ہنزہ میں میوزیکل شو کے خلاف فحاشی پھیلانے کے الزام میں مقدمہ درج، سوشل میڈیا پر تبصرے

عمیر سلیمی - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


گلگت بلتستان کے شہر ہنزہ میں پولیس نے ‘فحش حرکات اور فحش گیت گانے’ کے الزام میں ایک میوزیکل پروگرام کے منتظمین کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

ہنزہ ورس نامی اس شو کے خلاف تھانہ گوجال کی جانب سے دفعہ 294 کے تحت درج ایف آئی آر کے مطابق اس تقریب میں ‘پاکستان کے مختلف شہروں سے’ بلائے گئے لڑکے اور لڑکیاں ‘نیم برہنہ حالت میں فحش گیت گانے کے علاوہ فحش حرکات کر رہے تھے’ جس سے ‘مقامی لوگوں کے جذبات مجروح ہوئے اور یہ لوگوں کے لیے باعث تکلیف بنا ہے۔’

تاہم شو کے منتظمین کی جانب سے ان الزامات کی تردید کی گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اب تک پولیس کی تفتیش میں کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔

گلگت بلتستان میں سیاحت کے وزیر راجہ ناصر علی خان نے اس میوزیکل شو سے متعلق تفصیلات میں جائے بغیر ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ ‘ہنزہ میں ایک تقریب پر عوام کا غصہ قابل فہم ہے۔ ہم مستقبل میں ایسے عمل کو روکیں گے۔’

انھوں نے لکھا ‘گلگت بلتستان اپنی قدرتی خوبصورتی، مہمان نوازی اور مہذب ثقافت کے لیے جانا جاتا ہے۔ ڈانس کی پُرکشش تقاریب کے لیے یہاں کوئی جگہ نہیں۔ ہم منتظمین کی کھوج لگا رہے ہیں اور واقعے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔’

آخر یہ ایونٹ تھا کیا؟

ہنزہ ورس نامی یہ تقریب 11 جون سے 13 جون تک جاری رہی اور منتظمین کے مطابق اس کا تعلق موسیقی، آرٹس، کلچر اور یوگا سے تھا۔ منتظمین کے مطابق یہ ایک مکمل سیاحتی پیکیج تھا جس کی بدولت پاکستان کے مختلف شہروں سے لوگ اس میں شریک ہوئے۔

اس تقریب کے ٹکٹ کی قیمت 7500 سے 50 ہزار روپے فی فرد تھی اور اس کا انحصار اس بات پر تھا کہ آپ ایونٹ میں کتنے دن جانا چاہتے ہیں اور کتنے روز کے لیے کیمپنگ یا ہوٹل میں رہائش اختیار کرنا چاہتے ہیں۔

کسی بھی میوزیکل شو کی خاص بات اس میں آنے والے گلوکار سمجھے جاتے ہیں۔ ہنرہ ورس کے اشتہار کے مطابق اس میں دانیال ظفر، طلال قریشی، حسن رحیم سمیت کئی مقامی گلوکاروں اور ڈی جیز نے پرفارم کیا جبکہ اس میں کچھ اداکار اور انسٹاگرام انفوئنسرز بھی موجود تھے۔

مگر یہ ایونٹ اس وقت لوگوں کی نظروں میں آیا جب پاکستان میں ایک غیر ملکی سیاح اور کینیڈا سے آئی ‘موٹر سائیکل گرل’ روزی گیبریئل نے اس پر تنقید کی اور کہا کہ ‘مجھے ہنزہ کے مقامی لوگوں سے پتا چلا ہے کہ اس سے روایتی اقدار، ثقافت اور زمین پامال ہو رہی ہے۔’

ہنزہ میں اب موسیقی سے متعلق تقاریب پر پابندی

ادھر ڈی سی ہنزہ کی جانب سے 14 جون کو جاری کردہ ایک حکمنامے کے مطابق اس تقریب کے بعد سوشل میڈیا پر اس ہوٹل کے حوالے سے کچھ ‘فحش اور قابل اعتراض’ ویڈیوز گردش کر رہی ہیں۔۔۔ ہوٹل انتظامیہ سے پوچھ گوچھ کی جائے گی، ان پر جرمانہ عائد کیا جائے گا اور کاروبار سیل کر دیا جائے گا۔’

اس حکمنامے کے مطابق منتظمین نے جن شرائط پر میوزیکل شو کرانے کی اجازت حاصل کی تھی انھوں نے ان کی خلاف ورزی کی اور اس وجہ سے ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

ڈی سی ہنزہ نے آئندہ کچھ عرصے کے لیے علاقے کے عوامی مقامات اور ہوٹلوں میں موسیقی یا ثقافت سے متعلق سرگرمیوں و تقاریب پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ مقامی لوگوں کی جانب سے اونچی آواز میں موسیقی کی شکایت کی گئی تھی۔

ڈی سی ہنزہ کے مطابق آئندہ تقاریب کے لیے پولیس، مقامی برادری اور انتظامیہ سے اجازت لینا ہوگی۔

ایک غیر ملکی انفوئنسر کے جعلی پروپیگینڈا کی وجہ سے ہماری ساری محنت ضائع ہوگئی

ہنزہ ورس ایونٹ کے منتظم فاران خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فیسٹیول میں قریب 300 شرکا تھے اور ’اس کا مقصد دنیا کے سامنے پاکستان کی سافٹ ایمیج پیش کرنا تھا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ‘میں نے چار سال کی محنت سے اس فیسٹیول کا منصوبہ بنایا۔ یہ کوئی ریو، سیکس یا ڈرگز کی پارٹی نہیں تھی بلکہ مقامی و ملکی شہرت رکھنے والے گلوکاروں نے یہاں اپنا ٹیلنٹ دکھایا اور سب کو متاثر کیا۔ اسے منعقد کرنے میں پسو کے نوجوانوں نے ہی میری مدد کی۔’

وہ کہتے ہیں کہ نہ صرف تمام متعلقہ محکموں نے انھیں این او سی جاری کیے تھے جبکہ تقریب کے تینوں دن علاقے کے مقامی رہنما، انتظامیہ اور پولیس کے افسران بھی آئے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

رقص کرتے طلبہ کی وائرل ویڈیو میں فحاشی کہاں تھی؟

روزی گیبریئل: قسمت مجھے پاکستان لے کر آئی

سوات: گھروں میں رقص اور موسیقی پر پابندی

فاران کا کہنا ہے کہ ‘ایک غیر ملکی انفوئنسر کے جعلی پروپیگینڈا کی وجہ سے ہماری ساری محنت ضائع ہو گئی ہے اور میرے سمیت شرکت کرنے والے لڑکوں اور لڑکیوں کو قتل کی دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں۔’

وہ کہتے ہیں کہ اس کے انتظامات ایک ایسے کھلے میدان میں کیے گئے تھے جہاں آبادی نہیں تھی لہذا اس کے ‘تینوں روز کسی نے ہم سے اس کی شکایت نہیں کی۔’

ہنزہ میں تقریب کی مخالفت اور حمایت میں لوگ پیش پیش

روزی گیبرییئل نے انسٹاگرام پر اپنے اکاؤنٹ سے ایسی ویڈیوز شیئر کی جس میں لوگوں کو ڈانس کرتے اور منشیات استعمال کرتے دیکھا گیا اور دعویٰ کیا کہ یہ ویڈیو ہنزہ ورس کی ہیں۔ یاد رہے منتظمین نے بی بی سی بات کرتے ہوئے اس کی تردید کی ہے۔

روزی کہتی ہیں کہ ‘تفریح کے نام پر یہ تقاریب ہو رہی ہیں مگر ان میں فحاشی اور منشیات کے کلچر کے علاوہ کچھ نہیں۔’ انھوں نے ساتھ میں اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ میوزیکل شو کے ذریعے وہاں کے مقامی کلچر اور موسیقاروں کو فروغ دینا چاہیے۔

اس کے جواب میں پاکستانی اداکارہ اشنا شاہ کہتی ہیں کہ انھیں اس بات پر اعتراض ہے کہ بعض سفید فام بلاگرز مقامی لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور خود کو ان کا محافظ سمجھتے ہیں۔

دوسری طرف اس ایونٹ کی ٹکٹیں فروخت کرنے والی کمپنی ٹکٹ والا کے ایک مینیجر ارسلان افتخار نے بتایا کہ شو کے لیے تمام متعلقہ اداروں نے این او سی جاری کیا تھا اور اسے ایک ایسے کھلے میدان میں منعقد کیا گیا تھا جو رہائشی علاقے سے دور تھا لہذا شور کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

انھوں نے بتایا کہ اس تقریب میں قومی سطح کے معروف گلوکار شریک تھے جنھوں نے محض وہاں پرفارم کیا اور شو کامیاب رہا۔ ارسلان کہتے ہیں کہ ان الزامات کے حوالے سے کسی مقامی فرد نے ان سے کوئی شکایت نہیں کی۔

گلگت بلتستان کے ایک مقامی فنکار محمد انور نے بی بی سی کو بتایا کہ وہاں لوگوں میں ایسے جذبات پائے جاتے ہیں کہ روایتی ثقافت کے مقابلے اس میوزیکل شو کا طریقہ، سٹائل اور ڈریس کوڈ مناسب نہیں تھا۔

ٹوئٹر پر بھی اس میوزیکل شو پر کئی طرح کے تبصرے سامنے آئے ہیں۔

ایونٹ میں شریک ارحم نے لکھا ہے کہ اس تقریب کی ہدایات کے مطابق منشیات اور شراب نوشی منع تھی مگر اگر کوئی خود اپنے ہوٹل میں ایسا کرتا ہے تو منتظمین پر اس کی ذمہ داری عائد نہیں کی جائے گی۔

ان کا دعویٰ ہے کہ منتظمین میں مقامی لوگ بھی شریک تھے اور سکیورٹی انتظامات کے لیے مقامی پولیس کی مدد حاصل کی گئی تھی جبکہ ہر دن کچرا اٹھایا جاتا تھا اور اس جگہ کو صاف رکھا جاتا تھا۔

جبکہ تیرتی نامی صارف اس کی مخالفت میں لکھتی ہیں کہ ان کا تعلق ہنزہ سے اور وہ اس لیے ایونٹ کے خلاف ہیں کیونکہ یہ لوگ ‘ہماری زمین کو پامال کرتے ہیں، ہماری کمیونٹی میں منشیات اور فحاشی پھیلاتے ہیں۔’

وہ لکھتی ہیں ‘غیر ملکی سیاح کئی دہائیوں سے ہنزہ آرہے ہیں لیکن میں نے ایسا کبھی نہیں دیکھا کہ انھوں نے ہماری بے عزتی کی ہو۔’

‘پورے سال ملک میں مذہب اور ثقافت کے نام پر فتوے جاری ہوتے ہیں۔۔۔۔ پہاڑ آپ کو نہیں بلا رہے یہاں مت آئیں۔’

ہنزہ کی لوکل مہوش عیسیٰ نے ٹوئٹر پر اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ‘مجھے پاکستان میں انتہا پسندی کے ماحول میں اس قسم کی تقاریب میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی۔ میرا واحد اعتراض یہ ہے کہ آپ لوگوں نے یہاں کچرا پھیلایا جو کہ بالکل قابل قبول نہیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp