موسم


شہر کے وسط میں بلند و بالا عمارتوں کے درمیان سڑکوں پر لوگوں کا بہت بڑا ہجوم ہے۔ چالیس کے پیٹے کا ایک شخص بڑے جذباتی انداز میں زور زور سے ہاتھ ہلا ہلا کر پرشور مجمعے سے خطاب کر رہا ہے۔ ہجوم اتنا بڑا ہے کہ ڈکٹا فون کے استعمال کے باوجود بہت سے لوگوں تک مقرر کی آواز پہنچ نہیں پاتی۔ کچھ دیر بعد ایک بلند نعرے کی آواز آتی ہے لیکن الفاظ صاف سنائی نہیں دیتے۔

نعرے کی گونج کے ساتھ بلند و بالا عمارتوں میں گھری ایک ٹاور نما عمارت کی سب سے اوپر والی کھڑکی کھلتی ہے۔ ایک شخص کی شکل نظر آتی ہے۔ وہ ایپملی فایر کی مدد سے کوئی اعلان کرتا ہے۔ لوگوں میں ہل چل سی پیدا ہوتی ہے۔ ان کا دائرہ پھیلنے لگتا ہے اور پھر وہ چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ ٹکڑیوں میں بٹا، ہجوم کی شکل اختیار کیے ہوئے یہ انبوہ بے ترتیبی سے رواں دواں ہے۔ نعروں کے شور میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔

ہیڈ کلرک بوٹا خان بغل میں دفتری فائلیں دبائے تیز قدم اٹھاتا دفتر کی طرف جا رہا ہے۔ سواری نہ ملنے اور ٹریفک جام کی وجہ سے اسے خاصی دیر ہو چکی ہے۔ اس کا افسر انچارج بہت ہی سخت مزاج ہے اور ذرا سی تاخیر بھی برداشت نہیں کرتا لیکن بوٹا خان کے راستے میں بہت بڑا ہجوم ہے۔ صبح کے دس بجے ہیں اور شہر کا درجۂ حرارت 40 درجے سنٹی گریڈ سے تجاوز کر چکا ہے۔

” نہیں چلے گا۔ نہیں چلے گا۔“ بہت سے نعروں میں سے ایک نعرہ ہے جو صاف سنائی دیتا ہے۔ بوٹا خان کے کانوں سے یہ نعرہ ٹکراتا ہے، وہ اسے اپنے ہونٹوں میں دوہراتا ہے انچارج کا کرخت چہرہ اس کے خیال میں آتا ہے۔ اور وہ دفتری فائلیں ایک طرف پھینک کر ہجوم کا حصہ بن جاتا ہے۔ سائیکلوں، موٹر سائیکلوں پر دفتروں کو جاتے ہوئے لوگ، مزدور پیشہ، بابو، طالبعلم سب کے سب اسی ہجوم میں شامل ہوتے جا رہے ہیں۔

ادھر، شہر سے دور ایک جدید بستی کے ایر کنڈیشنڈ ڈرائینگ روم میں کچھ لوگ کافی اور سگار سے شغل کرتے ہوئے زور دار بحث میں مصروف ہیں۔ بحث ان کا من بھاتا شغل ہے۔

”ہوں۔ تو سب لوگ بالکل تیار ہیں۔“
” ہاں محسوس تو ایسا ہی ہوتا ہے“
” نہیں۔ مگر ابھی تو دور دور تک۔ شاید ابھی نہیں۔“
”لیکن تم نے انہیں اچھی طرح سمجھا دیا تھا نا۔“
”ہاں ہاں۔ فکر کیوں کرتے ہو۔ صورت حال کچھ بھی ہو انہیں ہمارا خیال بالکل نہیں آئے گا۔“

” ان کے اپنے مسئلے ہیں۔ ٹاور والا ان میں کافی مقبول ہے اور اسے سونپی گئی ذمہ داری۔ وہ ذمہ دار شخص ہے۔“

” پر میں سوچ رہا ہوں کہ وہ ابھی شہر کے وسط میں ہیں۔“
” جلدی نہ کرو۔ جلدی کام بگاڑ دیتی ہے۔“
” پر موسم بہت مناسب ہے۔“
” بعض لوگ کہتے ہیں تم ہر موسم کو مناسب موسم کہتے ہو۔“
” شٹ اپ۔“

شہر کے وسط میں لوگوں کا ہجوم کئی بار بکھرتا اور کئی بار اکٹھا ہوتا ہے۔ لوگ ایک جسم، ایک آواز ہیں۔ کوئی لالچ، کوئی فریب، کوئی شک، کوئی شبہ اب ان کے قدم متزلزل نہیں کر سکتا۔ وہ تبدیلی کا حصہ بننے کے لئے تیار ہیں۔

” ہم آدم کی اولاد ہیں“ ۔ اس بات میں ان کی ہر بات پوشیدہ ہے اور ان کا عزم عیاں ہے۔

ٹاور نما عمارت کی سب سے اوپر والی کھڑکی سے وہی شخص دوبارہ جھانکتا ہے۔ اس کی نظریں اس طرف ہیں جدھر ہجوم کا رخ ہے۔ وہ ایمپلی فایر لگے لاؤڈ سپیکر کا استعمال کرتا ہے۔ ہجوم میں ہلچل پیدا ہوتی ہے۔ لوگ پھر ٹکڑیوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں لیکن اگلے ہی چوک میں پھر اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ ان کے چہروں پر اب ذرا پریشانی سی ہے۔ ان کو احساس ہوتا ہے کہ ان میں سے ایک شخص۔ جو ان کو لیڈ کر رہا تھا۔ نظر نہیں آ رہا۔ بندہ غائب ہونے کی اطلاع ڈرائینگ روم میں پہنچتی ہے۔

”صرف ایک بندہ۔“ عقل مند حضرات اپنا من پسند شغل شروع کرتے ہیں
” میں نے کہا تھا کہ ابھی لوگ۔“
” رہنے دو تم۔ میں نے تمہیں پہلے بھی کہا تھا کہ کچھ لوگ۔ کچھ اور لوگ۔“
پر ہمارا ان کا اختلاف اتنا زیادہ تو نہیں۔ اصل میں ہم ایک ہی ہیں۔ ”
” بات اختلاف کی نہیں۔ لوگ جان چکے ہیں۔ وہ برسوں کے اندھیرے سے باہر نکلنا چاہتے ہیں۔“
” پھر اب۔“
” پھر انتظار کرو۔“
خاموشی۔ کافی۔ سگار

ہجوم اب ایک چوک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے کی جانب رواں ہے۔ ٹاور نما عمارت سے یکے بعد دیگرے حکم جاری ہو رہے ہیں اور بندے ایک ایک کر کے غائب ہو رہے ہیں۔ شہر کی سڑکیں ٹریفک سے خالی ہیں اور ہر طرف سر ہی سر نظر آرہے ہیں۔

چوراہوں سے نکلنے والی خبریں ڈرائینگ روم تک پہنچ رہی ہیں۔ شہر کے وسط میں لوگوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے، کچھ لوگ ایک جگہ رک کر سوچ بچار کر رہے ہیں۔ یہ خبر بھی جدید بستی میں پہنچ چکی ہے اور بحث کا ایک نیا دور شروع ہو گیا ہے۔

” ہاں تو ٹھیک ہو گیا۔ لوگوں کی تعداد اب بہت کم ہے۔“
ہوں۔ لیکن وہ گئے کدھر؟ ”
” میں نے تم سے پہلے ہی کہا تھا کہ سب امکان نظر میں رکھو۔“
” مگر ٹاور والے نے ان کو ہر بات اچھی طرح سمجھا دی تھی۔“
” جی جی میں نے اپنا فرض ادا کر دیا تھا۔“
” تمہاری منصوبہ بندی ہی غلط تھی۔“

” نہیں میری منصوبہ بندی میں کوئی سقم نہیں۔ یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا۔ ضرور تم سے کوئی کوتاہی ہوئی ہے۔“

” تم اپنا قصور مجھ پر تھوپ رہے ہو۔“
” ہوں۔ نہ کوئی غلطی ہے نہ قصور۔ اصل میں لوگوں کو شعور ہی نہیں۔“
” شعور؟ وہ ہر بات اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ تم خود وہاں کیوں نہیں جاتے۔ ؟“
” یہ میرا منصب نہیں۔ میرا کام صرف ان کو ان کے مسائل کی پہچان کروانا ہے۔“
” پھر ٹھیک ہے۔ وہ واقعی نہیں جانتے کہ وہ کس کے کہنے پر اکٹھے ہوئے ہیں۔“
” شٹ اپ۔“

کچھ وقت اسی طرح کی طعن و تشنیع میں گزرتا ہے۔ ڈرائینگ روم کے دروازے پر زور سے دستک ہوتی ہے۔ ان میں سے ایک اٹھ کر دروازے تک جاتا ہے اور دستک دینے والے کو تقریباً گھسیٹ کر اندر لے آتا ہے۔ آنے والا بری طرح تھک چکا ہے۔ تیز تیز سانس لیتے ہوئے وہ انہیں کچھ بتانے کی کوشش کرتا ہے۔ ماحول میں ایک دم خاموشی چھا جاتی ہے۔ وہ سب سوچوں میں گم ہین اور ان میں اب بحث کی ہمت بھی باقی نہیں ہے۔

ٹاور نما عمارت کی کھڑکی بند ہے۔ وہاں بھی مکمل خاموشی ہے۔ سڑکوں پر ٹریفک چلنا شروع ہو چکی ہے۔ لوگوں کا ہجوم شہر کے وسط سے نکل چکا ہے۔ وہ پہلے کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے خاموشی سے، بغیر کوئی بات کیے ، بغیر کسی نعرے کے چلتے جا رہے ہیں۔ ان کے چہرے سرخ اور آنکھیں نفرت سے بھری ہیں۔ ان کا رخ جدید بستی کے ائیر کنڈیشنڈ ڈرائینگ روم کی طرف ہے۔ ::


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments