گالی کیوں دی؟


چلتے چلتے ٹھوکر لگنے، کسی کے گاڑی مارنے، اچانک چائے گرنے، کسی کی غلط حرکت پر منہ سے گالی نکل جاتی ہے، انسانی تاریخ الفاظ کی جنگ و جدل سے بھری پڑی ہے، ہر ثقافت کے اپنے اخلاقی ضابطے ہیں اور ان میں ہونے والی خلاف ورزیوں کے پس منظر ہوتے ہیں۔ سماجی امور کے ماہرین گالیوں یا کہہ لیں، مغلظات کی درست تشریح نہیں کر پاتے، یہ تھوڑا سا مشکل ہے۔ گالی کا تعلق ثقافت سے ہوتا ہے۔

گالی پیار، خوشی، حیرت اور غصے کے جذبات کے دوران استعمال ہوتی ہے، ماہرین کہتے ہیں جب انسان کے پاس اچھے متبادل الفاظ کی لغت دستیاب نہیں ہو پاتی تو انسان فوری گالی نکال دیتا ہے۔ بی بی سی کے ایک مضمون میں پچھلے دنوں سماجی تعلقات کی ماہر ڈاکٹر ایما برن کا کہنا تھا کہ یہ اس قسم کی زبان ہے جسے ہم صدمے، حیرت، خوشی، مذاق یا جارحیت کے وقت استعمال کرتے ہیں۔ لیکن یہ ایک ثقافتی معاملہ ہے جس کا ادراک کسی مخصوص سماج، لسانی گروہ، معاشرے، ملک یا مذہب کے اندر ہی ہوتا ہے۔

ہم اتفاق رائے سے فیصلہ کرتے ہیں کہ گالی کیا ہے اور اس کا بہت حد تک اس بات سے تعلق ہوتا ہے کہ کسی خاص ثقافت میں کون سی باتیں منع ہیں۔ بعض ثقافتوں میں جسم کے اعضا کے ذکر سے جذبات مجروح ہوتے ہیں، کہیں جانوروں کے نام سے، بعض جگہ بیماریوں کے ذکر سے اور بعض کا تعلق کسی جسمانی فعل سے ہوتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ گالی گلوچ کا ایک بنیادی عنصر ہے : جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے ضروری ہے اس معاشرے میں پائی جانے والے ممنوع باتوں کو کام میں لایا جانا ہے۔

ڈاکٹر برن کہتی ہیں کہ ’یہ زبان کی وہ قسم ہے جو آپ خاص مواقع پر استعمال نہیں کریں گے، جیسا کہ جاب انٹرویو، یا اپنے ممکنہ ساس سسر سے ہونے والی پہلی ملاقات کے دوران۔

ہم گالی کب اور کیوں دیتے ہیں، معلوم یہی ہوتا ہے کہ زیادہ تر خوشی، حیرت، افسوس، درد اور غصے میں منہ سے گالی نکل جاتی ہے۔ اور اس سے لوگ اپنے جذبات کی بہتر طور پر ترجمانی کرتے ہیں۔ یقیناً ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو کبھی گالی نہیں دیتے، مگر ہم میں سے زیادہ تر اس بات سے اتفاق کریں گے کہ ان مغلظات سے ہمیں اپنے اندر ایک قسم کی توانائی کا احساس ہونے لگتا ہے۔

ڈاکٹر برن کے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ اگر فالج کی وجہ سے علامتیں جن سے گالیاں مراد لی جاتی ہے

ڈاکٹر رچرڈ سٹیو کیلے یونیورسٹی میں نفسیات کے استاد اور وہاں قائم ’سویئر لیب‘ کے سربراہ ہیں جہاں گالم گلوچ کے موضوع پر تحقیق کی جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ درد کی کیفیت میں گالی دینے سے کیسے آرام ملتا ہے۔‘

یہ جانچنے کے لیے کہ آیا شدید حالت میں گالی دینے سے کوئی مدد ملتی ہے ایک تجربہ کیا جاتا ہے جس میں آپ کا ہاتھ برف سے بھری بالٹی میں ڈال دیا جاتا ہے اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ آپ اسے کتنی دیر تک برداشت کر سکتے ہیں۔ یہ تجربہ ایک شخص پر دو مرتبہ کیا جاتا ہے، ایک بار اسے گالی دینے کو کہا جاتا ہے اور دوسری مرتبہ گالی کے مترادف الفاظ ادا کرنے کو کہا جاتا ہے۔

ماہرین نے اخذ کیا کہ اس تجربے کے دوران جب لوگوں نے واقعی گالیاں بکیں تو وہ اپنا ہاتھ دیر تک برف کے اندر رکھ سکے، جبکہ متبادل الفاظ استعمال کرتے وقت اس تکلیف کو سہنے کی ان کی قوت کم ہو گئی۔ ان کے مطابق ایسا اس لیے ہے کہ متبادل الفاظ کا ہمارے جذبات سے وہ رشتہ نہیں ہے جو حقیقی گالیوں کا ہوتا ہے۔

ڈاکٹر سٹیو کا کہنا ہے کہ ’عام الفاظ کے مقابلے میں گالی دیتے وقت ہمارے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے۔ یہ بات گالیوں سے ہمارے جذباتی تعلق کو ظاہر کرتی ہے، اور ہم جانتے ہیں کہ گالیاں ایک طرح کی جذباتی زبان ہے۔‘

ہمارے معاشرے میں گالی کا استعمال طبقاتی فرق سے مختلف نوعیت کا ہے، ایک عام آدمی اور مزدور کچھ نہ کچھ کہتا بلکہ بکتا رہتا ہے، متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی ترجیحات ہوتی ہیں، جبکہ اہم منصب پر بیٹھے با اختیار حضرات کی گالیوں اور مغلظات کا انداز الگ ہوتا ہے۔ البتہ ایسا ضرور ہے جنہیں اچھے متبادل الفاظ دستیاب ہوتے ہیں وہ ان کا بھرپور اور طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔

گالی کبھی اچھی خیال نہیں کی جاتی لیکن کہیں یہ بری نہیں لگتی کہیں اس پر تکلیف ہوتی ہے اور اکثر غصہ بھی آ جاتا ہے، جس کے جواب میں گالی ہی نکل جاتی ہے۔

بڑوں سے سنتے آئے ہیں گالی کی بنیاد درحقیقت سماجی برائی سے ہے، اگر کچھ گالیوں کے الفاظ پر غور کریں تو ایسی تمام برائیاں معاشرے میں پائی جاتی ہیں۔ انسانی تاریخ میں ہر دور میں ایسے بری حرکات کے واقعات بھرے پڑے ہیں جنہیں گالی کی صورت بولا جاتا ہے۔

مقصد برا بھلا کہنا یعنی جب ہم پیار میں بھی کوئی گالی دیتے ہیں تو درحقیقت وہ کسی غصے یا نفرت کا کہیں پائے جانے والا اظہار ہی ہوتا ہے۔ لیکن ماہرین نفسیات کی رائے میں زیادہ اپنے سے کمزور اور چھوٹے اس کا شکار بنتے ہیں۔ کسی با اختیار اور طاقتور کو کم ازکم اس کے منہ پر گالی نہیں پڑتی اس کے لئے تھوڑا حوصلہ اور جگرے کی ضرورت ہوتی ہے۔

بہر طور گالی ثقافت کا حصہ ہے، اسے مہذب گفت و شنید میں کوئی مقام نہیں۔ لیکن یہ کہہ کر اس کی نفی ہرگز نہیں کی جا سکتی کہ گالی کا جواز نہیں۔ یہ درست ہے گالی غلط اور جائز فعل نہیں لیکن اس کے محرکات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments