مدرسے کے استاد کے خلاف جنسی زیادتی کا مقدمہ: ‘مایوس ہو کر اس واقعے کی خود چوری ویڈیوز بنائیں’

عمر دراز ننگیانہ - بی بی سی اردو لاہور


لاہور میں پولیس نے ایک دینی مدرسے کے استاد اور سابق مہتمم کے خلاف ایک طالب علم کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے الزام میں مقدمہ درج کر لیا ہے۔ تاہم پولیس تاحال انھیں گرفتار نہیں کر پائی۔

لاہور کے نارتھ کینٹ پولیس سٹیشن میں جمعرات کے روز اس وقت مقدمہ درج کیا گیا جب حال ہی میں سوشل میڈیا پر چند ویڈیوز سامنے آئیں جن میں ملزم کو ایک طالب علم کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے ہوئے دیکھا گیا۔

ان ویڈیوز کے سامنے آنے کے بعد پاکستان میں سوشل میڈیا کی ویب سائٹس پر لوگوں کی طرف سے شدید ردِ عمل دیکھنے میں آیا جس میں زیادہ تر لوگ ملزم کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

ملزم لاہور کے مدرسے جامعہ منظور اسلام میں معلم تھے اور ان پر جنسی زیادتی کا الزام عائد کرنے والے طالب علم اسی مدرسہ میں زیرِ تعلیم تھے۔

تھانے میں درج مقدمے میں طالب علم نے دعوٰی کیا ہے کہ ملزم ‘گزشتہ کچھ عرصہ سے انھیں بلیک میل کر کے مسلسل جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے رہے تھے۔’ ان کا کہنا تھا کہ مدرسے کی انتظامیہ کے سامنے ملزم کی شکایت کرنے کے بعد ثبوت کے طور پر انھیں ویڈیوز بنانی پڑی تھیں۔

سوشل میڈیا پر ویڈیوز سامنے آنے کے بعد مقامی پولیس ملزم سے پوچھ تاچھ کرنے کے لیے ان کے مدرسے پر گئی تھی تاہم وہ اس سے قبل مدرسہ چھوڑ کر جا چکے تھے۔

مدرسہ انتظامیہ نے پولیس کو بتایا کہ ‘محلے کے چند افراد کی جانب سے ان ویڈیوز کی طرف توجہ مبذول کروانے پر مدرسہ انتظامیہ نے ملزم کو نوکری سے فارغ کر دیا تھا۔’ اس کے بعد وہ مدرسہ چھوڑ کر جا چکے تھے۔

موبائل

پولیس کو درج کروائی گئی شکایت میں طالب علم نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ یہ واقعہ منظرِ عام پر لانے کے بعد انھیں ملزم کے بیٹوں کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہو رہی تھیں۔

‘ان کے بیٹوں نے چند نا معلوم افراد کے ساتھ ان کو نقصان پہنچانے کی غرض سے ان کا تعاقب بھی کیا تھا۔’

سوشل میڈیا ہی پر جاری ہونے والے ایک بیان میں ملزم کی طرف سے چند متضاد بیانات سامنے آئے تھے۔ ایک بیان میں ان کا دعوٰی تھا کہ انہیں ‘کوئی نشہ آور چیز دے کر یہ ویڈیوز بنائی گئی تھیں اور وہ جو حرکات کر رہے تھے وہ نشہ آور شے کے زیرِ اثر کر رہے تھے۔’

ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ ویڈیو چند برس پرانی تھی۔ تاہم انھوں نے پولیس کے سامنے پیش ہو کر تاحال کوئی بیان نہیں دیا۔

طالبِ علم نے پولیس کو کیا بتایا؟

بچوں سے زیادتی

فائل فوٹو

تھانہ نارتھ کینٹ لاہور میں درج مقدمہ میں مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بننے والے طالب علم نے پولیس کو بتایا انھوں نے سنہ 2013 کے لگ بھگ مدرسہ منظور السلامیہ میں داخلہ لیا تھا اور مسلسل وہیں تعلیم حاصل کرتے رہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب وہ درجہ رابعہ یعنی چہارم میں پہنچے تو امتحانات کے دوران اس وقت کے نگران مفتی نے ایک اور طالب علم سمیت ان پر امتحانات میں نقل کا الزام عائد کرتے ہوئے تین برس کے لیے ان کے وفاق المدارس کے امتحانات پر بیٹھنے پر پابندی عائد کر دی۔

انھوں نے پولیس کو بتایا کہ ‘مفتی نے الزام عائد کیا تھا کہ میں نے امتحانات میں اپنی جگہ کسی اور لڑکے کو بٹھایا تھا۔ میں نے مفتی صاحب کی بہت منت سماجت کی مگر وہ نہ مانے۔ مگر انھوں نے کہا کہ اگر تم میرے ساتھ بدکاری کرو اور مجھے خوش کر دیا کرو تو میں کچھ سوچ سکتا ہوں۔’

‘تین سال تک ہر جمعہ میرا جنسی استحصال کیا گیا’

طالب علم نے پولیس کو مزید بتایا کہ مفتی نے ان سے کہا کہ اگر ‘وہ انھیں خوش کر دیا کریں گے تو میں وفاق المدارس والی پابندی بھی ہٹوا دوں گا اور امتحانات میں بھی پاس کروا دوں گا۔’

طالب علم کے مطابق اس طرح وہ ‘با امرِ مجبوری مفتی کی چال اور زیادتی کا نشانہ بنتے رہے۔ تین سال تک زیادتی کا نشانہ بنانے اور جنسی استحصال کرنے کے باوجود مفتی نے اپنی بات پوری نہ کی بلکہ مزید ملیک میل کرتا رہا۔’

تین سال تک بلیک میل ہونے کے بعد تنگ آ کر طالب علم نے مدرسہ انتظامیہ کو آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا اور مفتی کے خلاف شکایت کی۔

‘مایوس ہو کر اس واقع کی خود چوری ویڈیوز بنائیں’

طالب علم نے پولیس کو بتایا کہ مدرسہ انتظامیہ نے ان کی بات پر یقین نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مفتی صاحب بزرگ اور نیک آدمی ہیں وہ ایسا فعل نہیں کر سکتے اور طالب علم جھوٹ بول رہا تھا۔

طالبِ علم کے مطابق اس پر ‘مایوس ہو کر میں نے خود اس واقع کی ویڈیوز چوری بنانا شروع کیں۔’ انھوں نے پولیس کو بتایا کہ یہ ثبوت انھوں نے وفاق المدارس العربیہ کے ناظم مولانا حفیظ جالندھری کو بھی پیش کیے۔

تاہم اس بات کا علم ہونے پر مفتی نے انھیں قتل کروانے کی دھمکیاں دینا شروع کر دی تھیں۔ چند روز قبل جب ان کی ویڈیو سوشل میڈیا پر لیک ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ وہ خوفزدہ ہو گئے۔ اس پر انھوں نے ‘خود کو نقصان پہنچانے کی ویڈیو ریکارڈ کروائی۔’

ویڈیوز سامنے آنے کے بعد کیا ہوا؟

طالب علم نے پولیس کو بتایا کہ مفتی ہر جمعہ کے روز تقریباً 10 یا 11 بجے انھیں طلب کرتے تھے اور ان کے ساتھ غلط کاری کرتے تھے۔

انھوں نے پولیس کو چندآڈیو کالز کی ریکارڈنگ بھی ثبوت کے طور پر فراہم کی جن سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ کس طرح مفتی نے مسلسل جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔

یہ تمام شواہد سامنے آنے کے بعد مدرسہ کی انتظامیہ نے واقعات کا نوٹس لیا اور مدرسہ کے مہتمم نے مفتی کو نوکری سے برخاست کر دیا۔

تاہم طالب علم نے پولیس کو بتایا کہ اس پر مفتی نے سخت غصے کا اظہار کیا اور ان کے بیٹوں نے طالب علم کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔

‘میری جان کو سخت خطرہ ہے’

طالب علم نے پولیس کو بتایا کہ انہیں مفتی اور ان کے بیٹوں کی طرف سے جان کا خطرہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جس روز مفتی کو مدرسہ سے فارغ کیا گیا اس کے اگلے روز جب وہ کسی کام سے مدرسے سے نکلے تو مفتی کے تین بیٹوں اور چند نامعلوم افراد نے ان کا تعاقت کیا۔

طالبِ علم کے مطابق انھوں نے ان کا تعاقب کرنے والے افراد کو جب یہ کہتے سنا کہ ‘پکڑو اس کو بھاگنے نہ پائے آج اس کا قصہ تمام کرتے ہیں’ تو خوف زدہ ہو کر انھوں نے وہاں سے دوڑ لگا دی اور اپنی جان بچائی۔

انھوں نے پولیس سے درخواست کی کہ مفتی کو گرفتار کیا جائے اور ان کے بیٹوں سے ان کی جان بچائی جائے۔

مفتی کون تھے؟

مفتی لاہور کے رہائشی ہیں اور گزشتہ تقریباً 25 سال سے مدرسہ منظور الاسلامیہ میں بطور معلم کام کرتے رہے تھے۔ اس کا ساتھ ہی وہ مذہبی جماعت جمیعت علما اسلام کے لاہور سے رکن بھی تھے۔

تاہم جمیعت علما اسلام نے طالب علم کے ساتھ جنسی زیادتی کا واقعہ سامنے آنے کے بعد مفتی سے لاتعلقی کا اعلان کیا تھا۔ جماعت کی طرف سے جاری کیے جانے والے ایک اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ مفتی کی بنیادی رکنیت واقع کی تحقیقات مکمل ہونے تک معطل کر دی گئی ہے۔

‘جب تک تحقیقات مکمل نہیں ہو جاتیں اس وقت تک انھیں ضلع لاہور کی ہر سطح کی ذمہ داری سے بھی سبکدوش کر دیا گیا ہے۔ ان کے کسی قول اور فعل کی جمیعت علما اسلام ذمہ دار نہ ہوگی۔’

سوشل میڈیا پر تنقید

سوشل میڈیا پر پاکستان کے اندر اور باہر سے لوگوں نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ ایک صارف سبین کیانی نے لکھا کہ ان کے اندر وہ ویڈو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کا حوصلہ نہیں تھا۔

‘بچوں کے ساتھ جنسی ہراسانی، ریپ اور قتل وغیرہ پاکستان کے بڑے مگر دبا دیے جانے والے مسائل ہیں۔ وزیرِاعظم عمران خان کو چاہیے کہ وہ اس کا کوئی مستقل حل نکالیں تا کہ ملک کی آنے والی نسلوں کو بچایا جا سکے۔’

صحافی ثنا جمال نے لکھا کہ ‘مفتی اور وہ تمام افراد جو ان کا دفاع کر رہے ہیں انھیں شرم آنی چاہیے۔ بچوں کے ساتھ اس قسم کی زیادتی اور پھر اس کو دبانے کی کوشش بہت شرمناک ہے۔ زیادتی کرنے والا اپنے سیاسی یا مذہی اثر و رسوخ کے پیچھے نہیں چھپ سکتا۔ انصاف اور حفاظت ہمارے بچوں کا حق ہے۔’

سماجی کارکن اور ریسرچر عمار رشید نے لکھا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ طالب علم کو تلاش کریں انہیں حفاظت فراہم کرے جبکہ ملزم کو بھی گرفتار کیا جائے۔

‘یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ مفتی پر الزام عائد کرنے والا طالب علم اس وقت چھپنے پر مجبور ہے اور اس کو دھمکیاں موصول ہوئی ہیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32490 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp