ہم عورتیں آپ سے کیا چاہتی ہیں؟


ہم عورتیں مردوں سے کیا چاہتی ہیں؟ آپ ہم سے بہت کچھ چاہ سکتے ہیں مگر آپ ہم سے ہمارے بھائی، باپ، دوست، ہمسفر، دفتر کے ساتھی، استاد ہونے کے ناتے کیوں نہیں سمجھتے کہ ہم آپ سے ہمارے بارے کیا چاہتی ہیں؟ اللہ نے عقل اور شعور تو دیا ہے اور سب کو ہی دیا ہے، اگر زمانے کے لحاظ سے عقل اور شعور کو استعمال کرنے کی سکت بھی دی ہے تو پھر بھی آپ لوگ کیوں نہیں سمجھ پاتے کہ ہم آپ سے کیا چاہتی ہیں؟ جتنی قدر عورتوں کی نظر میں عزت کرنے والے مردوں کی ہوتی ہے، اتنی قدر تو وہ شاید کسی کی بھی نہ کرتی ہوں۔

لڑکیاں آپس میں بیٹھ کر مردوں کے جسم کی ساخت یا تنخواہ پر گفتگو نہیں کرتی بلکہ احترام سے ملنے والے مردوں کو زیادہ یاد کرتی ہیں۔ ہم دو قسم کے مردوں کو خاص طور یاد رکھتی ہیں۔ ایک قسم وہ جو صنفی اور جنسی اعتبار سے کوئی غلط اور بھیانک حرکت کرے اور دوسرا وہ جو کبھی زندگی میں ایک بار ہی سہی مگر ہم سے نہایت ادب اور احترام سے پیش آیا ہو۔ ادب، عزت، اور احترام سے میری مراد ہرگز روزمرہ زبان میں تم کی جگہ آپ کہنا نہیں ہے، کیونکہ تم کہنے والے بھی مان رکھ لیتے ہیں اور آپ پکارنے والے بھی عورت کی کسی بھی لحاظ سے بے حرمتی کرتے پائے جاتے ہیں۔ مجھے آج تک اپنے دفتر میں کام کرنے والے دو ساتھیوں کی اس انداز سے چابیاں اور یو ایس بی تھمانا یاد ہے کہ کسی طرح ان کے ہاتھ میرے ہاتھ سے نہ ٹکرائیں۔ ایسا رویہ رکھتے آدمیوں کی عزت کو ہماری نظروں میں بہت سے چاند لگ جاتے ہیں۔

ذرا برابر کوئی مرد کسی عورت کی اعصابی یا جسمانی حدود کی عزت کرتا ہے تو اس کی اہمیت ہمارے قریب پہاڑوں کی سی بلندیاں چھوتی ہے۔ دوسری جانب مجھے ان مردوں کے چہرے بھی یاد رہتے ہیں جنہوں نے میری اعصابی و جسمانی حد بندیوں کی حرمت سامنے نہ رکھی ہو، صرف اس لئے کہ میں عورت ہوں، جیسے راہ چلتے جملہ بازی کی ہو، گاڑی اور بس میں بوتل پھینکی ہو، دوستی کے نام پر بد لحاظی کے مرتکب ہوئے ہوں۔ آپ بس صرف، ذہنی، جنسی اور ذاتی لحاظ سے ہماری حد بندیوں کی عزت ہی کر لیا کریں، یہ ہمارے لئے خاصا دل کش مرحلہ ہوتا ہے۔

عورتوں کے قریب رومان پروری کی سب سے مستند تعریف کسی مرد کا عورت کو پھول یا تحائف دینا نہیں بلکہ اس کی حدود کی فقط لاج رکھنا ہی کافی ہوتا ہے۔ آپ ہم سے باہمی دوستی یا مناسب تعلق رکھنا چاہتے ہیں تو ہماری اس آرزو کا احترام کر لیا کریں کہ ہم آپ سے کوئی بھی مادی فائدہ نہیں بس دل میں احترام ہی چاہتی ہیں۔ آپ دوسرے دوستوں سے ہم سے غلط باتیں منسوب نہ کریں، ہم کیا کرتی کیا چاہتی ہیں کہ نت نئی اور نایاب کہانیاں بنا کر داستان گوئی سے اجتناب کریں تو اس سے بڑھ کر ہم عورتیں آپ سے کیا چاہ سکتی ہیں؟

ہم کیسا لباس زیب تن کرتی ہیں، کس نے کل عبایہ پہنا تھا تو آج اگر شلوار قمیض پہن لی بھلا اس کا آپ سے کیا تعلق؟ آپ کی فلاں دوست گھر کی بجائے یونیورسٹی میں آ کر بناؤ سنگار کرتی ہے تو آپ کون ہوتے ہیں اس کے کردار کی اسناد تقسیم کرنے والے؟ آپ بھی اس سے مانگ کر بناؤ سنگھار کر کیا کریں تاکہ آپ بھی کچھ دل کش معلوم ہوں۔ ہمیں سب معلوم ہوتا ہے کون کہاں ہماری حدود کی بیخ کنی کرتا ہے۔ ہم سب یاد بھی رکھتی ہیں۔

مختصراً عورت چہرے اور اعمال نہیں بھولتی ہے۔ میں نے مذہب اور روایت کے نام پر عورتوں سے شدید نوعیت کی نفرت اور دشمنی دیکھی ہے تو میں نے آزاد خیال طبقے کے حضرات کو بھری محافل میں عورتوں کی توہین اور ان سے صنفی اعتبار سے بدتمیزی ہوتی بھی دیکھی ہے۔ ادب اور عزت سے مراد یہ نہیں کہ آپ عورتوں کے ساتھ دیویوں سا برتاؤ روا رکھیں، بس آپ ہم سے زندہ انسانوں کی سی طرح پیش آ جایا کریں۔ وہ زندہ انسان جن کی اپنی امنگیں اور حد بندیاں ہوا کرتی ہیں۔ وہ امنگیں فطری، سیاسی، سماجی، اخلاقی اور معاشی سطحوں پر مبنی ہو سکتی ہیں جن کے آپ روادار نہیں بھی ہوسکتے۔

جہاں آج کی پاکستانی عورت قدامت پرست دائیں بازو کے افراد کو للکار رہی ہیں، وہیں کچھ باتیں دائیں بازو کے روشن خیال مردوں کے گوش گوار ہو جائیں تو برا نہیں ہوگا۔ اگر کوئی عورت ریپ یا جنسی زیادتی پر کھلے عام پدر شاہی نظام کو للکارتی ہے، اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھاتی ہے، عورتوں کے جنسی یا تولیدی نظام پر گفتگو کرتی ہے تو اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ کوئی بھی صاحب اس عورت سے اس کے تولیدی نظام پر یہ کہہ کر سوال کر سکتے ہیں کہ وہ بھی حقوق نسواں کا علمبردار ہیں۔ آپ حقوق نسواں کے علمبردار ہیں نہ ہمارے ساتھی۔

کسی کا یہ حق نہیں کہ کسی بھی عورت سے خواہ وہ تولیدی حقوق اور صحت کی ماہر ہی کیوں نہ ہو اس سے اس کے جسم بارے کوئی سوال بھی کرے۔ اگر کسی کو اپنے علم میں اضافہ کرنے کی لگن ہو تو حقوق نسواں پر یقین رکھنے والی عزیز کے بجائے کسی ماہر یا گوگل سے رابطہ کیا جائے۔ آگہی کی سچی لگن ہو یا واقعی میں خواتین پر ہونے والے تشدد کی بیخ کنی میں کردار نبھانے کے خواہاں ہوں تو اس بابت پہلے آگہی حاصل کریں کہ کیا بات کرنا زیب دیتی ہے اور کیا نہیں کیونکہ کوئی وجہ ہے تو عورتیں تشدد اور جبر کا نشانہ بنتی ہیں جس میں ان کا جسم سب سے اہم اور پیچیدہ نوعیت کا معاملہ ہے۔

تاریخی طور پر نظام نے عورت کو کم عقل ثابت کرنے میں کوئی کسر تو اٹھا نہیں رکھی مگر خود کو عورتوں پر عقل مند کہلوانے والے حضرات کو آج تک عورت کی جذباتی حدود کی سمجھ کیوں نہیں آ سکی؟ حدود کو سمجھنا قطعی دشوار منطق نہیں۔ اگر سمجھا جائے تو یہ عام فہم کا موضوع ہے۔ ایک عورت کے لئے سب سے ناپسندیدہ اور سنگین معنوں میں ناگوار امر یہ ہے جب کوئی مرد اس کی رضا اور خواہش نہ ہونے کے باوجود محبت اور انسیت کے جذبات کا والہانہ اظہار کرتا رہے۔

کھلے یا دبے الفاظ میں ایک عورت مرد کے لئے اس کے والہانہ جذبات کا جواب انکار کی صورت میں دیتی رہتی ہے جب تک اس کے صبر اور برداشت کی حد پار نہیں ہوتی۔ ہم عورتیں یہ چاہتی ہیں کہ اگر ہم آپ کو منع کریں تو آپ منع ہو جایا کریں۔ اس میں آپ کی ساکھ کی عزت اور ہماری عزت کی ساکھ محفوظ رہتی ہے، بلکہ کبھی ہماری جان بھی جانے سے محفوظ رہ سکتی ہے۔ ایک مرد کا کسی عورت سے متواتر اظہار محبت یا دوستی کی خواہش رکھنا عورت کو اپنی جان لینے پر بھی مجبور کر سکتا ہے۔

اس لئے محبت کے نام پر کسی عورت کے حصول کی لت اس کی زندگی کے لئے خطرہ بنی رہتی ہے۔ دوستی کے نام پر لڑکیوں کی اعصابی صحت کو پامال کریں نہ ان کی ساکھ کو۔ یہ نظام پہلے ہی ہم سے زندہ رہنے کے مواقع چھیننے کو کمر بستہ رہتا ہے تو آپ بھی چھپکلی کی مانند آتش پدر شاہی کو ہوا نہ دیں۔ سب سے بے زار کن بات یہ ٹھہرتی ہے کہ عورت کو اگر آپ سے رومانس نہ ہو اور آپ اس سے رومانس کا ارتکاب کرنے پر مضر رہیں، اس سے بڑھ کر حقارت آمیز معاملہ اور کون سا ہوگا؟ اس لئے نشانی پکڑیں اور اپنے راستے کو ہو لیجیے۔

ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ اگر عورت نے منع کرنا ہے تو وہ واشگاف الفاظ میں موقع پر کیوں منع نہیں کرتی؟ عورت کو دبے الفاظ میں انکار کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آتی ہے کہ اس کو یہ خوف رہتا ہے کہ انکار سے وہ کن حالات اور واقعات میں مبتلا ہو سکتی ہے۔ سب مرد جان لیتے ہیں نہ چہرے پر تیزاب پھینکتے ہیں مگر ہمیں نہیں معلوم کہ سب مردوں میں وہ کون سے حضرات ہیں جو منع کرنے پر فرعونیت کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیں گے۔ گھروں میں تربیت ہی یہی دی جاتی ہے کہ اگر کوئی آپ کو کچھ کہہ دے تو اس سے لڑائی اس لئے مول نہیں لینی کہ وہ انتقام پر اتر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گھر کے اندر اور باہر جنسی ہراسانی اور جبر کو عورت خاموشی سے سہتی ہے۔

جب نظام کسی طبقے کے خلاف نظریاتی طور پر منظم ہو، وہاں مظلوم جس کی حد بندیاں روز پامال ہوتی ہوں ایسی ہتک آمیز اور قدرے تکلیف دہ احتیاطی تدابیر اپناتے ہیں۔ کسی کا مسلسل نظر انداز کرنا، خاموش رہنا، آپ کی موجودگی میں غیر محفوظ محسوس ہونا یا بے آرام ہونا جاننے کے لئے کافی ہونا چاہیے کہ سامنے والی آپ کو نہیں چاہتی۔ جو انسان چاہے مرد ہو یا عورت جس کو جذباتی طور پر چاہتے ہوں وہ ہرگز آپ کی موجودگی سے تنگ نہیں پڑتے، بلکہ آپ کے موجود ہونے سے محظوظ ہوتے ہیں۔

چہرے کے تاثرات دل کے جذبات کے حجاب بآسانی کھول دیتے ہیں، جن کا ترجمہ عقل والے کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ عورتیں اپنے اصل شگفتہ اور غیر شگفتہ جذبات کا اظہار خوف سے نہیں کر پاتی۔ ہماری تربیت بھی خود کو مٹا کر دوسرے کی خوشی کو ترجیح دینے کی ہوتی ہے جس میں نقصان عورت کا ہی ہوتا ہے اور سامنے والے اس کی کمزوری سے خوب سیر ہوتے ہیں۔

اگر آپ اپنی ذات کے لئے حقیقی خوشی اور عزت کے خواہش مند ہیں تو اپنے ارد گرد عورتوں کی آپ سے منسلک اور غیر منسلک امنگوں کا خیال کریں، جو آپ سے کتراتی ہوں، ان سے فاصلے بڑھائیں، جو آپ کو نظر انداز کرتی ہو، آپ کی بے جا دوستی اور اپنائیت کا جواب بے زاری سے دے تو سمجھ جائیے وہ آپ کے ہونے سے جذباتی طور پر بے زار ہے۔ اس کی رائے اور اپنی عزت نفس کا احترام کریں۔ کسی عورت کی محبت کا حصول کم از کم اس کی حد بندیوں کو پھلانگ کر کبھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہ انسانی جذبات ہیں، وزن گرانے کی مشق نہیں کہ جدوجہد جاری رکھی تو مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ سامنے والی ایک عورت ہے، کمانڈو تربیت کی رکاوٹ نہیں جس کو سخت محنت سے پار کر لیا جائے۔

عورت کی شخصی آزادی کے آداب میں اس کی جنسی، جسمانی، سماجی اور اعصابی حدود بھی شامل ہیں جن کا احترام آپ پر لازم ہے۔ ہم بھی آپ سے یہ احترام اور عزت چاہتی ہیں کہ کبھی جان بوجھ کر آپ ہمارے ہاتھوں کو نہ چھوئیں، آپ کی نظریں عورتوں کے جسم کے مخصوص اعضاء پر نہ پڑیں اور کہیں ہماری نظریں آپ کی پھرتی ہوئی نظروں کو نہ پکڑ لیں۔ آپ اتنے بڑے ہیں کہ آپ کو معلوم ہے کہ جنسی زیادتی کیسے ہوتی ہے۔ جدوجہد کے کارکن ہیں تو کارکن رہیں، بے جا ہیجانی نوعیت کے سوالات سے اجتناب کریں۔ ہم ہرگز ان باکس میں آپ سے فیمنزم پر بحث کرنے کی رتی برابر خواہش مند نہیں نہ ہی عورت مارچ کے پلے کارڈز پر ہم معذرت خواہ ہیں کہ آپ کو اقدار کی روشنی میں وضاحت دیں کہ فلاں کارڈ کا کیا مطلب تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments