ایران کے صدارتی انتخابات


جمعہ 18 جون کو ایران میں تیرہویں صدارتی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ پچھلے کچھ ہفتوں پر محیط نیم گرم انتخابی مہم اور سرکاری ٹیلیویژن پر صدارتی امیدواروں کے درمیان منعقد تین مناظرات کے بعد کل ایرانی عوام اپنے رائے کا اظہار کریں گے۔ کرونا کی وجہ سے محدود انتخابی مہم، امریکہ کے JCPA سے نکلنے اور ایف اے ٹی ایف سے عدم تعاون کی وجہ سے بلیک لسٹڈ ملک قرار دیے جانے کی وجہ سے عائد انتہائی شدید اقتصادی پابندیوں کے باعث ایران میں ناقابل برداشت افراط زر اور مہنگائی سے تنگ عوام کی مایوسی اور اصلاح پسند کیمپ کا کوئی بھی قابل ذکر امیدوار نہ ہونے کی وجہ سے ان انتخابات میں ٹرن آؤٹ گزشتہ انتخابات کی نسبت کم رہنے کا امکان ہے۔ ایران کے مستند ترین پولنگ ایجنسی ایسپا کے مطابق ٹرن آؤٹ 42 سے 50 فیصد تک رہے گا جو کہ اب تک ہونے والے بارہ صدارتی انتخابات میں سب سے کم ہوگا۔ ایران عراق جنگ کے دوران اور اس کے بعد منعقد ہونے والے 85، 89 اور 93 کے انتخابات میں ٹرن آؤٹ 50 سے 55 فیصد کے درمیان تھا۔

گو کہ شورای نگہبان کے امیدواروں کی متنازعہ سکروٹنی اور سابق صدر احمدی نژاد، سابق اسپیکر علی لاریجانی، سابق نائب صدر اسحاق جہانگیری جیسے مضبوط امیدواروں کے انتخابی دوڑ سے خارج ہونے کے بعد ، انتخابات ایران کے موجودہ چیف جسٹس ابراہیم رئیسی کے حق میں تقریباً یک طرفہ ہونے کے امکانات ہیں۔ اس بارے میں رہبر انقلاب آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کچھ دن قبل اپنے ایک خطاب میں اشارہ بھی کیا جس میں انہوں نے کچھ امیدواروں کے ساتھ اسکروٹنی کے عمل میں زیادتی کے ازالے کی بات کی جس کے جواب میں شورای نگہبان کے ایک بیان میں اس بات کی یقین دہانی کی گئی کہ امیدواروں کی سکروٹنی میں کسی بھی قسم کے غلط رپورٹس کا عمل دخل نہیں تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سابق اسپیکر علی لاریجانی کے مطابق ابھی تک ان کی ڈس کوالیفیکیشن کی وجوہات شورای نگہبان نے انہیں فراہم نہیں کیں (ایرانی آئین کے مطابق شورای نگہبان امیدواروں کو اپنے فیصلے کی وجوہات بتانے کی پابند ہے ) اور اس سلسلے میں لاریجانی صاحب نے اپنے دو خطوط کے ذریعے شورای نگہبان سے مطالبہ بھی کیا ہے کہ شورای نگہبان اپنی وجوہات پبلک کرے تاکہ ان کے بارے میں پھیلائے گئے پروپیگنڈے کا ازالہ ہو سکے (یاد رہے کہ شورای نگہبان کے فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر ان کی ڈس کوالیفیکیشن کی وجہ ان کی بیٹی کا امریکہ میں زیر تعلیم ہونا قرار دیا جا رہا ہے ) ۔

بہر کیف شورای نگہبان کی سخت چھلنی سے نکلنے والے سات امیدواروں میں سے آج جمعرات 17 جون تک صرف چار امیدوار میدان میں باقی رہ گئے ہیں۔ توقعات کے عین مطابق قدامت پسند کیمپ کے دو امیدوار ڈاکٹر سعید جلیلی اور علی رضا زاکانی، ابراہیم رئیسی کے حق میں دستبردار ہوچکے ہیں اور دیگر قدامت پسند امیدوار امیر قاضی زادہ ہاشمی پر رائٹ ونگ کے تمام حلقوں کی جانب سے بھرپور دباؤ ہے کہ وہ بھی ابراہیم رئیسی کے حق میں دستبردار ہوجائیں جو کہ ابھی تک کارگر ثابت نہیں ہوا۔

قاضی زادہ ہاشمی ابتدائی سات صدارتی امیدواروں میں سے سب سے کم پہچانے جانے والے امیدوار تھے، لیکن صدارتی مناظروں اور دیگر پروگرامز میں اپنی متانت، سنجیدگی اور مکمل تیاری کی وجہ سے پڑھے لکھے نوجوان طبقے میں ایک محدود مقبولیت پا گئے ہیں جس کی وجہ سے وہ شاید دستبردار نہ ہوں۔ ایران کے انتخابی قوانین کے مطابق امیدوار پولنگ شروع ہونے تک انتخابات سے دستبردار ہو سکتا ہے اس لیے کل تک شدید دباؤ کی وجہ سے ان کا بھی دوڈ سے خارج ہونا قرین از قیاس نہیں۔

قاضی زادہ ہاشمی کے علاوہ میدان میں چیف جسٹس ابراہیم رئیسی، سابق گورنر ایرانی سنٹرل بینک عبدالناصر ہمتی اور سدابہار صدارتی امیدوار اور ایران/عراق جنگ کے دوران سپاہ پاسداران کے سربراہ محسن رضائی (یہ ان کا چوتھا صدارتی الیکشن ہے، وہ 2005 میں آخری وقت میں دستبردار ہوئے تھے جبکہ 2009 اور 2013 میں بھی انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں ) ابھی تک موجود ہیں اور کل کے انتخابات میں انہی تین امیدواروں میں کسی حد تک مقابلے کی امید کی جاری ہے۔

تمام سروے اور پولز کے مطابق ابراہیم رئییسی انتخابی دوڑ میں سب سے آگے ہیں۔ ایسپا کے انتخابات سے قبل آخری سروے کے مطابق رئیسی 63 فیصد، محسن رضائی 9 فیصد، عبدالناصر ہمتی 4.2 فیصد اور قاضی زادہ ہاشمی 3 فیصد ووٹ لے سکتے ہیں۔ اس سروے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ انتخابات سے ایک دن قبل تک تقریباً 20 فیصد ووٹرز ابھی بھی حتمی رائے تک نہیں پہنچے۔

چیف جسٹس ابراہیم رئیسی کو تمام بڑے قدامت پسند جماعتوں، ایران کے طاقتور سپاہ پاسداران کے مقتدر حلقوں اور حوزہ علمیہ قم کی با اثر تنظیم جامعہ مدرسین قم کی مکمل اور علانیہ حمایت حاصل ہے۔ ابراہیم رئیسی 2017 کے الیکشن میں صدر روحانی کے مقابلے میں 15 ملین ووٹ لینے میں کامیاب ہوئے تھے۔ پچھلے کچھ سالوں میں بحیثیت چیف جسٹس، اپنے جوڈیشل ایکٹیویزم کی وجہ سے ایرانی سرکاری ذرائع ابلاغ میں ملنے والی کوریج کے باعث عوام میں بلاشبہ کافی مقبول ہیں۔

جب کہ ڈاکٹر محسن رضائی اپنے آبائی علاقے خوزستان (عرب اکثریتی صوبہ) اور ایران کے وسط میں زاگرس پہاڑی سلسلے کے اطراف رہنے والی قومیتوں (لر، بختیاری و دیگر) میں کافی مضبوط ووٹ بینک رکھتے ہیں اور کل کے انتخابات میں اچھے خاصے ووٹ لے کر سرپرائز دے سکتے ہیں۔

تیسرے امیدوار عبدالناصر ہمتی کا یہ پہلا الیکشن ہے، اس سے قبل وہ زیادہ تر انتظامی عہدوں پر فائز رہے ہیں اور عوامی سیاست سے کافی دور تھے۔ وہ سابق صدر اور اسلامی انقلاب کے بنیادی رہنماؤں میں سے ایک مرحوم آیت اللہ رفسنجانی کے قریب سمجھے جاتے تھے۔ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود وہ ابھی تک کسی بھی بڑے اصلاح پسند جماعت کی علانیہ حمایت نہیں لے سکے مگر انفرادی سطح پر کچھ با اثر اصلاح پسند رہنماؤں کی حمایت انہیں حاصل ہے۔

زمینی صورتحال اور انتخابی رائے عامہ جاننے والے سرویز کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر ووٹر ٹرن آؤٹ 50 فیصد سے نیچے رہتا ہے تو کل کے انتخابات میں ابراہیم رئیسی صاحب ایک آسان فتح کی جانب گامزن ہیں کیونکہ ان کا ووٹ بینک ایک مخصوص نظریاتی اور عقیدتی گروہ پر مشتمل ہے، جو ہر حال میں ان کو ووٹ دیں گے۔ لیکن آج اور پولنگ کے دن کوئی خاص عوامی لہر چل گئی جس کی وجہ سے ووٹر ٹرن آؤٹ توقعات سے زیادہ ہو تب صورتحال یکسر بدل سکتی ہے اور شاید انتخابات دوسرے مرحلے تک چلے جائیں (ایرانی قوانین کے مطابق انتخابات میں اگر جیتنے والے امیدوار کے ووٹ مجموعی ووٹ کے 50 فیصد سے کم ہوں تو پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار کے درمیان ”رن آف الیکشن“ ہوتا ہے ) ، لیکن اس بات کا امکان بہت ہی کم ہے۔

پس تحریر:
کل کے انتخابات کے نتائج (ذاتی رائے ) :
ابراہیم رئیسی 18 سے 22 ملین ووٹ
محسن رضائی 3 سے 6 ملین ووٹ
عبدالناصر ہمتی 2 سے 4 ملین ووٹ
قاضی زادہ ہاشمی 1 سے 2 ملین ووٹ (اگر آخر تک رہ سکیں )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments