انڈیا کے زیر انتظام کمشیر: کیا بی جی پی کی حکومت جموں کشمیر میں دوبارہ کچھ نیا کرنے والی ہے؟


منوج سنہا

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا

انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے متعلق قیاس آرائیوں کا ایک بار پھر سے ذکر چھڑ گیا ہے۔

پانچ اگست سنہ 2019 کو اس علاقے کی خصوصی حیثیت کے خاتمے اور اسے دو مرکزی علاقوں میں تقسیم کے بعد اب یہ قیاس لگایا جارہا ہے کہ مرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی مودی حکومت انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کی تیاریاں شروع کرنے والی ہے۔

یہ قیاس آرائیاں بہت ساری میڈیا رپورٹس کے حوالے سے لگائی جا رہی ہیں۔ جمعہ کے روز نیوز ایجنسی پی ٹی آئی نے بھی اس کے متعلق ایک اہلکار کے حوالے سے ٹویٹ کیا تھا۔

پی ٹی آئی نے لکھا: ‘جون کے اختتام سے قبل علاقے میں سیاسی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے مرکزی حکومت جموں و کشمیر کی تمام علاقائی جماعتوں کے ساتھ بات چیت کی خواہاں ہے۔ اس میں مرکزی خطے میں ہونے والے اسمبلی انتخابات بھی شامل ہیں۔’

اسی دوران انگریزی اخبار دی انڈین ایکسپریس سے پی ڈی پی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے جمعہ کے روز اس بات کی تصدیق کی ہے کہ انھیں 24 جون کو ایک اجلاس میں شرکت کے لیے نئی دہلی کی ‘اعلی قیادت’ کا فون آیا تھا۔

https://twitter.com/PTI_News/status/1405919726937665541

تاہم انھوں نے اس بات سے لاعلمی ظاہر کی ہے کہ اس کے لیے مرکزی دھارے میں شامل تمام جماعتوں کو مدعو کیا گیا ہے یا نہیں۔

بی بی سی کے معاون صحافی ماجد جہانگیر نے بتایا ہے کہ محبوبہ مفتی نے مقامی اخبارات سے بھی ملاقات کی دعوت کی تصدیق کی ہے۔ ان کے علاوہ جموں و کشمیر کی ‘اپنی پارٹی’ کی ترجمان نے بھی کہا ہے کہ انھیں بھی ملاقات کے لیے مدعو کیا گیا ہے۔

محبوبہ مفتی

پی ڈی پی رہنما محبوبہ مفتی

اب کیا بات ہونے والی ہے؟

انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں ضلعی ترقیاتی کونسل (ڈی ڈی سی) کے انتخابات کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ اسمبلی انتخابات کی تیاری بھی جلد ہی شروع ہوجائے گی لیکن اس میں کتنا وقت لگے گا اس کے متعلق بات واضح نہیں تھی۔

لیکن اب میٹنگ کی خبر سامنے آنے کے بعد یہ خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ مرکزی حکومت اسمبلی انتخابات کے لیے نشستوں کی حلقہ بندیاں طے کرنے سے پہلے فریقین کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتی ہے۔

سری نگر سے تعلق رکھنے والے صحافی ماجد جہانگیر نے بتایا کہ جموں و کشمیر میں سیاسی تعطل کو توڑنے کی یہ ایک کوشش ہے اور اس کے ساتھ ہی بین الاقوامی سطح پر یہ پیغام جائے گا کہ کشمیر میں حالات معمول پر ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت مقامی رہنماؤں کو ساتھ لے کر یہ عمل شروع کرنا چاہتی ہے کیونکہ ان کے بغیر سیاسی عمل کی بحالی ممکن نہیں ہے۔

گذشتہ ہفتے ایک اجلاس کے بعد نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ نے کہا تھا کہ وہ مرکز کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔

فاروق عبداللہ نے کہا کہ انھوں نے کوئی دروازہ یا آپشن بند نہیں کیا ہے، اگر انھیں دعوت ملتی ہے تو اس وقت فیصلہ کیا جائے گا۔

فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ

نیشنل کانفرنس کے رہنما فاروق عبداللہ اور ان کے بیٹے اور سابق وزیر اعلی عمر عبداللہ

وزیر داخلہ کا اجلاس

دوسری جانب جمعہ کے روز مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے جموں و کشمیر میں متعدد ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے ایک میٹنگ کی۔

اس کے دوران انھوں نے کہا کہ مرکزی کے زیر انتظام علاقوں کے تمام لوگوں کی ترقی اور بہبود مودی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔

امت شاہ کے علاوہ لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا، این ایس اے اجیت دوبھال، ہوم سکریٹری اجے بھلا، آئی بی کے ڈائریکٹر اروند کمار، را (آر اے ڈبلیو) کے سربراہ سامنت کمار گوئل، سی آر پی ایف کے ڈائریکٹر جنرل کلدیپ سنگھ اور جموں و کشمیر کے ڈی جی پی دلباغ سنگھ بھی اس میٹنگ میں موجود تھے۔

یہ بھی پڑھیے

کشمیر کو خصوصی حیثیت کیسے ملی اور اسے ختم کس بنیاد پر کیا گیا؟

یوم یکجہتی کشمیر: پانچ فروری کو کچھ خاص ہوا نہیں تھا تو ہم یہ دن مناتے کیوں ہیں؟

مہاراجہ پر کیا دباؤ تھا؟ کشمیر کے انڈیا سے الحاق کے آخری دنوں کی کہانی

پانچ اگست، سنہ 2019 کو ریاست کی خصوصی حیثیت والے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد تین سابق وزرائے اعلیٰ سمیت متعدد رہنماؤں کو نظر بند کردیا گیا تھا۔ اب رفتہ رفتہ ان سابق وزرائے اعلیٰ کو رہا کردیا گیا ہے۔

اس کے بعد جموں و کشمیر کی سات بڑی جماعتوں نے گپکر ڈیکلیریشن (پی اے جی ڈی) کے تحت عوامی اتحاد تشکیل دیا۔ اس کا بنیادی مقصد ریاست کی خصوصی حیثیت کی بحالی ہے۔

شاہ محمود قریشی

پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی

انڈیا ایک بار پھر کشمیر میں کچھ کرسکتا ہے

ادھر پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کو آگاہ کرتے ہوئے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ انڈیا دوبارہ کشمیر میں کچھ نئی کارروائی کرسکتا ہے۔

بدھ کے روز پاکستانی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘انڈیا ایک بار پھر کشمیر میں غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات اٹھا سکتا ہے۔ وہاں کی آبادی کو دوبارہ تقسیم اور تبدیل کرنے کے لیے کچھ کیا جاسکتا ہے۔’

پاکستانی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے صدر اور اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کو خط لکھا ہے۔ اپنے خط میں انھوں نے لکھا تھا کہ ‘انڈیا گذشتہ 22 ماہ سے کشمیریوں کو دبانے کے لیے کچھ نہ کچھ کرتا رہا ہے۔ کشمیر میں کھلے عام انسانی حقوق کی پامالی کی جارہی ہے۔’

تاہم انڈیا کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ کشمیر اس کا داخلی معاملہ ہے اور پاکستان کو اس پر بولنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ انڈیا کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو پامال کررہا ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ اس کی آبادی میں تبدیلیوں سے یہ حق پامال کیا جارہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ کشمیر سے باہر کے لوگوں کو رہائشی جعلی سرٹیفکیٹ دیے جارہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘1951 سے کشمیر میں ہر قسم کے غیر قانونی اور یک طرفہ اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ ان میں 5 اگست 2019 کا فیصلہ بھی شامل ہے جس کے تحت کشمیر کی آئینی حیثیت کو تبدیل کردیا گیا ہے۔

‘اگر انڈیا مستقبل میں کشمیر میں مزید یکطرفہ تبدیلیاں لاتا ہے تو یہ سلامتی کونسل کی قراردادوں اور چوتھے جنیوا کنونشن سمیت بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہوگی۔’

پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ سلامتی کونسل کو اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کرانے کے لیے پہل کرنی چاہیے۔

انھوں نے مزید کہا کہ وہ اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ پرامن تعلقات چاہتے ہیں اور ان کے پڑوسیوں میں انڈیا بھی شامل ہے۔ قریشی نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت ہی حل کیا جاسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp