسوس اور تکلیف ملک کے عوام اور جمہوریت پسند عناصر محسوس کررہے ہیں، وہ سیاسی لیڈروں کی باتوں میں محسوس نہیں کی جاسکتی۔ ایک ہنگامہ خیز اجلاس کے بعد لیڈروں کی طرف سے تحمل اور بردباری کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا بلکہ نئے سیاسی حملوں کی تیاریاں کی جارہی ہیں اور ٹاک شوز مباحث کو زندگی و موت کا مسئلہ سمجھ کر بہر حال زور بیان سے جیتنے کی کوشش ہورہی ہے۔

اسپیکر اسد قیصر نے سات ارکان پر یہ کہتے ہوئے اسمبلی میں داخلے پر پابندی لگائی ہے کہ’ گزشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس اور قائد حزب اختلاف کی تقریر کے دوران خلل پیدا کرنے والے ارکان جن کا رویہ غیر پارلیمانی اور نامناسب تھا ان کے ایوان میں داخلے پر پابندی عائد کردی گئی ہے‘۔ ان میں تین کا تعلق تحریک انصاف سے ہے اور تین مسلم لیگ (ن) کے رکن ہیں۔ آغا رفیع اللہ کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اسپیکر نے انہیں توازن قائم رکھنے کے لئے قربانی کا بکرا بنایا ہے حالانکہ وہ تو 15 جون والے اجلاس میں شامل ہی نہیں تھے۔ اگر ان کا یہ دعویٰ درست ہے تو اس سے اسپیکر کی لاچاری اور کم نگاہی کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہونا چاہئے۔ یوں بھی ساڑھے تین سو ارکان کی اسمبلی میں کیا یہ سارا ہنگامہ، مار پیٹ اور بجٹ کتابیں ایک دوسرے پر پھینکنے کا مقابلہ صرف ان سات ارکان میں ہو رہا تھا اور باقی ارکان اسمبلی خاموش تماشائی تھے؟ خبروں کے مطابق کل ارکان کے درمیان جب نوبت ہاتھا پائی تک پہنچی اور اسپیکر کو لگا کہ سیکورٹی اسٹاف بیچ بچاؤ کروانے کے لئے ناکافی ہوگا تو انہوں نے چئیرمین سینیٹ سے درخواست کی وہ اپنے سیکورٹی عملہ کو مدد کے لئے بھیجیں۔ یہ قیاس کرنا مشکل نہیں ہے کہ گزشتہ روز کے اجلاس میں شامل ارکان کی غالب اکثریت اس ہلڑ بازی میں حسب توفیق شریک تھی۔ خاموش رہنے والے یا اپنے ساتھیوں کو روکنے کی کوشش کرنے والے کم ہی لوگ تھے۔

پارلیمانی اجلاسوں میں ہلڑ بازی تو کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی میں بھی یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ ارکان اسمبلی نے ایک دوسرے کا گریبان پکڑنے کی کوشش کی اور نہ ہی یہ آخری موقع ہوگا۔ البتہ معاملہ کی سنگینی اور اپوزیشن اور حکومت کے درمیان تصادم کی موجودہ صورت حال کی وجہ سے اس واقعہ کو تشویشناک سمجھا جارہا ہے۔ لیکن جو پہلو اس ہنگامہ آرائی کو ناقابل معافی بناتا ہے وہ ملک میں جمہوریت پر اس کے اثرات کے حوالے سے ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں اگر تہ دل سے یہ مانتی ہیں کہ حکومت نے جان بوجھ کر ہنگامہ آرائی کی اور اپوزیشن کو اشتعال دلایا تو اسے اس بات کا جواب بھی دینا چاہئے کہ پھر وہ اس سرکاری ’منصوبہ‘ کا حصہ کیوں بنے۔ حکومت اگر بجٹ بحث سے بچنا چاہ رہی تھی تو بھی اور اگر عمران خان کی قیادت میں حکمران عناصر ملک میں جمہوریت کو کمزور کرنا چاہ رہے ہیں تو بھی ، اپوزیشن نے اس کھیل میں شریک ہوکر جمہوریت کے لئے اپنے دعوؤں کی تکمیل نہیں کی بلکہ حکومت کے غیر جمہوری منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے دست تعاون دراز کیا ہے۔ اس حوالے سے حکمران ہوں یا اپوزیشن والے سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔

پاکستان میں جمہوریت کو بے اعتبار اور ناکام قرار دینے کی باقاعدہ کوششیں ہوتی ہیں۔ سیاسست دانوں پر کیچڑ اچھال کر اور انہیں نت نئے مقدمات میں ملوث کرکے صرف سیاسی انتقام ہی کا اہتمام نہیں ہوتا بلکہ ملک کی جمہوری بنیاد کو کمزور کرنے کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ ملک کے جمہوری عناصر اس وجہ سے بھی عمران خان سے مایوس رہے ہیں کہ انہوں نے جمہوری روایت کمزور کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اپنے سوا سب کو چور اچکے قرار دے کر دراصل ملک کے سیاسی کلچر کو ناکارہ کہا جارہا ہے جسے کسی بظاہر کسی سخت گیر یا آمرانہ حکمران کی قیادت میں ہی درست کیا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے عمران خان چین اور سعودی حکومت کی کامیابیوں کا بڑے فخر سے ذکر کرتے ہیں۔ یا ملکی سیاست میں فوجی مداخلت کی بنیاد رکھنے والے ایوب خان کو سب سے بڑا اور کامیاب لیڈر قرار دے کر پارلیمانی جمہوریت کی کمزوریاں بیان کرتے ہیں۔ بجٹ اجلاس کے دوران سرکاری بنچوں کی طرف سے شروع کی گئی ہنگامہ آرائی اسی ایجنڈے کی تکمیل کا سفر ہے۔ کیا اپوزیشن قیادت اتنی کم نظر ہے کہ وہ اس مقصد کو سمجھنے میں ناکام ہے یا وہ بھی درحقیقت پارلیمانی جمہوریت دفن کرنے کے منصوبہ ہی کا حصہ ہے لیکن خود کو عمران خان کے متبادل کے طور پر تسلیم کروانا چاہتی ہے۔

شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت کسی جمہوری عمل کو توانا کرنے کی کوششوں کی بجائے ملک میں ’ووٹ کو عزت دو‘ کے ابھرتے ہوئے رجحان کی حوصلہ شکنی کا راستہ ہے۔ شہباز شریف نہ کبھی عوامی لیڈر رہے ہیں اور نہ ہی انہوں نے اسٹبلشمنٹ کے تعاون سے اقتدار حاصل کرنے کے بارے میں اپنی خواہش کو پوشیدہ رکھا ہے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران پیپلز پارٹی نے بھی ملک کی حالیہ سیاسی تاریخ میں دوسری بار عوامی طاقت کی بجائے ’حکومت سازوں‘ کی کٹھ پتلی بننے کا اشارہ دیا ہے۔ اب عمران خان، شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کی شکل میں یہ قوتیں زور پکڑے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا ڈرامہ رچا کر درحقیقت جمہوریت اور عوامی خواہشات کا گلا گھونٹنے کا مشترکہ مقصد حاصل کرنا چاہتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments