وہ ستم گر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا



غالب نے تو خبر نہیں کس خیال میں یہ شعر کہا تھا کہ :
میں نے چاہا تھا کہ اندوہ وفا سے چھوٹوں
وہ ستم گر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا

مگر آج کل اپنے معاشرے میں اس شعر کی صحیح تشریح اس وقت سمجھ آتی ہے جب احمدی کمیونٹی کی قبروں پر حملہ کر کے کبھی ان قبروں پر نصب کتبوں کو توڑ پھوڑ دیا جاتا ہے ۔ کبھی رات کی تاریکی میں قبروں کو مسمار کر دیا جاتا ہے اور کبھی ایک ہجوم کی صورت میں اکٹھا ہو کر کسی وفات پانے والے کی تدفین روک دی جاتی ہے اور کبھی نعش کو قبر کھود کر نکال دیا جاتا ہے اور یہ سب خدا کی وحدانیت کے نام پر اور دین کی بہت بڑی خدمت سمجھ کر ثواب دارین حاصل کرنے کی توقع رکھتے ہوئے فلک شگاف نعروں، نفرت میں ڈوبی ہوئی تقریروں اور لہراتے ہوئے اسلحہ کے زور پر جب اور جہاں چاہے کیا جاتا ہے اور ہمارے سیاستدان غیر ممالک میں جاکر جب یہ بیان دیتے سنائی دیتے ہیں کہ آپ لوگ اس پراپیگنڈے کا شکار کیوں ہوتے ہیں کہ ہمارے ملک میں اقلیتوں کے ساتھ زیادتی اور بد سلوکی کی جاتی ہے۔ آپ جب چاہیں آئیں ہمارے مہمان بنیں اور ملک میں گھوم پھر کر دیکھیں کہ ہمارے یہاں اقلیتیں اکثریت کے ساتھ کس محبت اور رواداری کے ساتھ مل جل کر رہ رہی ہیں تو سمجھ نہیں آتی کہ دل کو روئیں یا جگر کو پیٹیں۔

حال ہی میں ضلع شیخوپورہ کے ایک گاوٴں 79 نواں کوٹ میں ایسا ہی ایک واقعہ ہوا۔ گاوٴں میں چونکہ احمدیہ کمیونٹی کے افراد بھی خاصی تعداد میں آباد ہیں اور شدت پسندی کے ملک میں پھیلائے جانے سے قبل جب تمام برادریاں امن و آشتی سے اکٹھی رہتی تھیں۔ قبرستان بھی مشترک تھے اور کسی کو کوئی اعتراض نہیں تھا کہ یہاں کس فرقے کے افراد دفن ہو سکیں گے اور کون نہیں کیونکہ موت کے بعد کا معاملہ خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہوتا ہے نہ کہ بندوں کے۔

مگر آہستہ آہستہ ہمارے یہاں یہ اختیار بندوں نے خدا کے ہاتھ سے لے کر اپنے ہاتھ میں لے لیا اور یہ سوال اٹھنا شروع ہوا کہ احمدی مسلمانوں کے ساتھ ایک مشترک قبرستان میں دفن نہیں ہوسکتے چنانچہ اس سوال پر حکومت نے احمدیوں کے لیے ایک الگ جگہ مخصوص کر دی جہاں ایک ہی قبرستان تھا وہاں حصے علیحدہ کر کے حد بندی کر دی کہ احمدی اس حصہ میں دفن ہوں گے ۔ 79 نواں کوٹ میں بھی اسی طرح کی حد بندی کر دی گئی۔ مگر چند روز قبل جب ایک احمدی خاتون کا انتقال ہوا تو علاقے کے مولوی نے لوگوں کو جوش دلایا کہ یہ تدفین روکی جائے۔ چنانچہ ایک ہجوم اکٹھا ہو کر قبرستان میں تدفین کے لیے آنے والے لوگوں پر حملہ آور ہو گیا۔

پاکستان میں مذہبی شدت پسندی روز بروز ایک نیا رخ اختیار کرتی جاتی ہے۔ پہلے تو مذہب کا معاملہ عقائد کے حوالہ سے صرف اسی دنیا تک محدود تھا۔ مگر اب مولوی حضرات نے اخروی زندگی میں حوروں کی اقسام۔ ان کے حلیے اور ان کے ساتھ روابط کی ایک ایسی داستان بیان کرنی شروع کر دی کہ عام لوگ ان باتوں سے اپنے تخیل میں حظ اور لذت کے نئے راستے تلاش کرنے لگے اور پھر بحث میں اخروی زندگی میں بخشش اور سزا کے حوالہ سے فیصلے یہاں پر ہی ہونے لگے۔

کچھ عرصہ قبل کراچی میں پی آئی اے کے ایک جہاز کو حادثہ پیش آیا تھا جس میں ہلاک ہونے والوں میں ایک خاتون ماڈل بھی شامل تھیں افسوس ناک بات یہ ہوئی کہ بجائے ان مرحومین سے ہمدردی کرنے کے سوشل میڈیا پر یہ سوال اٹھایا جانے لگا کہ ان میں سے کون جنت میں جائے گا اور کون نہیں؟

اگر یہ باتیں خدائی اختیارات اپنے ہاتھ میں لینے کی سوچ نہیں تو پھر کیا ہے؟ افسوس ہمارا معاشرہ اخلاقی پستی میں روزبروز نیچے ہی گرتا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments