ہائیر ایجوکیشن وزراء کے نام ایک خط!


ہمیں آپ سب کی تعلیم دوستی اور اخلاص پر شک نہیں لیکن گلوبل ایمرجنگ ٹرینڈز آف ہائر ایجوکیشن اس بات کے متقاضی ہیں کہ یونیورسٹیاں انٹر پرنیورشپ، انڈسٹریل لنک اور تحقیق و تفتیش کی بنیاد پر چلیں، سربراہان میں مارکیٹنگ اور فنانشیل مینجمنٹ کا سلیقہ، ریسرچ اور درس و تدریس کا طریقہ ہو، انہیں یہ بھی معلوم ہو کہ یونیورسٹی اپنے ریجن کا کمیونٹی سنٹر کس طرح بن سکتی ہے۔ وائس چانسلر وہ ہوتا ہے جس میں افسرانہ اور باسی رویوں کی کمی تاہم قائدانہ صلاحیتوں کی فراوانی ہو گویا ضروری نہیں اچھا ریسرچر یا عمدہ معلم ایک اچھا وائس چانسلر بھی ہو۔

عموماً ایک فوجی افسر یا ٹیچر کو ”سر سر“ کہلوانے کی اڈکشن ہو گئی ہوتی ہے۔ جتنا سر سر کہلوانے کا معاملہ من پسند ہوتا جائے اتنی اپر سٹوری میں فہم و فراست کا بسیرا کم ہوتا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں فیشن ہے لوگ حقوق اور ایکو سسٹم ترقی یافتہ ممالک والے مانگتے ہیں اور فرائض کی ادائیگی میں تھرڈ ورلڈ کے باسی بن جاتے ہیں۔ یہ وہ تضاد ہی جو لیڈرشپ کو پنپنے نہیں دیتا!

پہلے تو یہ ذہن نشیں رکھئے جتنی نئی یونیورسٹیاں آ رہی ہیں اتنے تو وژنری وی سیز ملنے بہت مشکل ہیں۔ مشرومز کی طرح بڑھتی یونیورسٹیوں میں سے جو پٹری پر چڑھ گئیں وہ تو سودمند مگر جو نہ چڑھ پائیں وہ زہریلی ہوں گی۔ مائیکالوجسٹ ہی جانتے ہیں جو مشرومز زہریلے ہوں پھر وہ کس قدر مہلک ہوتے ہیں۔ جس طرح چلتی کا نام گاڑی ہوتا ہے اسی طرح بڑھتی کا نام یونیورسٹی ہے۔ گاڑی ہو کہ یونیورسٹی گر رک گئی یا جمود کا شکار ہو گئی، تو زنگ آلود میٹریل یا سفید ہاتھی کے سوا کچھ بھی نہیں!

آپ کے 2002 / 2009 / 2011 کے ایکٹ شاید مطلوبہ نتائج فراہم نہ کرسکیں۔ 2020 / 2021 میں قائم ہونے والی یونیورسٹیوں کے ایکٹ میں یونیورسٹیوں کو کنسورشیم کا پابند بنائیں۔ ریسرچرز اور ریسرچ سنٹرز کے قومی و عالمی اداروں سے ایم او یو کو لازم بنائیں، نوخیز یونیورسٹی 20 سال پرانی کسی ایک یونیورسٹی کی امبریلا تلے آئے، کیسے یہ سب کرنا ان امور کو جامعہ کی قیادت خود دیکھ لے۔

ایک بات جو سالوں سے ہم فراموش کرتے چلے آرہے ہیں، کہ یہ بھی ضروری نہیں آپ فارن سے وی سی امپورٹ کریں اور ٹاپ رینکنگ والی یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ وی سی امیدواران کو زیادہ نمبر دیں، دیکھنا یہ ہوگا کہ، کیا فارنر ہمارے دیسی اور چیلنجنگ ایکو سسٹم میں کامیاب ہو سکے گا! باہر کی ایک یونیورسٹی کے آپ زیادہ سے زیادہ ایک ڈائریکٹر کو ادھر وی سی بنا دیں تو تب ایسے ہی ہوگا جیسے آپ امریکہ و برطانیہ سے ایک مئیر لے آئے اور امید رکھیں وہ ادھر اچھا وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم بن جائے گا۔ کیا ایسا ممکن ہے؟

ماضی میں انہی تجربات کے سبب نوخیز یونیورسٹیوں سے ایچ ای سی تک تباہی پھیلی، کوئی قائد اعظم جیسی باکمال یونیورسٹی سے بھاگ گیا تو کوئی ڈی جی خان یونیورسٹی کو نہ چلا سکا اور کسی نے ساہیوال یونیورسٹی میں وقت پورا نہ کیا۔ دوسری جانب، آخر کار ایچ ای سی چیئرمین کے لئے آپ کو آرڈیننس کا سہارا لینا پڑا۔ کیا ہم ماضی سے کچھ سیکھنے کے موڈ میں نہیں؟

اجی فارن کوالیفائیڈ برے ہرگز نہیں، انتہائی مفید ثابت ہوسکتے ہیں مگر انہیں وی سی ہی لانا کیوں ضروری ہے؟ بطور پی وی سی یا پی وی سی ریسرچ بھی تو لایا جاسکتا ہے یا ڈین آف ریسرچ نامی کوئی عہدہ بھی تو بنایا جاسکتا ہے؟

کہیں ہم نے کالج کو یونیورسٹی بنا ڈالا مگر کالج بھی گیا اور یونیورسٹی جنرل اسکول سے بھی نیچے چلی گئی، کہیں پلیجرزم نے سر اٹھالیا، کہیں پبلیکیشن کی جادوگری نے ہائیر ایجوکیشن کی کوالٹی کو متاثر کیا۔ کہیں سائٹیشن کے چکر میں لوگ چکرا گئے تو کہیں امپیکٹ فیکٹرز کی دوڑ میں جرنلز جگلنگ نے پرورش پا لی۔ کوالٹی ایجوکیشن کی جگہ ”کوانٹٹی“ ایجوکیشن نے لے لی، کہ دھڑا دھڑ پیپر شائع کریں تاکہ معیشت اور عہدے بڑھیں مگر کوالٹی ایجوکیشن یا اپلائیڈ ریسرچ جو ملک و ملت کو درکار ہے وہ سب جائے بھاڑ میں۔

نئی یونیورسٹیوں میں ORIC اور QEC کی محض کرسی اور دفتر یا عہدوں کے لئے سیاست ان کی افادیت کو زنگ آلود بنا دے گی، پیراسٹزم تو بڑھ سکتا ہے سمبیاسس نہیں لہذا ایکٹ، رولز اور ریگولیشن کو مزید جاندار اور واضح بنانا ہوگا۔

خدارا میڈیکل یونیورسٹیاں بنانے کا تو اب سوچیں بھی نہ، کہ لاہور کی ایک یونیورسٹی تاحال اپنا امتحانی نظام نہ بنا سکیں اور دوسری یونیورسٹی کے تحت امتحانات ہو رہے ہیں۔

نئی یونیورسٹیوں کو پابند کریں کہ ان کا ایک شعبہ/ انسٹیٹیوٹ/ کالج/ فیکلٹی ٹیکنالوجی کونسل آف پاکستان سے لازمی الحاق کرے، اور ہر نئی یونیورسٹی پاکستان اسکلز یونیورسٹی اسلام آباد کے ماڈل کو دیکھے، ہائیر ایجوکیشن اور ریسرچ پوری یونیورسٹی کا کام ہو مگر اپلائیڈ ٹیکنالوجی کے ڈپلومہ جات اور سرٹیفکیٹس کا اجراء نئی یونیورسٹیوں میں لازمی ہو کہ گلشن کا کاروبار چلے۔ اس کے لئے الگ فیکلٹی یا ڈیپارٹمنٹ اولین ترجیحات میں ہو۔

ضروری ہے کہ سنڈیکیٹ میں دھڑا دھڑ سیاسی نمائندوں یا سکول و کالج اور بورڈز آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے افراد کے بجائے یونیورسٹی نفسیات سے آشنا لوگوں کو بٹھایا جائے تاکہ کرائم سنڈیکیٹ جنم لے سکے نہ سوڈو ایجوکیشن سنڈروم کی مرض ہی درس گاہ کو لاحق ہو!

تحصیل ایریا میں یونیورسٹی بنا تو لیں مگر خدارا اس کے سر پر ضلعی کیپ رکھیں، ہیلتھ سائنسز کے شعبہ جات ہوں نہ ہوں ہر یونیورسٹی کا ڈی ایچ کیو ہسپتال کے ساتھ ایم او یو یا معاونت کا ضابطہ لازمی ہو۔

آج یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پروگرام کی خودمختاری و خود انحصاری کی علامت ہے، انٹرپرنیورشپ کا مفید فارمولا اور معاشی سرور ہے۔ گو ہم نے ایک وائس چانسلر کو نیب کی بھینٹ اس لئے چڑھا دیا کہ، ہمیں پی پی پی پی (پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پروگرام) کا خراج نہ تھا۔ اس میں بیسیوں خامیاں ہو سکتی تھیں مگر یہ پی پی پی پی وژن لاکھ برائیوں پر غالب خوبی تھی جو اسے ولن سے ہیرو بناتی تھی۔ بہرحال نئی دانش گاہوں کو پی پی پی پی ماڈل سے روشناس کرانے نوشہ اور لائحہ عمل ان کے ایکٹ میں واضح کریں۔

کیمپسوں کے ماڈل کو ورٹیکل اٹھائیں اور خوامخواہ پھیلائیے ناں، علاوہ بریں عمارت سازیوں میں گرین زمین کی جگہ براؤن زمین کا ممکنہ انتخاب عمل میں لائیں، شہروں سے دور اور شہروں کے درمیاں نئے کیمپسوں کو فروغ دیں۔

یونیورسٹیوں کو سیاسی گود نہیں تحقیقی کلچر درکار ہے، جہاں سوال اٹھانے کی گنجائش ضروری ہوتی ہے نہ کہ کنونشنل سکول و کالج طرز کے سوالات و جوابات اور رٹا کی۔

وفاقی و صوبائی وزرا برائے اعلیٰ تعلیم! ازراہ کرم اوکھے سوکھے ہو کر ایک دفعہ یونیورسٹی کو بناوٹی و فعلی اعتبار سے ڈیفائن کر دیجیے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments