دوسری عورت


دوسری عورت یا دوسری بیوی ہونا ہمارے نام نہاد اسلامی معاشرے میں گالی ہے۔ یہاں شادی شدہ آدمی سے شادی کرنے والی عورت سب سے پہلے بدکردار، پھر بدذات، پھر چڑیل ڈائن اور پھر نا جانے کیا کیا ہوتی ہے۔ کبھی اس کو کمزور کردار کے طعنے سننے پڑتے ہیں تو کبھی وہ ماں باپ کی گھٹیا تربیت کا نمونہ ٹھہرائی جاتی ہے۔ شرعی اور قانونی لحاظ سے جائز رشتے میں بندھنے کے باوجود ایک داغ ہوتی ہے۔ ایسا داغ جس کو چھڑانے کے لئے ہمارے معاشرے کا ہر شخص سرف ایکسل بنا پھرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ آدمی بھی کہ جس کی خاطر دوسری عورت بنی اس کا نام اپنے ساتھ سرعام ہونے پر آمادہ نظر نہیں آتا۔

اس میں اتنی اخلاقی جرات نہیں ہوتی کہ وہ معاشرے اور اس میں موجود لوگوں کو بتائے کہ یہ لڑکی جس نے اس سے اللہ اور اس کے رسول کو گواہ بنا کر نکاح کیا اور اس کی ہر ذمے داری اٹھانے کا وعدہ یا شاید دعوی کیا، کمزور کردار کی بدکردار لڑکی نہیں بلکہ اس کی عزت ہے اور اس نے بڑی محبت سے اسے اپنی زندگی میں شامل کیا ہے۔ اور وہ اس نکاح میں برابر کا ذمہ دار ہے۔

میں یہ نہیں کہتی کہ ہر آدمی کو ایک سے زیادہ شادی کرنی چاہیے یا ہر بار ہی دوسری عورت ٹھیک ہوتی ہے لیکن ہمارے یہاں بہت سی ایکسیپشنز بھی موجود ہیں۔ کسی بھی لڑکی کو کمزور کردار، یا اس کی تربیت پر سوال اٹھانے سے پہلے کیا ہم نے کبھی ان حالات کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہی جس کے سبب اس نے یہ قدم اٹھایا؟ کیا ہم نے کبھی حالات کے بھنور میں پھنسی لڑکی کہ جس کو دوسری عورت کا خطاب ملا اس کے حالات جاننے چاہیں ہیں؟

نہیں۔ یقیناً نہیں! کیونکہ ہم نے زندگی گزارنے کے لئے خود اپنے اصول اور قواعد و ضوابط بنا رکھے ہیں۔ جو ان اصولوں کے مطابق ٹھیک۔ وہ ٹھیک۔ اور جو غلط وہ غلط۔ کیا ہم میں سے کسی نے اپنے اندر موجود کسی کمی یا کوتاہی کو ڈھونڈنے کی کبھی کوشش کی؟ جو کسی لڑکی کو دوسری عورت بنا گیا۔ یقیناً نہیں کی۔ کیونکہ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا مشکل اور فیصلہ سنانا ہمیشہ آسان لگتا ہے۔ ہم عجیب معاشرے کا حصہ ہیں جہاں عورت کے لئے شوہر کا کسی لڑکی سے افیئر ہونا تو قابل برداشت ہے لیکن نکاح کرلینا کسی حد تک ناقابل قبول۔ ہم اس دنیا کے لوگ ہیں جہاں عورت کو یہ ڈر نہیں ہوتا کہ اس کا شوہر کوئی حرام کام نہ کر لے بلکہ عورت اس خوف میں مبتلا رہتی ہے کہ شوہر نامدار کوئی حلال کام ہی نہ کر جائیں۔

وہ بیٹی جسے اللہ نے رحمت بنا کر بھیجا تھا ہم نے اس کا لڑکی ہونا ہی جرم بنا دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں کام کرتی بیٹی بوجھ اور نکما ناکارہ بیٹا اثاثہ ہوتا ہے۔ بیٹی کی شادی کر کے اپنے فرض سے نبردآزما ہو جانے کے لئے ماں باپ اتنے بے چین ہوتے ہیں کہ انہیں سمجھ ہی نہیں آتا

کہ وہ کس طرح اس کا تماشا بنا رہے ہیں۔ صرف اس لیے کہ لڑکی کی ایکسپائری ڈیٹ یہاں 30 سال ہے تو اپنی خواہش کی تکمیل کے لئے وہ اس کو کس کرب اور اذیت سے گزار رہے ہوتے ہیں، ان کو اندازہ ہی نہیں ہوتا۔ روز لگنے والے تماشے کے نتیجے میں کی جانے والی تنقید کہ اس کے بال اچھے نہیں، آنکھیں بھوری نہیں، قد لمبا نہیں، وزن زیادہ ہے اور وہ دیکھ کر سمجھ نہیں آئی، کبھی دل توڑتے ہیں تو کبھی روح کو تکلیف پہنچاتے ہیں۔ شادی کے نام پر اچھی بھلی لڑکی کو نفسیاتی مریض بنا دیا جاتا ہے۔

یہ ہمارے رویے ہی ہیں جو لڑکی کو اتنا مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ کمزور سہاروں کی تلاش میں نکل پڑتی ہے۔ ایسے میں لڑکی کی شادی اگر ماں باپ کی مرضی سے کسی شادی شدہ، طلاق یافتہ یا رنڈوے سے کرا دی جاتی ہے تو یہ بہت بڑا ظلم بن جاتا ہے لیکن اگر وہ اپنی مرضی اور خوشی سے کسی شادی شدہ آدمی سے شادی کر لے تو بن جاتی ہے۔ *دوسری عورت*

یہ تحریر خصوصاً ایسی ہی لڑکیوں کے لئے ہے۔ شادی شدہ آدمی سے شادی کرنا نہ گناہ ہے نہ جرم۔ ہاں لیکن گھر میں موجود عورت کے لئے یقیناً دکھ بھی ہے اور تکلیف بھی لیکن ایسے میں اس آدمی کا کردار نہایت اہم ہے جسے پہلی عورت کو یہ تسلی بھی دینی ہے کہ اس کی جگہ کوئی نہیں لے گا اور ساتھ ساتھ اس دوسری عورت کے حقوق کی حفاظت بھی کرنی ہے۔ اللہ نے قرآن میں مسلمان مرد کو ایک سے زیادہ نکاح کی اجازت دیتے ہوئے پابند بنایا ہے کہ وہ تمام بیویوں میں مساوات قائم کرے اور برابری نہ کرنے والوں کے لئے سخت ترین سزا سنا کر ہر ممکن حد تک انصاف کو یقینی بھی بنایا۔

لیکن ہمارا مائنڈ سیٹ ہے لڑکی نے شادی شدہ آدمی سے شادی کی تو یقیناً کمزور کردار کی ہوگی یا شاید اس کی تربیت ٹھیک طرح نہیں کی گئی ہوگی تبھی اس نے زندگی کے مسائل سے تنگ آ کر غیر مرد سے مسیحائی طلب کرلی۔ کبھی اس مسیحا سے بھی تو پوچھیں کہ جناب اس میں ایسی کیا خاص بات تھی کہ جو آپ مسیحائی پر مجبور ہو گئے۔ ایک رشتے میں موجود لڑکا اور لڑکی میں سے صرف لڑکی بد کردار یا غاصب ہے کیونکہ وہ عورت ہے مرد پاکباز ہے کیونکہ وہ بیچارہ مرد ہے اور اسے اس کے علاوہ کسی سرٹیفیکیٹ کی ضرورت نہیں۔

یہ بھی تو ہو سکتا ہے اس نے یہ قدم حالات کے پیش نظر یا ان رویوں سے جان چھڑانے کے لئے کیا ہو جو اس معاشرے اور یہاں کہ لوگوں نے اس کے لئے پیدا کر دیے ہوں، اس کا مقصد کسی کا گھر خراب کرنا نہ ہو اور اسی لئے اس نے اپنے تمام حقوق اور خواہشات پس پشت ڈال کر صرف *نکاح* کیا ہو۔ وہ ان حالات سے نکل کر اپنی مرضی کے آدمی کی پناہ میں آ گئی ہو۔ کیا واقعی یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کا دوسری بیوی ہونا جرم ٹھہرایا جائے۔ یہ حالات تو کسی کے ساتھ بھی ہو سکتے تھے۔

قدرتی طور پر اللہ نے اس رشتے میں جلن رکھی ہے اور یہ بات سمجھ بھی آتی ہے لیکن سارا قصور اس عورت کا نہیں ہوتا کچھ تو ذمے دار وہ آدمی بھی ہوتا ہوگا اور شاید ہم خود بھی۔

میرا ماننا ہے کہ ہر بار دوسری عورت گھر توڑنے ہی نہیں آتی۔ اس کو آزما کر دیکھیں کیا خبر آپ کا گھر بچانے اور سنوارنے کے لئے اس نے بھی آپ جتنی محنت کی ہو یا شاید آپ سے زیادہ اپنی محبت پر صبر کیا ہو۔ سوچنے کا انداز بدلیں تو شاید جان پائیں وہ جس نے اپنے تمام حقوق سائیڈ لگا رکھے ہیں تاکہ آپ کے ساتھ کچھ برا نہ ہو اور وہ خود ضمیر کی عدالت میں سرخرو ہو سکے، کس اذیت اور تکلیف میں ہے۔ پاکستانی معاشرے میں شوہر کی دوسری شادی کسی بھی عورت کے لئے قابل قبول نہیں ہوتی۔ یہ یقینی طور پہ ایک تکلیف دہ عمل ہے جہاں ہمیں لگتا ہے کہ ساری زندگی کی محنت، محبت سب ضائع ہو گئی اور جہاں سے چلے تھے برسوں گزر جانے کے باوجود وہیں کھڑے ہیں۔

عموماً دوسری عورت سب سے پہلا کام۔ پہلی کی چھٹی کرتی ہے لیکن جو یہ نا کرے ہم اس کو حقوق دینے کو تیار ہی نہیں ہوتے۔ کیونکہ وہ دوسری عورت ہے اس لیے اس کو نہ معاشرہ صحیح مقام دیتا ہے نہ شوہر۔ کیونکہ اس کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ وہ کیا جواز بنا کر اس کو سب کے سامنے وہی عزت دے جو پہلے سے موجود عورت کا ہے۔

ہمارے یہاں دوسری شادی کے لئے پہلی بیوی میں کیڑے نکالنا لازمی ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر آدمی لاکھ چاہے، دوسری شادی کو جسٹیفائی نہیں کر سکتا۔ لیکن ذرا سوچیں اپنی مرضی اور پسند سے شادی شدہ آدمی سے شادی کر لینے والی لڑکی کا قصور سوائے محبت کرنے کے کیا ہے؟ اس نے اپنی مرضی کے آدمی سے شادی کر کے خود کو اس روز ملنے والی اذیت سے ہی تو نکالا ہے، ورنہ ویسے بھی اس کی شادی کسی ایسے ہی آدمی سے ہونی تھی کیونکہ وہ ایکسپائری ڈیٹ کے قریب تھی۔

وہ دوسری صحیح لیکن بالکل ویسی ہی عورت ہے جیسے کہ *پہلی* تو پھر وہ۔ اس عزت اور اسی مقام کی حقدار کیوں نہیں؟ اس کو حقوق حاصل کرنے کے لئے ڈائن چڑیل ہی کیوں بننا پڑتا ہے؟ جس نے اس سے نکاح کر کے اس کو عزت دینے کا وعدہ کیا تھا وہ معاشرتی اقدار کے آگے اتنا کمزور کیوں پڑ جاتا ہے؟ معاشرے میں رہنے والے ہمارے جیسے دوسرے انسانوں نے اس کو دوسری عورت بنا دیا۔ وہ کام جو اس نے ہر لحاظ سے جائز کیا تھا اس کے لئے گالی بنا دی گئی۔ انسان چاہے تو سب ممکن ہے۔ یہاں تک کہ اس گالی بن جانے والے پاک (لیکن نا پسندیدہ) رشتے کو مختلف زاویے سے اپنایا جاسکتا ہے۔ یہ کام ناممکن ہوتا تو یقیناً نبی کی سنت میں شامل نہ ہوتا۔

ہر دوسری عورت مظلوم نہیں ہوتی لیکن ہر دوسری عورت ظالم، گھر توڑنے والی اور غاصب ہو یہ بھی لازمی نہیں۔ ممکن ہے اس کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہ ہو۔ لیکن اس معاملے میں شوہر کا کردار ہی اس کی زندگی میں موجود دونوں عورتوں کو ان کے صحیح مقام اور جائز حقوق کے ساتھ معاشرے میں عزت دلا سکتے ہیں، کسی ایک کی طرف حد درجہ جھکاؤ نا انصافی بھی ہے اور دل آزاری بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments