سن رسیدگی میں کیا کریں


لو جی آج ہم بھی سترے بہترے ہو گئے۔ سترے تو تھے ہی بہترے بھی ہو گئے۔ 17 جون کو سالگرہ منانے کے حوالے سے جو عزیز پر جوش ہیں وہ تو مبارکباد کی صدا بھی لگا رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ماہ و سال گزرنے کا سلسلہ یہ نوید بھی سناتا ہے کہ دریائے دنیا میں زیست کی ناو پار لگا چاہتی ہے بس چند سال کا بہاو باقی ہے یا چند مہینوں یا دنوں یا گھنٹوں یا لمحوں یا سانسوں کا۔ اس کا صحیح علم صرف اور صرف رب ذوالجلال کو ہے اور یہ اس کا احسان عظیم ہے کہ اس کا ادراک انسان کو نہیں دیا گیا۔

اللہ کا شکر ہے کہ اس ذات بابرکت نے تمام عرصہ زیست کے دوران اچھی صحت کے علاوہ مالی، بدنی اور معاشرتی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے اپنے فضل و کرم کی برسات جاری رکھی۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ اللہ کی عنایات تو جاری رہیں لیکن کیا میں نے بندگی کا حق پورا کرنا تو بعد کی بات ہے اس کے لئے کوئی سعی بھی کی یا نہیں۔ پیشتر اس کے کہ یہ احساس پشیمانی میں بدل جائے زندگی کا جتنا بھی بونس باقی ہے اس میں کچھ ایسا کر لینا چاہیے کہ کم از کم رعایتی نمبر لے کر ہی کامیاب امیدواروں کی فہرست میں شمار کر لئے جائیں۔ بے شک رحمت خداوندی ہمارے تصورات سے کہیں زیادہ ہے اور ہم جیسے عاصی اسی دریائے رحمت کی کسی موج کے سہارے پار جا لگیں گے مگر پھر بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے سے بہتر ہے کہ جہان ابدی کو سدھارنے کے لئے اعمال کی گٹھڑی میں کچھ تو ہو کہ حضور ﷺ کا امتی تہی دست شمار نہ ہو۔

جن کا کہنا ہے کہ تمام عمر کچھ نہ کیا تو اب کیا کر لیں گے، وہ غلطی پر ہیں۔ ایک ایک پل کو غنیمت جانتے ہوئے کوئی بھی اچھا عمل بس کرتے جائیں۔ ہم کون سے اتنے زاہد و عابد ہیں۔ عبادات بس حسب توفیق جو آسانی سے ہو سکے۔ حقوق العباد ضرور ادا کرنے ہوں گے۔ اس کے علاوہ سر راہ احسن اعمال کرتے جائیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ کچھ مشکل نہیں اللہ توفیق دے تو کمر باندھ لینی چاہیے اور اللہ کی لا محدود رحمت پر تو ایمان ہے ہی۔

بات ہو رہی تھی سترے بہترے ہونے کی۔ ہمارے ہاں اس عمر کو پہنچنے تک کچھ لوگ نسیان یا دماغی ضعف کا شکار ہو جاتے ہیں اس لئے حاضر دماغی کے فقدان کے باعث سست روی یا دیر سے کہی گئی بات سمجھنے یا اپنی بات پر بضد ہو جانے جیسی کیفیات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں ان پر سترے بہترے ہونے کا فتوی صادر کیا جاتا ہے۔ صحیح کہوں تو سترے بہترے ہونے کی پھبتی کسی جاتی ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ ضابطہ اخلاق اس کی اجازت نہیں دیتا۔ بہرحال یہ طے ہے کہ یہ الفاظ عزت افزائی کے لئے نہیں کہے جاتے۔

مہذب معاشروں میں بزرگ افراد کے لئے سینیئر سیٹیزن کی اصطلاح مروج ہے اور ایسے افراد کی دلجوئی کے لئے حکومت کی طرف سے کچھ مراعات بھی دی جاتی ہیں جن سے ان کے معاملات سہل ہو جاتے ہیں۔ یہ مراعات اور آسانیاں اپنی جگہ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر اللہ نے اچھی صحت سے نوازا ہو تو کسی رعایت یا آسانی کی توقع نہ رکھیں بلکہ جہاں تک ممکن رہے اپنے کام خود کرنے کی عادت ڈالیں اور مثبت سوچ اپناتے ہوئے اپنی زندگی کو سہل بنائیں۔ جتنی توقعات کم ہوں اسی قدر زندگی آسان رہے گی۔

اللہ تعالی کی طرف سے صحت کے ساتھ عمر کی عطا زیادہ ہو تو ہمیں اپنا وقت گزارنے کے لیے ایسے کام کرنے چاہئیں جو ہم ہمیشہ سے کرنا چاہتے تھے مگر وقت کی قلت کی بنا پر نہ کر پائے۔ ایسا کرنے سے دل مطمئن ہو گا اور ذہنی آسودگی بھی نصیب ہو گی۔ گوشہ نشینی اختیار کرنے سے بہتر ہے کہ گھر کے افراد کے ساتھ وقت گزاریں بالخصوص چھوٹے بچوں کے ساتھ گپ شپ لگائیں۔ مطالعہ کتب میں وقت گزاریں یا لکھنے سے شغف ہو تو اس سے بہتر کوئی مصروفیت نہیں۔ ہمسایوں کے ساتھ رابطہ ضرور رکھیں۔ ممکن ہو تو قریبی دوستوں کے ساتھ مہینے میں ایک دفعہ ضرور محفل جمائیں۔ شادی بیاہ و دیگر سماجی تقریبات میں ضرور شرکت کریں۔

عمر رسیدگی گھر بیٹھے رہنے کے لئے دلیل نہیں ہے۔ دوسرے شہروں میں مقیم عزیز و اقارب اور دوستوں سے ملاقات کے لئے سال بھر میں ایک یا دو دفعہ ضرور سفر کریں یا تفریحا کسی مقام پر کچھ وقت ضرور گزاریں۔ ایک بات کا خیال رکھیں کہ لمبے سفر کے لئے نپا تلا وقت لے کر نہ جائیں بلکہ وقت کی قید سے آزاد ہو کر سفر کریں۔ اگر ملک سے باہر جانے کا بھی کوئی موقعہ بنے تو ضرور جائیں۔

ذاتی مصروفیات کے علاوہ خدمت خلق کے لئے کچھ وقت نکال لیا جائے تو سونے پہ سہاگہ۔ تن تنہا ایسی خدمات شاید مشکل ہو جائیں۔ اگر کسی رفاہی تنظیم کے ساتھ مل کر خدمات انجام دیں تو آسانی رہے گی۔ اگر کسی کا تعلق شعبہ تدریس یا طب سے رہا ہو تو یہ کام سہل ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالی ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ عمر کے کسی بھی حصے میں ہم کچھ نہ کچھ اچھا کرتے رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments