چیمپیئنز ٹرافی 2017: جب آٹھویں نمبر کی ٹیم پاکستان نے فائنل میں انڈیا کو ڈرامائی شکست سے دوچار کیا

عبدالرشید شکور - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی


چیمپیئنز ٹرافی

18 جون سنہ 2017 کی شام جب لندن کے اوول گراؤنڈ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی چیمپیئنز ٹرافی کی جیت کا جشن اپنے عروج پر تھا تو ایسے میں کپتان سرفراز احمد سے زیادہ کون یہ بات محسوس کر سکتا تھا کہ روایتی حریف انڈیا کےخلاف جیت اور وہ بھی کسی آئی سی سی ایونٹ کے فائنل میں، کتنی قیمتی ہوتی ہے۔

یہ وہ وقت تھا جب سرفراز احمد کی سوچ کا دھارا اچانک انھیں گیارہ سال پرانے ایک اور یادگار لمحے تک لے گیا جب پاکستان کی انڈر 19 ٹیم نے انھی کی قیادت میں انڈر 19 ورلڈ کپ فائنل میں بھی انڈیا کو ڈرامائی شکست سے دوچار کیا تھا۔

سرفراز احمد کو اگرچہ ٹی ٹوئنٹی کی کپتانی سنہ 2016 میں مل چکی تھی لیکن وہ صرف تین ون ڈے انٹرنیشنل میچز میں کپتانی کے تجربے کے ساتھ چیمپیئنز ٹرافی میں آئے تھے۔

ان کے ساتھ کھیلنے والے کھلاڑیوں کی اکثریت بھی نوجوان اور ناتجربہ کار تھی اور جب ٹیم پہلے ہی میچ میں روایتی حریف انڈیا سے ہار جائے تو یہ بتانے کی قطعاً ضرورت نہیں کہ ردعمل کتنا شدید ہوتا ہے۔

سرفراز احمد نے بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انڈیا کے خلاف پہلے میچ میں پاکستانی ٹیم نے بہت زیادہ پریشر اپنے اوپر لے لیا تھا جس کی وجہ سے اچھی پرفارمنس نہ ہو سکی اور ہم ُبری طرح ہار گئے۔

’میچ کے بعد جو میٹنگ ہوئی وہ دراصل ہارڈ ٹاک تھی جس میں کُھل کر شکست کے اسباب پر بات ہوئی۔ سب نے حقیقت پسندی سے اظہار خیال کیا۔ اس میٹنگ کا بہت فائدہ ہوا کیونکہ اس کے بعد ہم نے آنے والے میچز کے لیے کچھ سخت اور جرات مندانہ فیصلے کیے۔‘

ٹرافی

چیمپیئنز ٹرافی میں پاکستانی ٹیم کے ہیڈ کوچ مکی آرتھر تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’جب ہم اس ٹورنامنٹ میں کھیلنے کے لیے آئے تھے تو ہماری عالمی رینکنگ آٹھویں تھی اور جس بُری طرح ہم انڈیا سے پہلا میچ ہارے تھے وہ بہت ہی مایوس کُن تھا لیکن اس کے بعد ہم نے سیمی فائنل اور فائنل دو بہترین میچ کھیلے۔ یہ اس خود اعتمادی کا نتیجہ تھا جو ٹیم میں بہرحال موجود تھی۔‘

مکی آرتھر کا کہنا ہے کہ ’میں بہت دیانتداری سے یہ بات کروں گا کہ انڈیا سے ہارنے کے بعد ہم لوگ بہت زیادہ دباؤ میں تھے حالانکہ ہم لوگ ویسٹ انڈیز کے کامیاب دورے کے بعد چیمپیئنز ٹرافی میں آئے تھے۔ برمنگھم میں ہماری ٹریننگ اچھی رہی تھی۔ ہم مقابلے کے لیے تیار تھے لیکن پہلے میچ میں ہم اچھا نہیں کھیل سکے تھے۔‘

ʹمیں یہ بھی ضرور کہوں گا کہ میں اور کپتان سرفراز احمد ابتدا میں سلیکشن کے معاملے میں قدامت پسند رہے تھے۔ ہمیں سلیکشن میں زیادہ جارحانہ حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے تھی۔ پہلے میچ کے بعد ہم نے جارحانہ حکمت عملی اختیار کی۔ فخرزمان کا ڈیبیو ہوا اور حسن علی نے زبردست بولنگ شروع کی۔ دوسرے کھلاڑیوں نے بھی اچھا رسپانس دینا شروع کیا۔‘

اوپننگ بیٹسمین اظہر علی ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’کوئی بھی توقع نہیں کر رہا تھا کہ ہم انڈیا کو فائنل میں ہرا سکتے ہیں۔ ہر طرف سے یہی آواز آ رہی تھی کہ انڈیا فیورٹ ہے، انڈیا فیورٹ ہے اور پاکستان کا اس سے کوئی مقابلہ نہیں‘

سنچری تک پہنچانے والی نو بال

فخر زمان

فخر زمان نے سنچری سکور کر کے پاکستان کی جیت کی بنیاد رکھی

چیمپیئنز ٹرافی کے فائنل کی سب سے یاد رکھی جانے والی بات اوپنر فخر زمان کی شاندار سنچری اور اس سنچری کو یقینی بنانے والی جسپرت بمراہ کی ’نو بال‘ تھی۔

یہ پاکستانی اننگز کا چوتھا اوور تھا۔ جسپرت بھمرا کی پہلی گیند وائیڈ تھی لیکن اوول گراؤنڈ میں اس وقت شور مچ گیا جب ان کی اگلی گیند نے فخرزمان کے بلے کا کنارہ لیا اور مہندر سنگھ دھونی نے آسان سا کیچ لے لیا ۔ فخرزمان اس وقت صرف تین رنز پر کھیل رہے تھے۔

انڈین شائقین کی خوشی اس وقت ماند پڑ گئی جب ری پلے نے اس گیند کو نو بال قرار دے کر فخر زمان اور پاکستانی ٹیم کو نئی سانس دی۔

فخر زمان بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے اس گیند کو اس طرح یاد کرتے ہیں: ’میں نے فائنل سے قبل دو نصف سنچریاں بنائی تھیں اور مجھے امید تھی کہ میں فائنل میں بھی بڑا سکور کروں گا لیکن میں شروع میں اچھا نہیں کھیل رہا تھا۔ جب گیند بلے سے لگ کر وکٹ کیپر کے پاس گئی تو مجھے سخت مایوسی ہوئی تھی۔ میں خوش قسمت تھا کہ وہ گیند نو بال ہو گئی اور مجھے موقع مل گیا اور میں آہستہ آہستہ اپنے نیچرل انداز میں کھیلنے لگا اور سنچری سکور کی۔‘

فخر زمان کہتے ہیں ʹمیرے کریئر میں اگرچہ چند دوسری اننگز بھی ہیں جنھیں میں بہت زیادہ اہمیت دیتا ہوں لیکن چیمپیئنز ٹرافی فائنل کی یہ اننگز بہت زیادہ مشہور ہو گئی۔‘

فائنل میں فخر زمان کے ساتھ سنچری پارٹنر شپ قائم کرنے والے اظہر علی نے خود بھی نصف سنچری بنائی تھی۔

اظہر علی بتاتے ہیں ’ہم دونوں رنز کرتے آ رہے تھے۔ فخر زمان نے جنوبی افریقہ کے خلاف ڈیبیو کیا تھا۔ پھر انگلینڈ کے خلاف بھی ہماری سنچری پارٹنرشپ ہوئی تھی۔ فخر کا اپنا سٹائل تھا، وہ ُکھل کر کھیل رہے تھے اور آتے ہی بولنگ پر اٹیک کر رہے تھے مگر فائنل میں وہ اس طرح کا مومینٹم نہیں پکڑ پا رہے تھے لیکن مجھے یقین تھا کہ جیسے ہی ان کا فلو بنا وہ بڑی اننگز کھیلنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔‘

اظہر علی کہتے ہیں ’میں ان سے یہی کہہ رہا تھا کہ پریشان مت ہوں۔ دوسری جانب میرے بلے پر گیند آ رہی تھی۔ میں مثبت سوچ کے ساتھ کھیلنے گیا تھا کہ جیسے ہی موقع ملے گا میں بولنگ پر اٹیک کروں گا۔ میں نے دیکھا کہ فخرزمان تگ ودو کر رہے ہیں اور انڈین ٹیم کی تمام توجہ انھی پر تھی۔ لہذا میں نے موقع جانا اور خود اٹیک کرنا شروع کر دیا اور جب فخر سیٹ ہو گئے تو میں نے اپنا سپورٹنگ رول ادا کرنا شروع کر دیا۔‘

نو بال پر مذاق اڑنے پر بمراہ ناخوش

بل بورڈ

جے پور کی مصروف سڑک پر بل بورڈ آویزاں کیا گیا جس میں بمراہ کی نو بال والی تصویر تھی

جسپرت بمراہ کی اس نو بال پر انھیں دلچسپ تبصروں کا سامنا کرنا پڑا تھا جس میں جے پور کا ٹریفک پولیس ڈپارٹمنٹ بھی پیچھے نہیں رہا۔

شہر کی مصروف سڑک پر بل بورڈ پر اشتہار سجایا گیا جس میں بمراہ کی نو بال والی تصویر تھی اور اس کے ساتھ درج تھا: ’لائن کو عبور مت کیجیے۔ آپ کو معلوم ہے یہ آپ کے لیے مہنگا ثابت ہو سکتا ہے۔‘

بمراہ کو یہ تنقید بالکل پسند نہیں آئی تھی اور انھوں نے ٹوئٹر پر لکھا تھا: ’ویل ڈن جے پور ٹریفک پولیس۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ملک کے لیے آپ بہت اچھا کرتے ہیں لیکن اس کے بدلے آپ کو کتنی عزت ملتی ہے۔‘

تاہم سوشل میڈیا پر تبصروں کی اکثریت اس بات سے متفق تھی کہ یہ محض مذاق تھا جس کا مقصد کسی کی بے عزتی کرنا ہرگز نہیں تھا۔

وہ سپیل جو کوئی نہیں بھول سکتا

عامر خان

محمد عامر نے روہت شرما، وراٹ کوہلی اور شکھر دھون کی وکٹیں حاصل کی تھیں

چیمپیئنز ٹرافی کے فائنل میں اگرچہ پاکستان نے انڈیا کو جیتنے کے لیے 339 رنز کا بڑا ہدف دیا تھا لیکن یہ بات سب ہی جانتے تھے کہ انڈیا کی لمبی اور مضبوط بیٹنگ لائن یہ ہدف عبور کر سکتی ہے۔

پاکستانی ٹیم کو ابتدا میں ہی وکٹوں کی اشد ضرورت تھی اور دنیا نے اوول کے میدان میں محمد عامر کا نہ بھلایا جانے والا سپیل دیکھا جس میں انھوں نے روہت شرما، وراٹ کوہلی اور شکھر دھون کی وکٹیں حاصل کر ڈالیں۔

محمد عامر کا کہنا ہے کہ ’جب وراٹ کوہلی کا کیچ ڈراپ ہوا تو میرے ذہن میں یہی آ رہا تھا کہ کہیں فخرزمان والی کہانی نہ دہرائی جائے کیونکہ کوہلی جیسے بیٹسمین کو موقع ملنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ میچ ختم کر سکتے ہیں۔ ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے ان کی کارکردگی ہمیشہ اچھی رہی اور پریشر میں وہ ہمشیہ اچھا کھیلتے ہیں۔‘

محمد عامر کا کہنا ہے کہ ʹمیں نے روہت شرما کو ان سوئنگ پر آؤٹ کیا تھا اور کوہلی کو ان سوئنگ پر ہی بیٹ کیا تھا لیکن میں دوبارہ ان سوئنگ کرنا نہیں چاہتا تھا لہذا میں نے آؤٹ سوئنگ کے ذریعے انھیں آؤٹ کیا۔‘

یہ بھی پڑھیے

1992 ورلڈ کپ اور 2017 چیمپیئنز ٹرافی کی پاکستانی ٹیم

چیمپیئنز ٹرافی جیتنے کی پانچ وجوہات

’عامر نے خواہش پوری نہیں ہونے دی‘

سرفراز احمد کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنی وکٹ کیپنگ کے دوران محمد عامر جیسا سپیل نہیں دیکھا۔

محمد عامر سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ آپ نے سنہ 2009 کی چیمپیئنز ٹرافی میں سچن تندولکر کو بھی آؤٹ کیا تھا اور سنہ 2017 کی چیمپیئنز ٹرافی میں کوہلی کی وکٹ حاصل کی۔ کون سی وکٹ زیادہ اہم ہے؟

عامر جواب دینے میں دیر نہیں لگاتے اور کہتے ہیں ’سچن تندولکر۔‘

حسن علی اور شاداب خان کا بھرپور تاثر

شاداب خان

شاداب خان نے یوراج سنگھ کو ایل بی ڈبلیو کیا تھا

حسن علی کہتے ہیں ʹپاکستان اس ٹورنامنٹ میں آٹھویں نمبر کی ٹیم تھی لیکن اس نے عالمی رینکنگ کی تین بڑی ٹیموں کو شکست دی۔‘

’یہ ایک نوجوان ٹیم تھی جس میں رومان رئیس، فہیم اشرف اور فخرزمان نے اسی ٹورنامنٹ میں ڈیبیو کیا تھا۔ میرے اور شاداب خان کے انٹرنیشنل کریئر کے بھی یہ ابتدائی دن تھے۔‘

سرفراز احمد کہتے ہیں ʹحسن علی اگرچہ پہلے سے کھیل رہے تھے لیکن وہ چیمپیئنز ٹرافی کے ذریعے ایک میچ ونر بولر کے طور پر سامنے آئے۔ انھوں نے اہم مواقعوں پر وکٹیں لے کر ٹیم پر گہرا اثر چھوڑا ۔ وہ بجا طور پر مین آف دی ٹورنامنٹ تھے۔‘

سرفراز احمد لیگ سپنر شاداب خان کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’شاداب خان ایک ایسے کرکٹر ہیں جن کے ساتھ میری ذہنی ہم آہنگی بہت اچھی رہی ہے اور ہم ایک دوسرے پر بہت بھروسہ کرتے ہیں۔ اسی لیے جب انھوں نے یوراج سنگھ کے ایل بی ڈبلیو پر نظر ثانی کا کہا تو میں نے صرف اتنا کہا کہ اگر آپ کو یقین ہے تو ریویو لے لیتے ہیں اور اس ریویو کی وجہ سے ہمیں اہم وکٹ حاصل ہوئی۔‘

پانڈیا کا پارہ چڑھ گیا

فائنل میں جب انڈین ٹاپ آرڈر ڈھیر ہو چکا تھا تو ایسے میں ہاردک پانڈیا نے جارحانہ انداز اختیار کرتے ہوئے صرف 43 گیندوں پر 76 رنز کی عمدہ اننگز کھیلی لیکن وہ رویندرا جادیجا کے ساتھ غلط فہمی کی وجہ سے وہ رن آؤٹ ہو گئے۔

ہاردک پانڈیا نے انڈیا کی خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کو انٹرویو میں تسلیم کیا تھا کہ وہ شدید غصے میں تھے جو ڈریسنگ روم میں سب کو نظر بھی آیا تھا لیکن یہ غصہ صرف تین منٹ تک رہا تھا جس کے بعد انھوں نے ہنسنا شروع کر دیا اور انھیں ہنستا ہوا دیکھ کر دوسرے کھلاڑی بھی ان پر ہنس رہے تھے۔

فخرزمان کہتے ہیں کہ ’پانڈیا نے میچ میں جان ڈالنے کی کوشش کی تھی لیکن ہمیں پتا تھا کہ ٹارگٹ اتنا زیادہ تھا کہ اکیلے بیٹسمین کے لیے اس تک پہنچنا آسان نہیں تھا۔ پانڈیا کے آؤٹ ہونے کے بعد جیت کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں رہی تھی۔‘

اظہر علی کا کہنا ہے کہ انڈیا کی بیٹنگ ہمیشہ سے مضبوط رہی ہے اور اوول کی وکٹ دیکھتے ہوئے ہمیں ابتدا ہی میں وکٹوں کی ضرورت تھی۔ ہمیں اپنی بولنگ پر بھروسہ تھا لیکن اگر ہمیں شروع میں وکٹیں نہ ملتیں تو پھر یہ میچ کانٹے دار ہو سکتا تھا۔‘

ہاردک پانڈیا

ہاردک پانڈیا نے بعد میں ایک انٹرویو میں تسلیم کیا تھا کہ وہ آؤٹ ہونے پر شدید غصے میں تھے

جیت کے بعد احساسات

سرفراز احمد کہتے ہیں کہ یہ یادیں صرف ان کے لیے ہی نہیں بلکہ ہر کھلاڑی کے لیے زندگی بھر کا ساتھ ہیں۔

’میں لڑکوں سے فائنل سے پہلے یہی کہہ رہا تھا کہ نتیجے کا مت سوچیں۔ ہم بہادروں کی طرح کھیلتے آئے ہیں اسی طرح کھیلنا ہے۔ پہلے میچ کے بعد لوگ کہہ رہے تھے کہ یہ ٹیم کچھ نہیں کرے گی لیکن کھلاڑیوں نے ہمت پکڑی اور ٹیم منیجمنٹ نے بھی کھلاڑیوں کو حوصلہ دیا۔‘

مکی آرتھر کا کہنا ہے کہ چیمپیئنز ٹرافی کی جیت ان کے کوچنگ کریئر کے چند بہترین لمحات میں سے ایک ہے۔

’یہ جیت اس لیے بھی مجھے یاد رہتی ہے کہ ایک نوجوان ٹیم نے یہ کامیابی حاصل کی تھی۔ فائنل کے بعد کے لمحات کو میں نہیں بھول سکتا۔ ڈریسنگ روم میں ہر طرف قہقہے تھے چہروں پر خوشی تھی۔ سب کو اپنی محنت کا صلہ مل گیا تھا جو وہ پچھلے دو تین ہفتوں سے کرتے آئے تھے۔‘

اظہر علی کہتے ہیں کہ ہر کھلاڑی کے کریئر میں کئی بہترین انفرادی کارکردگی سامنے آتی ہیں۔ کئی یادگار جیت بھی ہوتی ہیں لیکن ان میں کچھ ایسے میچ ہوتے ہیں جو انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں اور انھیں کبھی بھی نہیں بھلایا جا سکتا۔

چیمپیئنز ٹرافی

مکی آرتھر کا کہنا ہے کہ چیمپیئنز ٹرافی میں پاکستان کی جیت ان کے کوچنگ کریئر کے چند بہترین لمحات میں سے ایک ہے

’چیمپیئنز ٹرافی کا فائنل بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ ہمارے کریئر کا یہ بہترین دن تھا۔ چیمپیئنز ٹرافی کی اس جیت کا پاکستانی کرکٹ کی تاریخ کی کسی بھی بڑی جیت سے موازنہ کریں تو یہ کسی سے بھی کم دکھائی نہیں دے گی۔‘

وراٹ کوہلی پاکستانی جیت کے معترف

وراٹ کوہلی کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ جتنا اچھا کھیلتے ہیں اتنا ہی اچھا بولتے ہیں۔

فائنل کے بعد وہُ کھلے دل سے پاکستانی ٹیم کے معترف تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ فخر زمان جیسے کھلاڑیوں کا جب دن ہو تو انھیں روکنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

مزید پڑھیے

نسیم شاہ: ’والد نے کہا انگریز والا کھیل مت کھیلو‘

وسیم اکرم: کالج کی ٹیم کا بارہواں کھلاڑی پاکستانی ٹیم کا فاسٹ بولر کیسے بنا؟

میلکم مارشل: وہ فاسٹ بولر جو ’صرف دو گیندوں میں بلے باز کی کمزوری جان لیتے‘

وراٹ نے فخر زمان کے بارے میں یہ بھی کہا تھا کہ ’ان کے 80 فیصد شاٹس ہائی رسک تھے لیکن لگے جا رہے تھے اور اگر ایسا ہو تو آپ کو سمجھ لینا چاہیے کہ اس خاص دن میں یہ بیٹسمین بہت اچھا ہے کہ ہر چیز سے نمٹ سکتا ہے۔ ہم نے اظہر اور فخر کی پارٹنرشپ توڑنے کی ہر کوشش کر ڈالی لیکن کوئی بات ہمارے حق میں نہیں گئی۔‘

یہ وراٹ کوہلی کا بڑا پن ہے کہ انھوں نے کسی لگی لپٹی بات کے بغیر یہ بھی کہا تھا کہ ’آپ کو کسی وقت حریف کی مہارت کو بھی تسلیم کرنے میں کوئی دقت نہیں ہونی چاہیے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32506 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp