سیاست ایسے ہی چلے گی، سب اسی تنخواہ پر کام کریں گے


اس وقت پاکستان کے اندر نا تو تجزیہ نگار اور نا چڑی اور طوطا رکھنے والے صحافی درست خبر لا پا رہے ہیں۔
اس کی ایک بڑی وجہ پاکستان کے اندر پل پل میں بدلتے سیاسی حالات ہیں۔ جہاں ہمارے کچھ صحافی یہ چورن بیچتے نظر آ رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اس حکومت سے بہت تنگ ہے وہ اس حکومت کو چلتا کرنا چاہتی ہے لیکن ہمارے کچھ سیاستدان جو جمہوریت کی جنگ لڑ رہے ہیں وہ انھیں اب معافی دینے کو تیار نہیں وہ نہیں مان رہے ورنہ تو یہ نظام ایک جھٹکے میں ختم ہو جائے۔

میرا ایسا ماننا بالکل بھی نہیں ہے ہمارے سیاستدان تو بے بس ہو سکتے ہیں ہماری اسٹیبلشمنٹ بے بس ہرگز بھی نہیں ہے۔ ہاں انھوں نے بلدیاتی الیکشن میں خود کو دور رکھ کر حکومت اور دوسری سیاسی پارٹیوں کو کھل کر کھیلنے کا موقع ضرور دیا۔

اس کے پیچھے بھی ایک وجہ تھی۔ عمران خان کے سیاسی قد کو اس کے سائز کے مطابق لا کر اسے آئینہ دکھانا اور دوسری پارٹیوں کو یہ پیغام دینا کہ اگر آپ ہمارے ساتھ سیدھے چلو گے تو ہی اقتدار کی گلیوں میں واپسی ممکن ہو سکے گی۔

چلیں ایک چھوٹی سی خبر بھی دیتی جاؤں کہ آنے والے دنوں میں ایک جنرل صاحب کی ریٹائرمنٹ قریب آ رہی ہے جسے ہمارے کچھ نادان صحافی یہ کہہ کر بیچ رہے ہیں کہ جناب وہ سیاستدانوں سے اپنا سیف ایگزٹ چاہتے ہیں لیکن ایک سیاستدان مان نہیں رہے۔ یہ بات سنتے ہی مجھے بے اختیار ہنسی آ جاتی ہے کیونکہ نا ہی تو وہ کہیں جا رہے ہیں اور نا ہی وہ کوئی سیف ایگزٹ چاہتے ہیں۔ بلکہ ہو سکتا ہے یہی سیاستدان انھیں مزید ایکسٹینشن پلیٹ میں رکھ کر پیش کریں۔

کیونکہ اگلی جو بھی حکومت بنے گی۔ وہ اس ڈیل کا حصہ ہو گی اور یہ سب طے بھی پا چکا ہے۔ اگلی حکومت کے وزیر خزانہ یا وزیر سیکرٹری کون ہوں گے سب سیٹ ہو چکا ہے۔

”ووٹ کو عزت ملے“ نا ملے ”خدمت کو عزت“ ضرور مل جائے گی۔

اپ میرا اشارہ سمجھ تو گئے ہی ہوں گے جناب یہ جو جنتا ہے سب جانتی ہے۔
چلیں اب تھوڑا سا پاکستان اور اسٹیبلشمنٹ کے رول پہ بات ہو جائے۔

جب سے ہوش سنبھالا ہے اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ایک ہی لائن سننے کو ملتی ہے۔ پاکستان مشکل وقت سے گزر رہا ہے اور دوسری طرف سیاستدان یہی کہتے پائے جائیں گے کہ ہم اپنے اقتدار کے لئے نہیں جمہوریت کے لئے لڑ رہے ہیں لہٰذا ان تہتر سالوں میں نا ہی پاکستان مشکل وقت سے نکل سکا اور نا ہی سیاستدان پاکستان میں اصل جمہوریت لا سکے۔

اگر ہم ان دونوں نعروں کے اصل مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کریں تو ادارے اور سیاستدان اپنی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں یہی سیاستدان پہلے فوجی نرسری میں پروان چڑھتے ہیں۔ پھر اقتدار کی لت لگتے ہی اپنے آپ کو طاقتور سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔

بالکل ویسے ہی جیسے بچہ اپنے والد کے برابر قد ہوتے ہی اپنے اپ کو طاقتور اور آزاد سمجھنا شروع کر دیتا ہے، سمجھتا ہے اب مجھے میرے انگلی پکڑ کے چلانے والے باپ کی ضرورت نہیں لیکن باپ تو باپ ہی ہوتا ہے گھر سے بے دخل کر کے اپنی جائیداد سے عاق کر کے کہتا ہے کہ جاؤ اگر تم اتنے ہی طاقتور اور آزاد ہو تو اپنے بل بوتے پر زندگی گزار کے دکھاؤ ۔ اس باپ بیٹے کی جنگ ابھی بہت طویل ہے لہذا ہم سب کو صبر سے کام لینا ہو گا۔

پاکستان جیسے ملک میں جہاں پہلے فوجی جنرلوں نے پچھلے مارشل لاء سے سبق سیکھا ہے۔ وہاں ماڈرن مارشل لاء کا نہایت ہی کامیاب تجربہ بھی کیا ہے۔ اب ہمیں خود سامنے آنے کی ضرورت نہیں ہے ہم پیچھے رہ کر بھی کامیابی کے ساتھ پاکستان پر حکمرانی کر سکتے ہیں۔

دوسری طرف ہمارے سیاستدان بھی سمجھدار ہو گئے ہیں۔ پہلے کی طرح ایک دوسرے کی حکومتوں کو وقت سے پہلے ہی گرانے کی روایت کو ختم کرتے ہوئے اپنی اپنی باری کا انتظار مناسب سمجھا جا رہا ہے گویا سیاستدانوں نے ہر پارٹی کو پانچ پانچ سال پورے کروانے کا نام ہی ”جمہوریت“ رکھ لیا ہو۔

کیا ان سیاسی جماعتوں اور سیاسی لیڈران نے کبھی واقعی ہی حقیقی جمہوریت کے لئے تگ و دود نہیں کی، ابھی بھی سیاسی جماعتوں کی سیاست شخصیات کی گرد ہی گھومتی ہے۔ وہ اپنی بادشاہت قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ اپنے خاندان کے علاوہ کسی اور کے ہاتھ میں طاقت دینا ہی نہیں چاہتے۔ پھر یہ خاک عوام کے حقوق کے لئے لڑیں گے اپنی پارٹیوں کے اندر تو جمہوریت لا نہیں سکے ورکر کو صرف نعروں اور اسٹیبلشمنٹ پر دباو کے لئے کے لئے ٹول کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، تاکہ لین دین اور اچھی قیمت لگوانے میں یہ عوام بھیڑ بکریوں کی طرح استعمال ہو سکیں۔

کیا اپ نے کبھی ایم پی اے، ایم این اے، منسٹرز کے سیاست میں آنے سے پہلے اور بعد کے حالات پر نظر ڈالی ہے؟ ان کی زندگی کا مقصد عوام کی خدمت سے زیادہ اپنے بنک بیلنس اور جائیدادوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ اپنے سارے خاندان کو اسمبلیوں میں پہنچانا ہی رہ گیا ہے۔
بات کو مختصر کر کے بس اتنا کہوں گی سب اپنی پرانی تنخواہ پر یونہی کام کرتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments