بگ بینگ تھیوری


آغاز کائنات کے بارے میں عظیم دھماکے یا بگ بینگ کے نظریے کی تصدیق، کائنات میں کہکشاوں، جو کئی لاکھ چھوٹے بڑے ستاروں یعنی مختلف عمر اور مرحلوں سے گزرتے سورجوں، کائناتی دھول، بلیک ہولز، توانائی اور تابکاری پر مشتمل ہوتی ہیں، کے بہت تیزرفتار کے ساتھ ایک دوسرے سے دور جاتی لاتعداد کہکشاوں اور بڑے بڑے اجسام کے مشاہدے اور مطالعے سے ہوتی ہے، سائنسدانوں نے ستاروں اور کہکشاوں کے ایک دوسرے سے دور جانے کی رفتار کو ماپ کر آغاز کائنات کے لیے بگ بینگ یا عظیم دھماکے سے آغاز کا نظریہ قائم کیا کیونکہ اس کائنات کے پھیلنے کا ماڈل اس کا آغاز ایک عظیم دھماکے سے ہونے کی تصدیق کرتا ہے، جس کے اثرات ابھی تک کہکشاوں اور آزاد اجسام کے ایک دوسرے سے دور جانے کی صورت میں جاری ہیں۔

لیکن کہا جا سکتا ہے کہ، دراصل بگ بینگ بھی ایک دور کا اختتام اور ایک دور کا آغاز تھا، جب ساری کائنات کا مادہ ایک نقطے پر مرتکز ہو گیا تھا، جیسے بلیک ہول میں ہوتا ہے، کہ ایک چمچ کے برابر مرتکز مادے کا وزن کئی کروڑ ٹن ہو جاتا ہے، اور پھر بلیک ہول کی دوسری طرف سے یہ مادہ سٹار ڈسٹ یا ستاروں کی گرد اور ریڈی ایشن اور توانائی کی صورت میں خلاے بسیط میں بکھر جاتا ہے، اور یہ بہت چھوٹے ذرات اپنی باہمی کشش یا گریویٹیشنل فورس کی وجہ سے مل کر دوبارہ سے اجسام کی شکل اختیار کر لیتے ہیں گویا ہر بلیک ہول میں بگ بینگ سے ملتا جلتا ماڈل بہت چھوٹے پیمانے پر موجود اور رو بہ عمل ہوتا ہے۔

اس طرح کائنات میں موجود تمام مادہ ایک مرکز کی طرف مرتکز ہو جاتا ہے لیکن بہت بڑے پیمانے پر، پھر یہ مادہ ارتکاز کی آخری انتہا پر پہنچ کر کثافت کے ایک آخری حد سے بڑھ جانے کی وجہ سے بگ بینگ یا عظیم دھماکے کی شکل میں بکھر جاتا ہے، اب یہاں دو نظریات ہیں کہ کیا اس دھماکے سے پھیلتے اجسام ہوا میں اچھالے گئے پتھر کی طرح واپس اپنے مرکز کی طرف ارتکاز کا سفر شروع کریں گے یا خلائے بسیط میں بکھر جائیں گے، یہاں ایک اور دلچسپ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ مادے کے واپس اپنے مرکز کی طرف واپسی کے سفر کے ساتھ کیا آگے کی سمت بڑھتا وقت بھی الٹی سمت میں چلنے لگے گا، اور مادے کے ساتھ واپس اپنے مرکز تک پہنچ کر پھر اس مادے کے انتہائی ارتکاز پر دوبارہ بگ بینگ کی صورت میں دوبارہ سے آگے کا سفر شروع کر دے گا، یعنی وقت مادے کے ساتھ وابستہ ہے، مادہ مرکز سے دور جائے گا تو وقت بھی اس کے ساتھ اس سفر پر اسی سمت میں روانہ ہو گا، اور جب مادہ واپسی کا سفر شروع کرے گا تو اس الٹی سمت کے واپسی کے سفر میں بھی وقت مادے کے ساتھ ہی اسی سمت میں حرکت پذیر ہو گا۔

پہلا نظریہ دھڑکتی کائنات کا نظریہ کہلاتا ہے اس کے تحت یہ ایک سائکل ہے جو پھر سے۔ اپنے آپ کو دہراتا ہے یعنی ارتکاز# بگ بینگ # پھیلاو# اور اپنی آخری حد یا توانائی جو اجسام کو دور لے جا رہی ہے کے زیرو ہو جانے کے بعد واپسی کا سفر۔ اور پھر سے ارتکاز کے بعد بگ بینگ۔ یہاں ایک اہم حقیقت کو مدنظر رکھا جانا ضروری ہے کہ ہماری بہت محدود رینج کی وجہ سے ہم اسے ”یونی ورس“ یعنی ایک کائنات کہتے ہیں، لیکن درحقیقت یہاں ”ملٹی ورس“ یعنی ایسی ایسی لاتعداد کائناتیں موجود ہیں، جن کی وسعت کا تصور کرنا بھی فی الحال ہمارے لیے ناممکن ہے۔ لہذا حقیقت اعلیٰ کی سمت نسل انسانی کا قدم قدم آگے کی طرف کو جاری علمی اور تحقیقی سفر ہی ممکن اور درست طریقہ ہے اور اس طریقے کی افادیت اس طرح سے ’‘ روحانی طریقے“ پر مقدم ہے کہ یہ سست رفتار علمی سفر اپنے آگے کو بڑھتے ہر قدم کو ثابت کرتا چلا جا رہا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
25 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments