ابصار فاطمہ کا ناول: افسانے کی حقیقی لڑکی


جب میں نے ابصار فاطمہ صاحبہ کا ناول ”افسانے کی حقیقی لڑکی“ کے چند صفحات کا مطالعہ کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ میں کسی نوجوان لڑکی کی ڈائری پڑھ رہی ہوں۔ اس میں زبان انتہائی سادہ مگر محسوسات اور مشاہدات کا ایک جیتا جاگتا جہان آباد ہے۔

یہ اپنے معاشرے کی بے قدر بے حس روایات کی کہانی ہے۔ ضروری تو نہیں کہ وہی چہرہ جھلسے جس پر تیزاب پھینک دیا جائے، الفاظ لہجے اور بے حس رویے اور جملے کس طرح روح کو جھلسا دیتے ہیں یہ اس کا اظہار ہے۔

میں نے بار ہا سوچا لکھنے والی نے کیسے یہ سب لکھا یہ اتنا فطری ہے جیسے خود پر بیتا ہو حالانکہ یہ سب وہی ہے جو ہم سب نے محسوس کیا اور ہم سب پر کسی نہ کسی صورت بیتا مگر ہم میں سے بہت سے وہ ہیں جو ایسے معاملات پر ایک دو لحظہ سوچتے ہیں اور پھر معمول کی بات سمجھ کر ان تمام زیادتیوں کو جن کا نشانہ کبھی ہم خود بنتے ہیں اور کبھی دوسروں کو بناتے ہیں جھٹک دینے میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔ میں نے سوچا میں کیوں اس طرح کا احتجاج ریکارڈ نہیں کرا سکی تو اس کی ایک ہی وجہ سمجھ آئی کہ شاید ہماری تربیت میں مخصوص شیر کی نظر سے دیکھنے کی روایت رہی جس نے ہمارے جیسوں کے اندر کی حقیقی مزاحمت کو ختم کر دیا ہو گا یا شاید زندگی نے سانس ہی نہیں لینے دی کہ اس پر احتجاج ریکارڈ کرایا جائے جو انسان کا بنیادی حق ہے۔

تب مجھے محترم ادیب اور شاعر سیتہ پال آنند صاحب کے الفاظ یاد آئے۔
وہ کس طرح نظموں اور افسانوں میں استعمال ہونے والے واحد متکلم یعنی لفظ ”میں“ کی تشریح کرتے ہیں۔

بہت بار جب ہم کسی شاعر کی نظم پڑھتے ہیں یا افسانہ یا ناول جو روداد کی مانند لکھی گئی ہو ہم بہت دیر تک سوچتے ہیں کیا یہ اس پر بیتا ہوا لمحہ یا واردات ہے۔ بہت بار لکھنے والا خود بھی ایک عام قاری کی طرح سوچتا ہے کہ کیا جو میں نے لکھا ہے، کیا یہ سب آپ بیتی ہے؟ کیا یہ روداد ہے؟ میں نے ایسا لکھا تو میں نے کب ایسا محسوس کیا؟

کبھی کبھار لکھتے لکھتے لکھنے کی روانی میں قلم وہ سب بھی بیان کر دیتا ہے جو لاشعور کی گہرائی میں گم ہو، لاشعور جس کے ایک حصے میں نسلوں کا شعور محفوظ ہوتا ہے۔ جس میں معاشرے کی اجتماعی روح قید ہوتی ہے کبھی کبھار بیٹھی ہوئی مٹی چھن کے ایک دم سطح آب پر تیرنے لگتی ہے۔ کبھی گوہر آبدار بن کر لفظوں کی صورت افسانے کی حقیقی لڑکی کی حقیقت کا داغدار تلچھٹ شدہ چہرہ بن جاتی ہے۔

جب کوئی شاعر کوئی ادیب لکھتا ہے تو اس کے محسوسات کا دائرہ پھیل کر آفاقی ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی ذات کے بند خول کا چھلکا اتار کے دور پھینک دیتا ہے۔ زیر زمین کوئلہ بھی بنتا ہے اور ہیرے بھی۔ اس حقیقت تک رسائی میں محترم استاد کی چند سطور مجھے کچھ سمجھنے میں مدد دے رہی ہیں۔

”جب ستیہ پال آنند ایک نظم لکھتا ہے، تو اس کا“ میں ”یعنی واحد متکلم خود نہیں ہوتا، اس کے درون دل میں مورتیوں کی طرح جامد و ساکت رکھی ہوئی کچھ شخصیات میں سے ایک شخصیت ہوتی ہے جسے وہ ایک کٹھ پتلی کی طرح فقط اس ناٹک کے دورانیے کے لیے زندہ کر لیتا ہے، جو اس کی نظم کا ہے۔ یعنی وہ شخصیت اس کی اپنی ہوتے ہوئے بھی اس کی اپنی نہیں ہے کیونکہ اس نظم کے واحد متکلم کے تشخص کی ضروریات کے مطابق اس میں رد و بدل کر لیا گیا ہے۔“

ابصار فاطمہ کی اس ”میں یعنی ہیروئین بسمہ“ میں میں بھی ہوں اور تم بھی ہو، ٹوٹے ہوئے بہت سے کردار بہت سے تڑخے ہوئے چہرے آنکھوں کے سامنے آئے۔ بہت سی زندہ لاشوں کی چیخوں اور کراہوں کی دم توڑتی، سانس لیتی کہانی جو جابرانہ نظاموں کی کریہہ پیداوار ہیں جہاں انسان کو انسان نہیں سمجھا جاتا۔ اس کے بنیادی حقوق غصب کر لیے جاتے ہیں۔ وہ بظاہر تو آزاد ہے مگر اندر سے فرسودہ روایات کا قیدی جو تمام عمر ناکردہ گناہوں کا بوجھ اٹھاتا ہے۔

یہ ناول اپنے اندر گہری بصیرت اور فہم کی تیز دھوپ کی جھلسا دینے والی حدت لیے ہوئے ہے۔

مصنفہ نے اپنے حساس قلم سے انسان اور باشعور خاتون ہونے کا حق ادا کیا۔ انہوں نے اپنے معاشرے میں عورت کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں پر مبنی ہر روپ کو ظاہر کیا۔ ایک نفسیات دان ہونے کے ناتے انتہائی باریک بینی سے مفصل مشاہدہ قلم بند کیا۔ ایک لڑکی جب عہد طفولیت سے سن بلوغت کی طرف قدم رکھتی ہے اس کے دماغ کی کنڈیشنگ کیسے کی جاتی ہے، اسے کیسے سدھارا جاتا ہے۔ اپنے تمام تر سدھار کے باوجود اس کی عزت نفس کہاں کہاں اور کیسے کیسے کچلی جاتی ہے، پامال کی جاتی ہے۔ اپنے گہرے عمیق مشاہدے کی بناء پر ان کے قلم نے حرف احتجاج بلند کیا ہے۔

اس کم عمری میں انہوں نے ایک ایسا معاشرتی ناول لکھنے کا اعزاز حاصل کیا ہے جس میں ہراسانی کے ہزار طریقوں کا اندراج ہے جو اس سماج نے عورت ذات کے ساتھ روا رکھے ہیں اس کی نشاندہی کی ہے۔ تمام کرداروں کا نفسیاتی تجزیہ بہت ایمانداری سے کیا۔ کیسے ایک خاندان کے افراد مل کر ایک شخصیت یا ایک کردار کو تشکیل کرتے ہیں۔

جہالت کے رویوں کی کہانی جس کے ہر موڑ پر ایک اذیت ہے۔ اور اس میں نظام کی شکل دکھائی ہے جہاں مردوں کے ساتھ بھی نا انصافیاں ہوتی ہیں۔ اس مشکل پہلو پر بات کی ہے اگر وہ ”گے“ ہوں تو انہیں کیا کیا سہنا پڑتا ہے۔ کم سنی کی شادی، رشتے تلاش کرنے کے بھونڈے طریقہ کار، ازدواجی معاملات کی کشاکش، جوائنٹ فیملی سسٹم میں مختلف ایکٹیو اور پیسیو کرداروں کے ذریعے زندگیوں میں کس طرح زہر گھولا جاتا ہے ہمارے ہاں کس طرح شادیاں ہوتی ہیں۔ کس طرح رشتہ تلاش کیا جاتا ہے۔ دونوں اطراف کی رسموں کو بھی ایڈریس کیا ہے۔ بھونڈے رویوں کا بھانڈا بیچ چوراہے کے پھوڑا ہے ایک ایسے نظام پر جو صدیوں سے لاگو ہے جس کا ہر فرد بھاڑے کا ٹٹو ہے اس کے منہ پر کس کے طمانچہ مارا ہے۔ جس کے سرخ نشان معاشرے کے ہر حساس فرد کے چہرے پر بہت دیر تک نشان چھوڑیں گے۔

دارالامان میں رہنے والی خواتین کے حقیقی مسائل کو بھی چھیڑا اور تمام اہل علم کو جھنجھوڑا ہے۔ وہ سب باتیں جن کے لیے ہمارے اندر برداشت کی امیونٹی پیدا ہو چکی ہے۔ اور جسے ہم برائی کے طور پر محسوس ہی نہیں کرتے کیونکہ ہم اس کے دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ جب تک اپنی بد صورتی کا احساس نہیں ہو گا ہم کیسے اور کیونکر خود کو میک اپ کر سکیں گے۔

ان کو ایسا ناول لکھنے پر مبارکباد

میرے خیال میں یہ ناول نہیں بلکہ محترم مصنفہ نے سماجی رویوں اور ہراسانی کے خلاف ادبی عدالت میں ایک ایف آئی آر کٹوائی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments