شین فرخ سے ہماری دوستی


کیا ہماری دوستی اس لئے ہوئی تھی کہ میں ہسپتال ایمرجنسی کے کاؤنٹر پے کھڑے ہوکے اس تصدیق نامے پر بطور عینی شاہد کے دستخط کروں جو اس بات کا قانونی پروانہ تھا کہ ”شین فرخ نامی تراسی سالہ خاتون دنیا چھوڑ چکی ہیں“ ۔

میں کل سے یہ سوچ رہی ہوں یہ زندگی کیسا گورکھ دھندا ہے۔ پیدا کہیں ہوتے ہیں، بچپن کہیں اور گزرتا ہے، جوانی کسی اور موڑ پے ملتی ہے، ادھیڑ عمری کا سفر کبھی کہیں تو کبھی کہیں طے ہوتا ہے پھر ”برا آپا“ جسے بڑھاپے کا نام دیا جاتا ہے کچھ اور ہی کمروں برآمدوں میں کسی اور نہج کے لوگوں کے درمیان بیتا ہے اور جب ہم زندگی کی آخری سیڑھی

اتر جاتے یا چڑھ جاتے ہیں تو کوئی اور ہی ہاتھ چہرے آس پاس ہوتے ہیں۔ اس آپا دھاپی کے کرؤنائی وقت میں اگر مٹی میں لتھڑے پندرہ بیس ہاتھ بھی میسر ہو جائیں تو بڑی بات ہے۔

قنوطیت کی یہ کیفیت کل شام شین کو سپرد خاک کرنے کے بعد سے ہے۔ دل اور دماغ کے درمیان ایک عجیب سی جنگ جاری ہے ایک کیفیت دوسرے پہ فوقیت لے جانے کی کوشش کرتی ہے تو تیسری کی آمد ہو جاتی ہے۔

کل ہی یہ بھی پتہ چلا کہ شین کی جائے پیدائش گوجرانوالہ ہے۔

اصل میں دوستی تو ان سب باتوں سے ماورا ایک ایسا رشتہ ہے جس میں کون کہاں، کب پیدا ہوا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ بس دوست کی تاریخ پیدائش کا علم میں ہونا ضروری ہوتا ہے کہ دوست کا ”جنم دن“ منا سکیں۔ دوستی ہی تو وہ رشتہ ہے جس میں عمر کا فرق کوئی معنی نہیں رکھتا۔

کل سے میرے تصور میں گوجرانوالہ کا وہ آنگن بھی گھوم رہا ہے جہاں شین نے زندگی کی پہلی سانس لی ہوگی، پہلی آواز نکالی ہوگی، اپنی ہلکی بھوری آنکھوں کو گھما کے ماں کے لمس کو محسوس کیا ہوگا۔ باپ نے اپنی تمام تر پدرانہ شفقت کے ساتھ انھیں الٹتے، پلٹتے، گھٹنیوں چلتے، کھڑے ہوتے، گرتے پڑتے، پہلا قدم اٹھاتے، پہلا لفظ بولتے دیکھا اور سنا ہوگا۔

اپنے بچپن میں شین یقیناً ایک چلبلی بچی رہی ہوں گی۔ جو کبھی باپ کے کاندھوں پے سوار ہوتی ہوں گی تو کبھی ماں کی آغوش میں منہ چھپاتی ہوں گی۔ بہن بھائیوں کو دھکا دیتی ہوں گی اور پھر شور مچا کر سب کو جمع کرتی ہوں گی۔ اسی آنگن میں انھوں نے چھپن چھو پائی، کھو کھو اور اس دور کے بہت سے کھیل کھیلے ہوں گے۔ بہت ممکن ہے اسی آنگن میں لگے کسی درخت کی شاخ پے جھولے کی پینگیں بھی لی ہوں۔ اور بہت ممکن ہے کہ وہ درخت آج بھی راہ دیکھتا ہو۔

میرے خیال میں ایسا سب ہی کے ساتھ ہوتا ہے کہ بچپن کا وہ رنگوں، خوشبوؤں، محبتوں اور شرارتوں سے بھرا آنگن کسی نہ کسی بہانے زندگی سے الگ ہوجاتا ہے۔

میرا نہ تو بچپن نہ ہی اسکول کالج یونیورسٹی کا زمانہ شین کے ساتھ گزرا ہے نہ ہی ان کے ساتھ کام کیا ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ بجا ہے کہ ہم تو زمانہ اسکول میں اخبار خواتین کو دل سے لگا کے پڑھتے تھے اور ہر لکھاری کی تصویر کو حسرت سے دیکھتے ہوئے سوچتے تھے یہ کون لوگ ہیں؟ کہاں ہوتے ہیں؟

وقت کا دریا بہتے بہتے ستر کی دہائی کے درمیان تک آ گیا اور 1975 کے آخری دنوں میں ہماری کشتی بھی ان لکھاریوں کے درمیان تیرنے لگی۔ اس زمانے میں اردو صحافت کی خواتین کی اکثریت ڈیسک پے کام کرتی تھی اور کبھی کبھار تبدیلی ذائقہ کے لئے کوئی انٹرویو یا رپورٹنگ کا کام کر لیتا تھا۔

مجھے آج بھی وہ سہ پہر یاد ہے جب میں نے پہلی دفعہ شین کو دیکھا وہ پریس کلب کے بیرونی ٹیرس پہ کھڑی زور زور سے ایک فوٹو گرافر کی کلاس لے رہی تھیں۔ کاٹن کی ساڑھی، سلیو لیس بلاؤز، کاندھے پر لٹکے بیگ کو اوپر نیچے کرتی، چشمے کو بالوں میں پھنسائے، دھوئیں کے مرغولے بناتی وہ اپنی اس تصویر سے قطعی مختلف تھیں جس کو ہم اخبار میں دیکھا کرتے تھے۔

شین کے بولنے کا ایک اپنا بے لاگ انداز تھا کسی کو اچھا لگے یا برا انھیں کوئی سروکار نہ تھا۔

وہ وقت ”شین“ ہی کا تھا۔ لوگ ان کے ساتھ بیٹھنا بات کرنا اعزاز سمجھتے تھے۔ اس وقت کی صحافی خواتین کا بھی ایک الگ ہی انداز تھا۔ انھیں زمین نظر نہیں آتی تھی آنکھ کی سیدھ میں دیکھ کر بات کرتی تھیں۔ وقت اور آگے بڑھا پریس کلب کے انتخابات میں ووٹ ڈال کر نیچے آئیں اور میرے پاس آ کے پوچھا ”تم ہی شہناز احد ہونا“ میرے اقرار پے یہ کہتی ہوئی آگے بڑھ گئیں ”ووٹ ڈال دیا ہے“ ۔ بعد کے وقت میں اندازہ ہوا کہ یہ ہی انداز گفتگو ہے۔

پھر صحافیوں کی تحریک کے دوران اور بعد کے ادوار میں تکلف کا پردہ اٹھتا گیا اور انداز گفتگو بھی بدلتا گیا۔

ہماری بے تکلف دوستی کا آغاز 1997 کا وہ دورہ بھارت تھا جو ”امن کانفرنس“ کے سلسلے میں ہم سب نے ساتھ کیا تھا۔ لاہور سے امرتسر، امرتسر سے دہلی، دہلی سے کلکتہ، ہوٹل کے ایک ہی کمرے میں میرا شین اور ریحانہ افتخار کا ساتھ قیام، کانفرنس کے چٹکلے، شاپنگ، ناریل پانی، مختلف کھانے، نیو ائر نائٹ دہلی کی واپسی، وہاں کے سیر سپاٹے، لال قلعے میں آوازوں اور روشنیوں کے امتزاج کا پروگرام سردی میں کپکپاتے ہوئے دیکھنا، جامعہ مسجد کے اطرافی ہوٹل میں گرما گرم قورمہ اور نان کھانا۔ بنا ویزے کے ہمارا آگرہ جانا اور رات کے دو بجے واپسی پر شین کا جاگتے ہوئے ملنا آواز سنتے ہی یہ پوچھنا کہ ”کہاں رہ گئے تھے تم لوگ“ ۔ وجہ تاخیر جاننے کے بعد نصیحت کرنا کہ اب جب تک پاکستان نہ پہنچ جاؤ اس بات کو منہ سے مت نکالنا۔ واپسی میں امرتسر کے بازار میں ماش کی دال کی بڑیاں تلاشنا۔

دراصل یہ سفر ہی ہماری اچھی دوستی کا نقطہ آغاز بنا اور پھر ہم ایک دوسرے کے گھر خوشی غمی اور بنا کسی سبب کے آنے جانے لگے بنا وجہ کے ایک دوسرے کو فون کرنے لگے۔

گزرے سالوں کے دوران اکثر صبح صبح ان کا فون آتا ”شہناز میری شوگر بڑھی ہوئی ہے“ ۔ میں کہتی ہسپتال آ جائیں دیکھ لیتے ہیں۔ پھر تصدیق کرتیں کہ اور کون کون ہوگا۔ اپنی مرضی کے ڈاکٹر سے بات کرتیں کچھ سنتیں کچھ ان سنا کرتیں اور چلی جاتیں۔ میرے اور ڈاکٹر نقوی کے منع کرنے کے باوجود انھوں نے کسی غیر معروف جگہ سے آنکھوں کا آپریشن کروایا۔ ایک آنکھ خراب ہو گئی تھی لیکن ہسپتال کا نام نہیں بتاتی تھیں اور بہت پوچھنے پر گھور دیتی تھیں۔

ادھر کچھ سالوں سے ان کے گرنے پڑنے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ کبھی کچھ توڑتی تھیں کھی کچھ۔ جس کو پتہ چل جاتا اس سے دوسرے کو بتانے سے منع کرتیں۔

بہت زیادہ سمجھانے پر کہتیں ”اچھا بس ٹھیک ہے میں وہی کروں گی جو میرا دل چاہے گا آپ لوگ یا تم لوگ جا سکتے ہو“ ۔ اس کرونائی سال کے دوران متعدد بار انھوں نے کہا ”بس اب زندگی کا مزا نہیں رہا“ ۔

زندگی کا مزا ختم ہونے کی ایک سو ایک وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن دوستوں میں سے کسی کی مجال نہ تھی کہ سوال کر سکے۔ اکثر موڈ نہ ہونے پر اپنے گھر آنے سے منع کر دیتیں۔ ویسے بہت وضع دار تھیں گھر میں داخل ہوتے ہی کھانے پینے کا پو چھتیں اور انکار پے ناراضگی کا اظہار ہوتا۔

اسی مارچ کے ایک اتوار کو میں اور مہناز ان کے گھر لنچ کے ساتھ پہنچے تو پتا چلا کہ صاحب خانہ صبح گرنے کے سبب ہسپتال پہنچی ہوئی ہیں۔ ہم دونوں کو ہسپتال میں دیکھتے ہی کہنے لگیں تم کو کس نے بتایا؟ بہت مشکل سے انھیں یقین آیا کہ ہم اتفاقیہ پہنچ گئے ہیں۔ پلا ستر زدہ ہاتھ کے ساتھ انھیں گھر لائے تو اپنے بیڈ کے اطراف کھڑی نزہت شیریں، مہناز، عطیہ، ابڑو اور مجھے دیکھتے ہوئے کہنے لگیں ”بس تم ہی لوگ مجھے زندہ رکھے ہوئے ہو“ ۔

دھیرے دھیرے ہاتھ بہتر ہو گیا پلا ستر اتر گیا اور وہ پھر سے اپنی چھڑی کے سہارے چلنے لگیں۔ اس بار یہ ضرور ہوا کہ دروازہ کھولنے کی تمام تر ذمہ داری عطیہ کو دے دی گئی۔ ان کے دوبارہ سے چونچال ہونے پر ہم سب ہی خوش تھے۔ مجاہد نے شیریں کے سنگ ایک دو اچھی شام بھی گزاریں۔ بظاہر سب ہی کچھ پھر سے نارمل چلنے لگا تھا۔

بے سان و گمان فون آتا ”شہناز تیری عورت آ گئی؟“ جواب انکار میں ملتا تو دوسرا سوال آتا پھر کام کون کرتا ہے؟ میں کہتی وہ لڑکا ہے نا۔ اچھا!

پھر سوال آتا بھائی آ گیا؟ جی! میرا جواب سنتے ہی فون بند ہوجاتا۔

اس بار جو عطیہ نے ان کے گرنے خون بہنے اور بعد کے معاملات کی خبر دی تھی وہ کچھ تسلی بخش نہ تھی لیکن شین نے پھر بھی ایک حد تک مقابلہ کیا ایک ہسپتال سے دوسرے اور پھر تیسرے میں مرحلہ وار منتقل ہوتی رہیں۔ آئی سی یو سی سے کمرے اور کمرے سے گھر آئیں۔

میں اور مہناز ایک ایک دو دو دن کے وقفے سے انھیں دیکھنے جاتے شام میں زیادہ تر شیریں اور مجاہد جاتے۔ ہم سب ایک دوسرے سے ان کے بارے میں روزانہ کی بنیاد پر بات کرتے تھے۔ جو بھی کوئی ملنے جاتا آواز سنتے ہی پو چھتیں کھانا کھایا؟ پھر اپنی ماسیوں میں سے کسی ایک کا نام لے کر کہتیں اس سے کہو کھانا دے۔ منگل کی دوپہر بھی جب ہم دونوں پہنچے تو باوجود انتہائی نقاہت کے انھوں نے یہ ضرور کہا کھانا کھایا؟

جمعرات کی صبح مجھے اور مہناز کو ان کے پاس جانا ہی تھا کہ سویرے سویرے عطیہ نے وہ خبر دے دی جس کا دھڑکا کئی دن سے لگا ہوا تھا۔ پھر بھی سن کر یہ لگا انہونی سی ہو گئی ہے۔

” شین“ آپ کو پتہ ہے؟ آپ خودداری، وضع داری اور بہادری کا وہ ستون تھیں جس نے گرتی ہوئی ان تمام خوبیوں کی عمارت کو سنبھالا ہوا تھا۔

آپ بس آپ تھیں!
اوڑھ کر مٹی کی چادر بے نشاں ہو جائیں گے۔
ایک دن آئے گا ہم بھی داستاں ہو جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments