مفتی عزیز الرحمان سکینڈل: کیا علمائے کبار چپ رہیں گے؟


مفتی عزیز الرحمان کے سکینڈل نے مدارس میں بچوں کے تحفظ کو نکتہ بحث بنا دیا ہے۔ اس معاملے پر عوامی ردعمل نہایت شدید تھا مگر علمائے کبار کی جانب سے ایک مکمل اور مہیب خاموشی دکھائی دی۔ دینی حلقوں سے جڑے نوجوانوں نے اس معاملے پر عوام کے ساتھ کھڑے ہو کر سخت سزا کا مطالبہ کیا۔ ان کی رائے یہی دکھائی دی کہ وہ مسجد و مدرسے کو یوں بدنام کرنے پر مفتی عزیز الرحمان سے شدید ناراض ہیں۔

لبرل کیمپ کا ردعمل اس پر یہ تھا کہ اگر صبا قمر کے مسجد وزیر خان میں فوٹو شوٹ پر اسے توہین مسجد اور توہین شعائر کا مرتکب گردان کر بلاسفیمی کا مقدمہ درج کیا گیا تھا تو کیا مفتی عزیز الرحمان کا فعل اس سے کئی گنا بڑی توہین نہیں ہے؟ مقدس اوراق ہاتھ میں پکڑ کر ایسا فعل کرتے ہوئے کیا شعائر اللہ کی توہین نہیں ہوئی؟ ملالہ کے ایک جملے پر جیسا طوفان اٹھایا گیا تھا ویسا ردعمل مفتی عزیز الرحمان کے معاملے پر کیوں دکھائی نہیں دے رہا؟ کیا وجہ تھی کہ طالب علم کے بیان کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا، اس کی ویڈیو دیکھنے کے باوجود بھی وفاق المدارس عربیہ اور جامعہ منظور الاسلامیہ والے یہی کہتے رہے کہ انہیں ویڈیو پر نہیں مفتی عزیز الرحمان کی پاکدامنی پر یقین ہے حتیٰ کہ سکینڈل سوشل میڈیا پر پھٹ پڑا۔

اب خدا خدا کر کے کفر ٹوٹا ہے۔ کل جمعیت علمائے اسلام لاہور کے ضلعی امیر نے اس معاملے پر ردعمل دیتے ہوئے مولانا عزیز الرحمان کی بنیادی رکنیت معطل کرنے، ان سے لاتعلقی اختیار کرنے اور ویڈیو سکینڈل کے تمام کرداروں کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا۔

مفتی شہاب الدین پوپلزئی نے مفتی عزیز الرحمان سے برات کا اظہار کرتے ہوئے انتظامیہ کو آگے بڑھ کر سخت کارروائی کرنے کا کہا۔ لیکن سب سے زیادہ سخت موقف علامہ ہشام الہی ظہیر کا تھا۔ انہوں نے اپنے خطبے میں کہا کہ ”مسجد کے اندر بیٹھا ہوا چاہے کوئی بدکار ملا ہو، ہاتھ میں قرآن اور حدیث کی کتاب لے کر، کسی بدفعلی کا مرتکب ہوا ہو، تو یہ صرف بدفعلی کا جرم نہیں ہے، بلکہ توہین مساجد بھی ہے، توہین شعائر اللہ بھی ہے۔“

انہوں نے مزید کہا ”ہم یہ بات علی الاعلان کہتے ہیں کہ اس طرح کے بدکار ملاؤں، ٹیچروں، استادوں، کسی بھی شعبے کے اندر ہوں، اس فعل شنیع کو برپا کرنے والے، اس فعل شنیع کا ارتکاب کرنے والے، ان کو شرعی سزا دی جائے۔ آج ہم کہتے ہیں کہ ان کو سنگسار کر دیا جائے، سٹوننگ ٹل ڈیتھ، اس وقت تک پتھر مارے جائیں جب تک مر نہیں جاتے۔“

لیکن مدارس اور علما کو یوں کٹہرے میں کھڑا کر دینے والے واقعے پر علمائے کبار کی خاموشی مایوس کن ہے۔ نہ تو مفتی اعظم پاکستان کہلانے والے مولانا رفیع عثمانی کا کوئی بیان دکھائی دیا، نہ ان کے جلیل القدر بھائی مولانا تقی عثمانی کچھ بولے، نہ خود کو شیخ الاسلام قرار دینے والے علامہ طاہر القادری کہیں دکھائی دیے، نہ جمعیت علمائے اسلام کی مرکزی قیادت نے اس معاملے پر بات کی، نہ جماعت اسلامی کی صف اول کی لیڈر شپ کا موقف سنائی دیا، نہ ہی مولانا ساجد میر نے اپنا بیان دیا۔

اہل تشیع کو تو چلیں شک کا فائدہ دیا جا سکتا ہے کہ اس معاملے کے فرقہ وارانہ رنگ اختیار کرنے کے خوف سے انہوں نے خاموشی بہتر سمجھی، مگر سنی علمائے کبار کیوں نہیں بتاتے کہ وہ مدارس کے طلبا اور پاکستان کے بچوں کے ساتھ کھڑے ہیں یا مفتی عزیز الرحمان کے؟ کیا وہ مفتی عزیز الرحمان کو بچانا چاہتے ہیں یا بچوں کو؟ انہوں نے مفتی شہاب الدین پوپلزئی اور علامہ ہشام الہی ظہیر جیسی جرات کیوں نہیں دکھائی؟ یہ تو گویا ایک مجرمانہ سی خاموشی ہے۔

اسی بارے میں: علامہ ہشام الہی ظہیر نے مفتی عزیز کو سنگسار کرنے، مفتی پوپلزئی نے سخت سزا کا مطالبہ کر دیا

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments